نئے پاکستان کی تعمیر: ”روحانیت“ کے رحم و کرم پر


وجاہت مسعود کا ہر کالم پختہ اور نپی تلی سوچ کا مظہر ہوتا ہے ان کے لکھے بعض جملے قاری کے ذہن پر نا صرف اپنا اثر چھوڑتے ہیں بلکہ نقش ہو جاتے ہیں نا جانے کیوں آج کل انہی کے لکھے چند جملے تواتر کے ساتھ بار بار ذہن میں سر اٹھا رہے ہیں انہوں نے اپنے کسی کالم میں لکھا تھا۔ ”پختہ سوچ وہی ہے جو اپنے مطالعے، مشاہدے، اور غوروفکر سے جنم لیتی ہے۔ سیکھنا اور چیز ہے اور دوسروں کی سوچ کے اینٹ پتھر اٹھا کر اپنی عقل پر رکھ لینا اور با ت ہے۔ دوسری صورت میں جلد یا بدیر سر جھٹک کر دوبارہ سے گزشتہ حالت کی طرف رجوع کر لیا جاتا ہے“

ان چند جملوں میں ہمارے پورے تہذیبی رویے کا بیان ہے زندگی میں اکثرو بیشتر ہم سب کو ایسے بہت سے لوگو ں سے پالا پڑتا ہے، جنہوں نے ادھر ادھر سے چند باتیں سن کر جمع کی ہوتی ہیں اور ہر محفل میں ہر موضوع پر و ہ اپنی انہی باتوں کو دھرا کر اپنا علم جھاڑتے ہیں۔ ماہ و سال کیا، کئی کئی عشرے ان کی باتوں میں تبدیلی نہیں لا سکتے اس لئے کہ ایسے لوگ نہ سوچتے ہیں نہ سوچنا چاہتے ہیں اور شاید سوچنا جانتے بھی نہیں۔

پاکستان میں جب تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا تو ایسے ہی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس نعرے میں شامل ہو گئی اور اپنی عادت کے مطابق تبدیلی کے نام پر معروف ہونے والے بیانیوں کو بغیر کسی سوچ و بچار کے حرز جان بنا لیا، ان بیانیوں کا مرکز ”نئے پاکستان“ کی تعمیر کا بیانیہ تھا۔

اس بیانیے کے تحت پرانے پاکستان کے اکثر سیاست دان چور، ڈاکو اور لٹیرے ٹھہرائے گئے جبکہ نئے پاکستان کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا گیا کہ جیسے ہی ملک کی باگ ڈور ایک ایماندار قیادت کے ہاتھ میں آئے گی نا صرف بیرونی دنیا کے قرضے ان کے منہ پر مار دیے جائیں گے بلکہ پاکستان اتنی ترقی کرے گا کہ دوسرے ممالک سے لوگ نوکریوں کی تلاش میں پاکستان کا رخ کریں گے اور پھر ہم سب نے دیکھا کہ نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے ملک کی باگ ڈور ایک ایماندار اور صادق و امین قیادت کو سپر د کر دی گئی جس کے بعد نئے پاکستان کی تعمیر کی ابتدا تو نہ ہو سکی البتہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نئے پاکستان کی تعمیر کے نعرے نے دم توڑنا شروع کر دیا ہے، جبکہ غیر پختہ سوچ روایتی انداز میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے۔

نئے پاکستا ن کی کابینہ سے لوگوں کی مایوسی میں روز برعز اضافہ ہو رہا ہے، قوم کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے والے بہت سے دانشور، اینکرز اور صحافی حضرات بھی نئے پاکستان سرکار کی کارکرگی سے مایوس اور ناخوش نظر آ رہے ہیں، اب تو نوبت یہاں تک آ پہنچی ہے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد نئے پاکستان کی ابتدا میں ہی اپنا سر جھٹک کر گزشتہ حالت کی طرف رجوع کر چکی ہے۔ (ان کے نزدیک ایسے نئے پاکستان سے پرانا پاکستان ہی بہتر تھا)

ان حالات میں نئے پاکستان کا خواب دکھانے والے نئے خواب بننے میں لگے ہوئے ہیں یہ لوگ مسائل کے حل کے لئے گہرے غوروغوض کی بجائے مقبول نعروں کا سہارا لے کر خود کو اپنی ہی بدترین کارکردگی کے سونامی سے بچانے کی تگ و دو کر رہے ہیں

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تبدیلی کے لئے وقت کی ضرورت ہے لیکن جس نئے پاکستان کا خواب دکھایا گیا تھا اس کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے کوئی منصوبہ بندی، کوئی سنجیدہ سوچ بچار اور نئے پاکستان کی طرف کوئی قدم اٹھتا ہوا تو نظر آنا چاہیے یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ جس بھی شعبے کو اٹھا کر دیکھ لیں، تنزلی کی طرف گامزن ہے۔ شاید اسی لئے وزیر اعظم پاکستان اب سابقہ وعدوں کو پس پشت ڈال کر روحانیت کی پناہ لے کر نیا پاکستان بنانا چاہتے ہیں اسی لئے انہوں نے گزشتہ دنوں سوہاوہ میں القادر یونیورسٹی کا افتتاح کرتے ہوئے اپنے خطاب میں، فرمایا کہ ہم روحانیت کو سپر سائنس بنائیں گے۔ اس تقریر کی افادیت کے پیش نظر ہم سب کے ایڈیٹر نے جناب وزیر اعظم کی تقریر کو من و عن شائع کر کے آیندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر دیا ہے تا کہ وہ علم و عرفان کے اس چشمے سے محروم نہ رہ جائیں۔ !

وزیر اعظم کی اس تقریر کے متن کا مطالعہ کرتے ہوئے ذہن کی سطح پر مختلف خیالات ابھرتے اور ڈوبتے رہے کچھ منظر بھی فلم کی طرح چلنا شروع ہو گئے، جناب وزیر اعظم کے احترام میں ان خیالات اور مناظر کو جھٹکتا رہا لیکن اس غیر معمولی تقریر کا مطالعہ کرنے کے بعد بھی ایک خیال نے پیچھا نہ چھوڑا وہ یہ کہ ہماری آنے والی نسلیں، جب محترم وزیر اعظم کے ان ارشادات کا مطالعہ کریں گی تو ان کے بار ے میں اور ہم پاکستانیوں کے بارے میں کیا رائے قائم کریں گی۔ !

یہ سوچ کر اس خیال سے جان چھڑانا چاہی کہ اس وقت نہ تو وزیر اعظم ہوں گے اور نہ ہم، ہمیں اس سے کیا غرض کہ آیندہ نسلیں کیا سوچتی ہیں۔ ان کی مرضی جو چاہے سوچیں۔ لیکن اس بے تکی دلیل کے بعد خیالات نے سوالات کا روپ دھارتے ہوئے مکالمہ شروع کر دیا، کہ کیا بطور وزیر اعظم، خان صاحب کو یہ زیب دیتا ہے کہ انتہائی سنجیدہ موضوعات پر اس انداز میں خطاب فرمائیں کہ معلوم ہو ابتدائی کلا س کا کوئی بچہ انتہائی بے ربط جملوں کے ذریعے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کر رہا ہے؟ کیا یہ قوم اور منصب اعلی کی توہین نہیں؟ کیا لکھی ہوئی نپی تلی تقریر پڑھنے میں کوئی قباحت ہے؟ کیا متعلقہ موضوع کے بارے میں اہل علم اور اہل لوگوں سے رائے لینے میں کوئی حرج ہے؟ بہرحال چھوڑیں ان خیالات کو کیونکہ ہر خیال نہ لکھنے کے قابل ہوتا ہے اور نہ بیان کرنے کے جہاں فقط اختلافی خیالات کا اظہار اندھی نفرت اور موت تک کا سبب بن جائے، وہاں ایسے خیالات کے اظہار کی جرات کون کرے۔ بقول اقبال

حلقہ شوق میں وہ جرات اندیشہ کہاں

آہ! محکومی و تقلیدو زوال تحقیق!

میں ذاتی طور پر نئے پاکستان کی تعمیر کا خواہاں ہوں وہ پاکستان جس کے خواب جناب وزیر اعظم نے وزارت عظمی کا تاج پہننے سے پہلے دکھائے تھے مجھے اس بات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ جناب وزیر اعظم نئے پاکستان کی تعمیر کے لئے روحانیت کا سہارا لیتے ہیں یا سائنس کا یا دوسرے جدید علوم کا۔ لیکن یہ بات طے ہے کہ علم کی دنیا میں جذباتی اور غیر پختہ سوچ کے اظہار سے نہ تو نام پیدا کیا جا سکتا ہے اور نہ آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو مفکر پاکستان علامہ اقبال اپنے خطبات میں صوفیا اور ان کے عقائد کو مسلمانوں کے انحطاط کی وجہ نہ لکھتے۔

جہاں پر ہم دوسرے بہت سے مغالطوں کا شکار ہیں وہاں صوفیا کے حوالے سے بھی ایک مغالطہ عام ہے کہ وہ کرامات کے ذریعے انبیا کی طرح ہر خارق العادہ کام انجام دے سکتے ہیں جبکہ ہم نے ان کی معنوی اور اخلاقی تعلیمات کو کبھی جاننے کی کوشش کی اور نہ ان پر عمل کی زحمت کی ہے۔

اب یہ نہیں معلوم کہ جناب وزیر اعظم کس روحانیت کی بات کر رہے ہیں غالب امکان یہی ہے کہ اس حوالے سے بھی انہوں نے کسی معتبر علمی سورس کی طرف رجوع نہیں کیا، ورنہ کسے نہیں معلوم کہ مفکر پاکستان نے فکر اسلامی کی تشکیل جدید میں تصریح کی ہے کہ صوفیا اور ان کے بعض عقائد مسلمانوں کے انحطاط کا باعث بنے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اقبال رح نے تصوف کو اسلام کی سرزمین پر ایک اجنبی پودا قرار دیا ہے۔ جس طر ح کی صوفیا کی حسی کرامات، لوگوں میں معروف ہیں، ان کو اگر مان لیا جائے تو پاکستان کیا پوری اسلامی دنیا کے تمام مسائل ایک لمحے میں حل ہو سکتے ہیں!

اگر ایسی ہی روحانیت وزیر اعظم کے پیش نظر ہے تو، پھر کرامات کے ذریعے پاکستان کے مسائل لمحوں میں حل ہو سکتے ہیں اس مقصد کے حصول کے لئے انہیں پاکستان کی تمام روحانی شخصیات کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر نا ہو گا تا کہ ملک و ملت کے وسیع تر مفاد میں ان کی روحانی خدمات حاصل کی جا سکیں۔ موجودہ ابتر حالات میں تبدیلی سرکار کے پاس یہی تدبیر بچی ہے۔ شاید اس تدبیر کے ذریعے نیا پاکستان وجود میں آسکے۔ ورنہ موجودہ پاکستان سے تو پرانا پاکستان ہزار درجے بہتر تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).