وزیر اعظم کا اعتماد، اقتصادی وژن اور دنیا کی خطرناک ترین چوٹی


وزیراعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خود کشی کرنے کا دعویٰ کیا تھا، سیاسی مخالفین اس پر لطیفے گھڑ رہے ہیں۔

وزیراعظم کے مخالفین یقیناً یہ نہیں چاہتے کہ وہ خود کشی کر لیں۔ وہ محض ان کے تضادات واضح کر رہے ہیں۔

اسی طرح عمران خان نے جب یہ بات کی تھی تو وہ بھی قرض لینے کی صورت میں خود کشی کرنے میں سنجیدہ نہیں تھے۔ انہیں پتہ تھا کہ وہ مجمعے کو گرمانے کے لئے خطیبانہ شعبدہ بازی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ مجمع اس بات کو سیریئس لے گیا تو یہ قصور عمران خان کا نہیں، سننے والوں کی جذباتیت اور حماقت ہے۔

لیکن عمران خان کیونکہ سرپرائز دینے کی شہرت رکھتے ہیں اور ان کی یہی صلاحیت ان کے مداحوں بالخصوص نوجوانوں کو پسند بھی ہے تو اس امکان کو کلی طور پر رد نہیں کیا جا سکتا کہ کسی روز اچانک وہ اس دعوے پر عمل کر کے اپنے حامیوں اور مخالفین دونوں کو حیران و پریشاں چھوڑ جائیں۔

اگرچہ بہت تکلیف دہ لیکن یہ ایسی ترپ کی چال ہو گی کہ عمران خان کے مخالفین پھر کبھی حکومت میں نہیں آ پائیں گے۔ ان کا سیاسی وجود ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائے گا۔ پاکستان کے عوام اس بات پر ایمان لے آئیں گے کہ اگر اس ملک میں قول کا سچا اور دھن کا پکا کوئی لیڈر کبھی پیدا ہوا تو وہ صرف عمران خان تھا۔ گیلپ کے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق ایک لیڈر کے طور پر وہ اب بھی مقبول ہیں۔

یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کے بعد ان کی پارٹی رہتے دم تک پاکستانیوں کی پسندیدہ ترین جماعت بن جائے گی۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں ووٹروں کی بلا شرکت غیرے سپورٹ کی وجہ سے تحریک انصاف کے علاوہ باقی سیاسی جماعتوں کا وجود ہی عملاً ختم ہو جائے کیونکہ ووٹروں کی حمایت ختم ہو جائے تو سیاسی جماعتوں کی بقا زیادہ عرصہ ممکن نہیں رہتی۔ اصغر خان مرحوم کی تحریک استقلال، فاروق لغاری مرحوم کی ملت پارٹی، اور پرویز مشرف (مفرور اشتہاری) کی آل پاکستان مسلم لیگ وغیرہ اس ”زندہ حقیقت“ کی ”مردہ مثالیں“ ہیں۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اس طرح جب ملک میں عملاً یک جماعتی صورت پیدا ہو جائے تو بدنام زمانہ اور ناکام پارلیمانی نظام سے بابرکت سیاسی بندوبست یعنی صدارتی نظام کی طرف پیش رفت بھی ممکن ہو پائے۔ کیونکہ جب ایک ہی جماعت باقی رہ جائے گی تو پھر وہی ہو گا جو وہ جماعت چاہے گی۔ فی الحال پارلیمانی نظام کی حمایت یا تو کرپٹ اور یا پھر کم محب وطن سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکنان کر رہے ہیں۔

بظاہر تو ہمیں یہی لگتا ہے کہ آئی ایم ایف سے ایک سخت ترین معاہدے کے باوجود عمران خان خود کشی نہیں کریں گے۔ انہیں ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔ کیونکہ انہیں اس معاہدے پر عملدرآمد بھی کرانا ہے اور اس کے نتیجے میں ریاست مدینہ کی تشکیل کر کے قوم کو ایسی معاشی منزل تک پہنچانا ہے جہاں اہل ثروت ہاتھوں میں اشرفیاں لے کر ضرورت مند ڈھونڈنے نکلیں تو انہیں ایک بندہ بھی ایسا نہ ملے جو یہ امداد لینے کا خواہشمند ہو۔ بلکہ انہیں ہر کوئی اپنے سے زیادہ خوشحال اور صدقات و خیرات بانٹتا نظر ائے۔

ایسا تبھی ہو گا اگر عمران خان اپنے قابل قدر جذبے اور بے مثل اقتصادی وژن کے ساتھ خود تمام معاملات کو چلا رہے ہوں اور قوم کی روحانی و سیاسی رہنمائی کے لئے ہر وقت موجود ہوں۔ اس لئے ہم ان کی درازی عمر کے لئے دعاگو ہیں اور ان کی قیادت میں ملک کو ترقی کی منزلوں پر منزلیں مارتے دیکھنا چاہتے ہیں۔

لیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ خان صاحب سرپرائز دینے کی عادت میں مبتلا ہیں اور انہوں نے یہ بھی کہا ہوا ہے کہ میں قوم سے کبھی جھوٹ نہیں بولوں گا تو خدا نخواستہ ثم خدا نخواستہ اگر وہ واقعی اس سیاسی دعوے، یعنی آئی ایم ایف کے پاس جانے کی صورت میں خود کشی، کرنے کا عزم کرتے ہیں تو پھر ہم بوجھل دل کے ساتھ عرض کریں گے کہ وہ اس کے لئے عام لوگوں کی طرح گلے میں پھندہ ڈال لینے، ٹرین کی پٹڑی پر سر رکھنے، نہر میں کودنے یا پٹرول چھڑک کر آگ لگا لینے جیسے تکلیف دہ طریقوں سے اجتناب کریں۔

خدا نخواستہ ایسی کوئی بھی حرکت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قومی یادداشت میں نقش ہو کر رہ جائے گی اور ظاہر ہے یہ کوئی خوشگوار اور قابل دید یادداشت نہیں ہو گی۔ سوشل میڈیا جو پارٹی کا پسندیدہ اور مضبوط پہلو ہے وہاں بھی کمیونٹی گائیڈ لائنز ایسی تصاویر یا ویڈیوز لگانے کی اجازت نہیں دیتیں جو لطیف احساسات یا نازک طبیعتوں پر گراں گزریں۔ تو اتنے جوکھم کا کیا فائدہ جب اسے وائرل بھی نہ کیا جا سکے۔

لہذا اول تو خودکشی کرنی نہیں چاہیے لیکن اگر جناب وزیراعظم کے خیال میں ایسا کیے بغیر چارہ نہیں تو پھر یہ کام اپنے اعتماد سے اپنے اقتصادی وژن پر سے کود کر بھی کامیابی سے مکمل کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).