سیکورٹی اسٹیٹ میں مولانا فضل الرحمان کو غیر محفوظ کرنا


پاکستان سیکیورٹی اسٹیٹ ملک ہے، یہاں وزیر اعظم سے لے کر صدر مملکت، وزیر اعلیٰ سے گورنر، چیف جسٹس سے سپہ سالار اور بیوروکریسی سے پارلیمانی ممبران تک، سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سے مذہبی جماعتوں تک کوئی بھی ایسا شخص نہیں ہے جو بغیر سیکیورٹی کے اپنی مرضی سے کہیں جا نہیں سکتا۔ پرویز مشرف کے دور اقتدار کے بعد ملک میں بم دہماکے، قتل و غارت، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان میں نہ صرف اضافہ ہوا بلکہ عام آدمی کی زندگی بھی غیر محفوظ ہو گئی۔

یہی وجہ تھی کہ ملک میں نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا گیا اور ضرب عضب آپریشن ہوا۔ جس سے ملک میں دہشت گردی تو کم ہوئی ہے، مگر مکمل طور پر ختم نہ ہو سکی ہے۔ حالیہ لاہور اور بلوچستان دہشتگردی کے واقعات اس کی تازہ مثال ہیں۔ مگر اس ضمن میں کسی سیاسی شخصیت کی ذاتی انا ضد اور مخالفت کی وجہ سے سیکیورٹی واپس لینا احمقانہ فیصلہ ہے۔

جے یو آئی کے قائد مولانا فضل الرحمان سے سیکیورٹی واپس لینے پر جے یو آئی کے پارلیامینٹیرین کی جانب سے کلاشن کوف ہاتھوں میں اٹھا کر جس طرح مولانا فضل الرحمان کی سیکیورٹی سنبھالی ہے، وہ تصاویر جنہیں نہ صرف ملکی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا نے کوریج دی، وہیں پر عالمی میڈیا نے بھی مولانا فضل الرحمن کی اسلام آباد ایئرپورٹ سے رہائش گاہ تک اسلحہ کے ساتھ تصاویر نہ صرف شایع کی ہیں، وہیں پر خود مولانا فضل الرحمان اور حکومت کو خلاف تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے، ساتھ میں سوشل میڈیا فیس بوک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ٹویٹر پر بھی بحث موضوع رہا ہے۔

سب سے بڑی بات کہ اسی روز ٹویٹر پر ثاپ ٹرینڈ بھی مولانا فضل الرحمان کی سیکیورٹی ہی رہا، کے یو آئی کے قائد اور متحدہ مجلس عمل کے صدر مولانا فضل الرحمان جس روز عمرہ کی سعادت کے لئے سعودی عرب روانہ ہوئے اسی روز وفاقی حکومت کی جانب سے سیاسی مخالفت کی وجہ سے مولانا کی سیکیورٹی واپس لی گئی، مولانا فضل الرحمان کی ڈیرہ اسماعیل خان اور اسلام آباد کی رہائش گاہ سے پولیس کو واپس طلب کیا گیا، جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل مولانا راشد محمود سومرو نے جبکہ جے یو آئی کے مرکزی سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری نے بھی پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان سے سیکیورٹی واپس لینے پر وفاقی حکومت کے خلاف تنقید کے تیر چلائے، جبکہ سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے کو چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی مولانا فضل الرحمن کو واپس سیکیورٹی فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

مولانا فضل الرحمان جس روز سعودی عرب سے عمرہ کی سعادت حاصل کرکے واپس وطن آرہے تھے اس سے ٹھیک ایک روز پہلے قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں جے یو آئی کے ممبر مولانا عبدالواسع نے مولانا فضل الرحمان سے سیکیورٹی واپس لینے پر تنقید کی، اور کہا کہ ہم خود کلاشن کوف اٹھا کر مولانا فضل الرحمان کی سیکیورٹی سنبھالیں گے، کل یہ وقت وزیر اعظم عمران خان پر بھی آسکتا ہے، تو اس کی سیکیورٹی کون کریگا؟

جس پر وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے موقف اختیار کیا کہ مولانا فضل الرحمان سے سیکیورٹی واپس نہیں لی گئی ہے جبکہ ریشنلائییز کی گئی ہے، سیکیورٹی کم کی گئی ہے۔ کسی کو ہم 20 بیس پولیس موبائل نہیں دے سکتے، جس پر جے یو آئی کے ممبران نے کھڑے ہو کر احتجاج کیا اور وزیراعظم دیکھتے رہ گئے۔ مولانا فضل الرحمان وفاقی حکومت کے خلاف 13 ملین مارچ کر چکے ہیں، جے یو آئی کا شکوہ ہے کہ میڈیا نے انہیں نظر انداز کیا ہے، جس روز مولانا فضل الرحمان اسلام آباد پہنچے تو، جے یو آئی کے اسمبلی ممبران سابق ڈپٹی سینیٹ چیئرمین سینٹر مولانا عبدالغفور حیدری اور دیگر ممبران نے کلاشن کوف ہاتھوں میں اٹھا کر مولانا فضل الرحمان کے ارد گرد کھڑے تھے، اور یہ تصاویر میڈیا تک سوشل میڈیا کے توسط سے پہنچنے کی دیر تھی، تمام ٹی وی چینلز نے بریک کیا، جس سے سوشل میڈیا پر رد عمل انا شروع ہوگیا۔

کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا فضل الرحمان نے ساتھیوں سے اسلحہ اٹھا کر ایک تیر سے دو شکار کیے ہیں، ایک یہ کہ وہ اپنے سیاسی مخالف عمران خان کے خلاف ہتھیار اٹھا کر تو کسی حد تک جا سکتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ اگر کچھ بھی ہوا تو وفاقی حکومت کے ساتھ ریاست بھی زمے دار ہوگی۔ جو کہ عالمی دنیا میں پاکستانی ریاست اور حکومت کے خلاف نیگیٹو پیغام جائے گا، کچھ ماہ پہلے میڈیا میں خبر پہلی تھی کہ وزیراعظم عمران خان کو مولانا فضل الرحمان مروانا چاہتے ہیں۔

جس پر مولانا فضل الرحمان نے ایک ٹی وی پروگرام میں یہ جواب دیا تھا کہ وہ عمران خان کو سیاسی شہادت نہیں دلوانا چاہتے جبکہ اسی دوران مولانا فضل الرحمان کے بیٹے مولانا اسعد محمود کو بھی کہا گیا تھا کہ اس کی جان خطرے میں ہے۔ پاکستان میں 9، / 11 واقعہ کے بعد سرعام مولوی یا پگڑی داڑھی والا ہتھیار اٹھائے تو مجرم انتہا پسند اور دہشتگرد ٹھرتا تھا۔ مگر جس طرح مولویوں نے اسلحہ اٹھا کر دنیا کو یہ بھی پیغام دیا گیا ہے کہ پاکستان میں آج بھی مولوی لوگ پارلیمنٹ کے اندر یا باہر بھی اتنے طاقتور ہیں جتنی کہ ایک ریاست ہوتی ہے۔

ایم ایم اے کے مرکزی صدر مولانا فضل الرحمان اس وقت وفاقی حکومت کے خلاف سیاسی میدان پر عمل پیرا ہیں۔ مولانا فضل الرحمان کے اوپر 3 تین بار خودکش حملے ہو چکے ہیں۔ جبکہ اس کے بیٹوں اور گھر پر راکٹ حملے کیے جا چکے ہیں۔ ساتھ میں سابق ڈپٹی سینیٹ چیئرمین مولانا عبدالغفور حیدری پر بھی خودکش حملہ ہو چکا ہے، جس میں وہ زخمی ہوئے تھے، سابق جے یو آئی کے پارلیامانی ممبر مولانا حسن جان کو شہید کردیا گیا۔ جبکہ سابق سینیٹر اور جے یو آئی سندھ کے سیکرٹری جنرل علامہ ڈاکٹر خالد محمود سومرو رح کو بھی دہشتگردوں نے حملے میں شہید کردیا تھا۔

ایک ماہ قبل کراچی میں جید عالم الدین مولانا تقی عثمانی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس میں وہ بال بال بچ گئے تھے۔ موجودہ حکومت کے قیام سے سابق چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے تمام سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین سے سیکیورٹی واپس لینے کا فیصلہ سنادیا تھا، لیکن لیکن سب کی چیخ و پکار کے بعد کچھ رہنماؤں کی سیکیورٹی واپس دی گئی، حقیقت میں اس وقت بھی مولانا فضل الرحمان عالمی اسٹبلشمنٹ کے نشانے پر ہیں۔ مولانا فضل الرحمان اس وقت پاکستان کے مدیر سیاسی بصیرت رکھنے والے وہ واحد سیاستدان ہیں جو پاکستان میں عالمی اسٹبلشمنٹ کے لئے رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان میں ختم نبوت ناموس رسالت قانون میں ترمیم ہو، ملک کو سیکولر اسٹیٹ بنانا ہو، یا مدارس کے حوالے سے کوئی قانون سازی ہو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ جے یو آئی اور اس کے مولانا فضل الرحمان ہی ہیں۔ عید الفطر کے بعد مولانا فضل الرحمان نے اسلام آباد جانے اور لاک ڈاؤن کا اعلان کر رکھا ہے۔ وہیں مولانا فضل الرحمان کو منانے کے لئے سعودی حکومت کے ساتھ پاکستان کے اعلیٰ بھی کوشاں ہیں کہ وہ اسلام آباد نہ تو ملین مارچ کریں اور نہ ہی لاک ڈاؤن کریں، اگر وہ ایسا کریں گے تو اس کے لئے مشکلات پیدا ہوں گی۔

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمان اس جگہ پر کھڑے ہیں جہاں 2008 ع میں پرویز مشرف کی حکومت میں بینظر بھٹو کھڑی تھی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی بھی حکومت کے ساتھ تعاون کرنے پر رکھی گئی تھی جیسا تعاون کرے گی ویسی سیکیورٹی فراہم کی جائے گی۔ لیکن محترمہ نے انکار کیا اور نتیجہ 27 ڈسمبر 2008 ع راولپنڈی میں بم دھماکے اور فائرنگ کے نتیجے میں جانبحق ہو گئی۔ اللہ نہ کرے کہ عمران خان مولانا فضل الرحمان کے لئے پرویز مشرف اور بینظر بھٹو کی طرح ثابت ہوں ورنا حالات ایسے پیدا ہو سکتے ہیں جسے کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔

جے یو آئی کے مطابق ان کی قیادت عالمی اسٹبلشمنٹ کے نشانے پر ہے۔ سیاسی مخالفت اپنی جگہ، مگر سیاسی مخالفت کو ذاتی مخالفت میں تبدیل نہ کیا جائے۔ اگر مولانا فضل الرحمان عمران خان کی حکومت کو گرانا چاہتے ہیں تو عمران خان بھی مولانا فضل الرحمان کے خلاف آخری حد تک جا رہے ہیں۔ جو کہ ملک کے لئے کسی بھی صورت بہتر نہ ہوگا۔ کیونکہ شاہ محمود قریشی بھی اسمبلی کے فلور پر کہ چکے ہیں کہ مولانا فضل الرحمان کو سیکیورٹی دینا ہمارا فرض ہے، شاید وفاقی وزیر خارجہ یا تو انجان ہیں یا پھر جان بوجھ کر ایسا جواب دے رہے تھے جو کہ وزارت داخلہ کو دینا چاہیے تھا۔

اس وقت ملک جس حالات سے گزر رہا ہے کل کوئی بھی ملک دشمن قوت اگر کسی کو نقصان پہنچائے تو پھر کیا ہوگا۔ ایسی روایت ہی نہ ڈالی جائے جس سے ملک و قوم کا نقصان ہو اور کوئی تیسری قوت ناجائز فائدہ اٹھائے، جے یو آئی کی ذیلی انصار الاسلام نے بلوچستان کے شہر کوئٹہ میں اجلاس طلب کرکے مولانا فضل الرحمان کی سیکیورٹی کو آخری شکل دی گئی ہے، انجنیئر عبدالرزاق عابد لاکھو نے چاروں صوبوں میں رضاکاروں کی ایک ایک ماہ کی مولانا کی سیکیورٹی کرنے کا پلان بنایا ہے۔ پشاور صد سالہ میں جے یو آئی کے 50 لاکھ سے زائد افراد کا سیکیورٹی پلان بھی اس وقت عابد لاکھو نے سنبھالا تھا، اللہ تعالیٰ سب کا حامی و ناصر ہو، دعا اللہ پاک پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ملک دشمن قوتوں سے پوری قوم کو اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین ثم آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).