کیا جمہوریت کا راستہ کوٹ لکھپت جیل سے ہو کر گزرتا ہے؟


ملک میں معاشی بدنظمی اور عالمی سطح پر سفارتی پریشانی سے پیدا ہونے والے حبس میں جمہوریت کے بارے میں نت نئے سوال سامنے آ رہے ہیں۔ حیرت ہے کہ تحریک انصاف عوام میں دو دہائی سے زیادہ کام کرنے کا دعویٰ کرنے کے باوجود اس حقیقت کو سمجھنے سے گریز کررہی ہے۔ ماضی کی طرح یہ حکومت بھی مقبولیت کے خود ساختہ ایسے سروے پر بھروسہ کرنے پر آمادہ ہے جن میں عمران خان کو مقبول لیڈر بتاتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ عوام کی بڑی اکثریت بطور وزیر اعظم ان کی کارکردگی سے مطمئن ہے۔ اس قسم کے جائزوں کی جو بھی حیثیت ہو لیکن ہر لمحہ زوال اور انحطاط کا سامنا کرنے والی حکو مت کو ان پر تکیہ کرنے کی بجائے اپنی ناقص اور افسوسناک کارکردگی کے بارے میں پریشان ہونا چاہئے۔ لیکن عمران خان ایک ایسے وزیر اعظم ہیں جو امور حکومت کو آسان کام قرار دے کر خود ہی مذاق بننے پر اصرار کررہے ہیں۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں روپے کی قدر میں کمی کا آغاز ہو گیا ہے۔ آج یہ شرح 150 روپے فی ڈالر تک پہنچ چکی تھی اور اندیشہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈالرکی قیمت 160 روپے سے تجاوز کرجائے گی۔ ڈالر کی قیمت میں اضافہ سے ملک کا ہر شہری متاثر ہوگا۔ درآمدات مہنگی ہوجائیں گی اور جو مصنوعات کسی درآمدی خام مال کے بغیر ہی تیار ہوتی ہیں ، تاجر اور صنعت کار ڈالر کی بڑھتی قیمت کا عذر تراش کر ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ کریں گے۔ ایران کے خلاف امریکی عسکری مستعدی اور نت نئے بیانات اور خبروں کی وجہ سے تیل کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان میں ہر جنس یا سروس کا تعلق کسی نہ کسی طرح تیل کی قیمتوں سے جوڑ لیا جاتا ہے۔ یعنی ایک طرف روپیہ اپنی قدر کھورہا ہے اور دوسری طرف تیل کی قیمت میں اضافہ کی وجہ سے عام شہریوں کو مہنگائی کی دوہری بوچھاڑ کا سامنا ہوگا۔
عمران خان نے عوام کے ساتھ سچ بولنے کا وعدہ ضرور کیا تھا لیکن اب انہوں نے خاموش رہنے کا عہد کیا ہے۔ اسمبلی میں جانا وہ یوں بھی اپنی شان کے منافی سمجھتے ہیں کیوں کہ اس ایوان میں منتخب ہو کر آنے والے لوگ سچائی اور دیانت کے اس معیار کو نہیں پہنچتے جس کا تقاضہ عمران خان لوگوں سے کرتے ہیں۔ لیکن وہ دیانت کے اس معیار کا کوئی عملی نمونہ پیش کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ نتیجہ میں عمران خان جس نظام حکومت کے مدارالمہام ہیں ، اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت قوم کو درپیش مشکلات کے لئے کیا روڈ میپ تیار کررہی ہے اور مہنگائی کے اس نئے طوفان کا کیسے سامنا کیا جائے گا جو آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ کرنے کے نتیجہ میں افراط زر کی صورت میں اپنے دانت دکھا رہا ہے۔ معاملہ صرف ڈالر کی شرح کو مارکیٹ کے رحم و کرم پر چھوڑنے تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسٹیٹ بنک شرح سود میں بھی اضافہ کرے گا ۔ اس کے علاوہ مشیر مالی امور عبدالحفیظ شیخ یہ بتا چکے ہیں کہ بجلی ، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ ان سب اضافوں کا عام گھریلو بجٹ پر جو اثر مرتب ہوگا، اس کے نتیجے میں ملک میں غربت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ عوام کی بہت بڑی اکثریت خیرات اور سرکاری امداد پر انحصار کرنے پر مجبور ہوگی۔
خیرات بانٹنے کا اہتمام یوں کیا گیا ہے کہ قومی بجٹ میں احساس پروگرام اور بے نظیر بھٹو انکم سپورٹ میں مزید 60 ارب روپے فراہم ہوں گے۔ عبدالحفیظ شیخ نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کے بعد اپنے انٹرویو میں اس پروگرام کے منفی پہلوؤں کا ذکرکرنے کی بجائے یہی ’خوش خبری ‘ فراہم کی تھی کہ حکومت بجٹ میں سماجی بہبود کی مدات میں زیادہ وسائل فراہم کرے گی۔ گویا تحریک انصاف کی حکومت نے سوشل ویلفئر اسٹیٹ کا یہ مطلب وضع کیا ہے کہ پہلے لوگوں کو خط غربت سے نیچے دھکیلا جائے۔ پھر انہیں خیرات کے چند ٹکے دے کر یہ توقع کی جائے کہ ہر کس و ناکس ملک کے سماجی بہبود کے منصوبوں کی توصیف میں رطب اللسان ہو۔ عمران خان کو یہ سمجھنا ہو گا کہ جب پورا نظام ملک کو سیکورٹی اسٹیٹ بنانے کے اصول پر استوار ہو اور حکومت کی تمام ترجیحات بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہوں تو ایسے معاشرہ میں سماجی بہبود کا نظام استوار نہیں ہو سکتا۔ اس کے لئے حکومت کے علاوہ عوام کے سب طبقوں کا ریاست پر اعتماد اور بھروسہ مضبوط کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت یہ کام کرنے میں بھی بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت ابھی تک اپنی معاشی حکمت عملی سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ دوسری طرف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے بھی پاکستان کو مسلسل دباؤ کا سامنا ہے۔ پاکستان کاوفد نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی ذیلی تنظیم ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ براہِ راست ملاقات کے لئے اس وقت بیجنگ میں موجود ہے ۔ 10 رکنی وفد کی قیادت سیکریٹری خزانہ محمد یونس ڈھاگا کررہے ہیں ۔ خبروں کے مطابق اجلاس میں پاکستانی وفد کو منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کے حوالے سے سخت سوالات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔سرکاری وفد وضاحتیں کرتے ہوئے اپنی کارکردگی کی جو رپورٹ پیش کررہا ہے، تنظیم کے بعض اراکین نے ان پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے بھیجی جانے والی رپورٹ کی بنیاد پر ہی ایف اے ٹی ایف پاکستان کو گرے فہرست سے نکالنے یا بلیک لسٹ میں ڈالنے کا فیصلہ کرے گا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali