آپ ٹیکنیک سیکھ لیں


خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں ڈاکٹر پر تشّدد ہوا، وہ اور ان کے ڈاکٹرز اپنی بات پر اڑے رہے اور وزیر صحت اپنی ہستی کو عزت کا سرچشمہ قرار دیتے رہے۔ دونوں جانب کے حالات دیکھ کر بابا جی اور بچّے کا سوال و جواب یاد آگیا۔

بابا جی سے بچّے نے سب سے بڑی نصیحت کا مطالبہ کیا تو باباجی داڑھی پر ہاتھ پھیر کر بچّے سے مخاطب ہوئے۔ ”میرے بچے بارگاہ ایزدی میں وہ سب کچھ مانگنا جو تم چاہتے ہو لیکن کبھی ٹیکنیک کے بغیر حکمران بننے کی دعا نہ مانگنا اور جانے انجانے میں اگر دل بہک جائے تو فوراً زمین سے مٹی اٹھا کر اپنے چہرے پر مل لینا“۔

بچّے نے حیران ہوکر پوچھا ”بابا جی وہ کیوں؟ بابا جی کی آنکھوں میں چمک عُود آئی اور مُسکرا کر فرمانے لگے“ انسان عاجزی میں رب کو پسند ہوتا ہے، بغیر ٹیکنیک کی حکمرانی انسان کو تکّبر میں مبتلا کردیتی ہے اور تکّبر رب کے ساتھ دشمنی کا نقطہ آغاز ہوتا ہے ”۔

بابا جی کی بات سو فی صد درست لیکن رویے عجیب ہیں ہمارے ہم حکمرانی اور رَب کو الگ الگ رکھنے میں کمال کا ملکہ رکھتے ہیں۔

ہم دنیا کے وہ لوگ ہیں جو حکومت کرنے کے سب سے بڑے شوقین ہیں اور جب بھی حکمران بننے کی آرزو کرتے ہیں تو کھایا پلٹنے کی بات ضرور کرتے ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم حکمرانی تو مانگتے ہیں کھایا پلٹنے کی بات بھی کرتے ہیں لیکن ٹیکنیک مانگتے ہیں اور نہ سیکھتے ہیں۔ مسائل جتنے بھی ہیں ان کے حل کے لئے پورے ملک میں ٹینیک والے کہیں بھی نظر نہیں آرہے اور یہ دائمی منطق ہے کہ جہاں بھی حکمرانی کے لئے ٹیکنیک میسّر نہ ہو وہاں تکّبر کا بسیرا ہوجاتا ہے اور تکّبر بقول بابا جی کے نقطہ آغاز ہے رب کی دشمنی مول لینے کا۔

نقطہ آغاز اور وہ بھی ایسا کہ جس کا خاتمہ تباہی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ہم مذکورہ بالا نصیحت کو پلّے باندھ لیں تو تباہی کا منہ موڑ سکتے ہیں لیکن کیا مغرور صرف حکمران ہوتا ہے؟ نہیں ایک عام انسان سے لے کرحکمران تک کوئی بھی مغرور بن سکتا ہے اور ہم بحیثیت قوم مغرور بن چکے ہیں۔ تماشے روز نئے اتنے ہوجاتے ہیں کہ پرانے پھر یادوں کے دریچوں میں محفوظ ہوجاتے ہیں۔

اندازہ لگانے کے لئے کوئی تحقیق کی شاید ضرورت نہ ہو ابھی پرسوں ہی کا نظارہ ہے۔ اقتدار کا ڈنڈا ہاتھ میں لئے صوبے کے وزیر صحت بندوق والوں کے ساتھ صوبے کے سب سے بڑے ہسپتال میں داخل ہوتا ہے اور عین اس کے سامنے مسلّح افراد ڈاکٹر کی دھلائی کرکے رفوچکر ہوجاتے ہیں۔

کیا انسانوں کے ساتھ یُوں کیڑے مکوڑوں کی طرح سلوک کیا جاتا ہے؟

مدینہ کی ریاست میں عدل کا پیمانہ یوں اچانک کیسے بدل گیا۔ ایسا تو دنیا میں کہیں بھی نہیں ہوتا۔

حیرت، اچنبھے اور پریشانی کا معاملہ ہے لیکن اس پر نہیں کہ حکومت کا کوئی کارندہ اپنی حد سے تجاوز کرتے پوری دنیا میں دیکھا گیا بلکہ اس پر کہ کیا ابھی تک آپ کی سمجھ میں یہ بات نہیں آئی کہ آپ حکمران ہیں سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں میں احتجاج کرنے والے نہیں؟ کیسے آپ کو کوئی یہ احساس دلائے کہ جناب آپ اس ملک کے سیاہ و سفید کے مالک بن چکے ہیں اب عقل و شعور کے ساتھ دل بھی بڑا بنانا ہوگا کہ آپ کے دل اگر یوں چھوٹے رہے تو معاملہ ضرور گڑ بڑ کی طرف جائے گا۔

صوبے کے ڈاکٹرز یقیناً کہیں نہ کہیں غلطی پر ہوں گے لیکن کیا یُوں حکمران بھری ہجوم کے سامنے راہداریوں میں فیصلے کا اختیار لے کر فیصلے صادر فرماتے ہیں؟

ڈاکٹر کی طرف سے نازیبا الفاظ کا استعمال اور انڈا پھینکنے کی حرکت۔ آپ کے ساتھ پولیس گئی تھی گرفتار کروالیتے وہی عدالتیں موجود ہیں جن پر سب سے زیادہ اعتماد آپ کو ہے لیکن آپ نے فیصلہ خود مناسب سمجھا اور کیا بھی وہی جو آپ کرنے آئے تھے لیکن اندازہ نہ کرسکے کہ آپ خود بھی ڈاکٹر ہیں اور بیمار عوام کا درد سب سے زیادہ آپ سمجھ سکتے ہیں۔ اب آپ کے ڈاکٹرز احتجاج پر ہوں گے اور بھگتیں گے یہی غریب عوام۔ بغیر ٹیکنیک کی حکمرانی واقعی تکّبر کا لبادہ انسان کو اوڑھادیتی ہے۔

اس تکّبر نے پوری دنیا کے سامنے پاکستان کو شرمسار کیا۔ ایک طرف خون آلود کپڑوں میں ملبوس ڈاکٹر اور دوسری طرف وزیر صحت کے بیانات۔ ہم ایسا سوچتے بالکل نہیں کہ ایسے حالات میں بے عزتی ہماری اپنی ہوتی ہے۔ ڈاکٹرز اور حکومت کے درمیان پچھلے کئی دنوں سے اختلافات تھے جس پر صوبے بھر میں سٹرائیک بھی کیا گیا اور پھر کہیں جاکر معاملات ٹھنڈے ہوئے۔ ڈاکٹرز اگر ایم ٹی آئی ریفارمز کو لے کر اس کے چند شقوں پر تحفظات رکھتے ہیں تو کیا بحیثیت حکمران آپ ان کے ساتھ بیٹھ نہیں سکتے؟

آپ ٹیکنیک سیکھ لیں جہاں جہاں آپ کو لگتا ہے حکومت اور عوام کے مفادات ہیں آپ ڈٹ جائیں وہاں پوری قوم آپ کے ساتھ کھڑی ہوگی لیکن اس طرح مار دھاڑ کرکے تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو؟ ناممکن ہے۔ آپ کو اگر ڈاکٹروں سے شکوہ ہے تو بٹھائیں ان کو کہ یہ رعایا ہے اور رعایا کے ساتھ نرمی برتی جاتی ہے لیکن اگر یہی رعایا آپ سے شکوہ رکھتی ہے تو لازم ہے کہ آپ بھی ان کی بات سنے بجائے اس کے کہ آپ ان کو جانوروں کا ریوڑ سمجھ کر ہانکنے پر اتر آئے۔ آپ کو یہ وزارت اسی لئے دی گئی ہے کہ آپ مذاکرات کی میز پر مخالف کو چاروں شانے چت کرکے قوم کو فائدہ دیں۔

آپ ٹیکنیک سیکھ لیں ہم دنیا میں اکیلے نہیں جو ہزار مسائل سے لڑ رہے ہیں اور بھی بہت سارے ہیں جو بقاء کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن ہم میں اور ان میں بس یہی ایک فرق ہے کہ ان کے ساتھ ٹینیک ہے اور ہم ٹینیک سے عاری قوم ہیں جس کی وجہ سے ہمارے مسائل میں اور ہماری غلط ترجیحات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔

مسائل طاقت کے استعمال سے حل نہیں ہوتے مل بیٹھ کر ٹیکنیک اپنانے سے حل ہوتے ہیں۔

آپ بے شک مار دھاڑ کرسکتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس طاقت ہے لیکن کچھ ذہن پر زور ڈال کر سوچئیے تکبر اللہ کی ذات کے ساتھ جچتی ہے اور وہی صرف طاقت کا اصل سرچشمہ ہیں۔ آپ اگر طاقت کا ٹینیک استعمال کریں گے تو یاد رکھیئے زندگی خود بھی گناہوں کی سزا دیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).