محمد طاہر خان: پولیس کانسٹیبل سے پی ایچ ڈی بننے تک کا سفر


محمد طاہر خان

محمد طاہر خان خیبر پختونخوا پولیس میں اکیس سالوں سے گریڈ سات کے کانسٹیبل ہیں

پولیس کانسٹیبل کی تعلیم کے بارے میں سوچیں تو یہی خیال آتا ہے کہ بیشتر سپاہی میٹرک یا انٹرمیڈیٹ پاس ہوں گے لیکن پشاور میں ایک ایسے بھی کانسٹیبل ہیں جن کی بائوانفارمیٹکس میں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل ہونے والی ہے اور ان کے سات مقالے بین الاقوامی ریسرچ جنرلز میں چھپ چکے ہیں ۔

محمد طاہر خان خیبر پختونخوا پولیس میں 21 سالوں سے گریڈ سات کے کانسٹیبل ہیں اور ان دنوں وہ پشاور میں پولیس کی فورنزک لیبارٹری میں تعینات ہیں۔

آئندہ چند ماہ میں کانسٹیبل طاہر خان کی پی ایچ ڈی مکمل ہو جائے گی پھر ان کے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگ جائے گا یعنی ڈاکٹر محمد طاہر خان۔

ایسا کم ہی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی کو علم حاصل کرنے کا اتنا جنون ہو کہ مالی مشکلات کے باوجود وہ اپنی زندگی تعلیم کے حصول میں لگادے ۔ محمد طاہر خان کی زندگی ایسی ہی جدو جہد سے بھری پڑی ہے جہاں انھیں ہر جگہ نئے چیلنجز کا سامنا رہا ہے ۔

دنیا میں سب سے مہنگی تعلیم کہاں؟

غریب ترین بچے، اعلیٰ ترین تعلیم

’میں اپنی بیٹی کو کھانا کھلاؤں، یا تعلیم دلواؤں‘

محمد طاہر

گھریلوں مشکلات کی وجہ سے کانسٹیبل بن گئے

محمد طاہر خان پشاور کے مضافاتی علاقے ارمڑ کے رہنے والے ہیں ۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ 1998 میں بی ایس سی کے فائنل ائیر کے طالبعلم تھے۔ گھریلوں مشکلات کی وجہ سے وہ تعلیم اس وقت مکمل نہیں کر سکے اور پولیس میں ایک کانسٹیبل تعینات ہو گئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2008 میں انھوں نے اپنی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا اور بی ایس سی مکمل کرنے کے بعد بائیو ٹیکنالوجی میں ماسٹرز کیا۔

اس کے بعد انھوں نے 2014 میں اسلام آباد کی ایک یونیورسٹی میں بائیو انفارمیٹکس میں پی ایچ ڈی کی تعلیم شروع کی اور اس کے لیے انھوں نے اپنے محکمے سے باقاعدہ اجازت حاصل کی تھی۔

محمد طاہر خان نے بتایا کہ اس دوران انھیں مشکلات کا سامنا بھی رہا۔

بعض اوقات وسائل کی کمی آڑے آتی رہی تو کبھی دیگر مسائل پیدا ہو جاتے اور اس کے لیے انھوں نے قرضہ بھی حاصل کیا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ اس کے لیے سابق انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود نے ان کی مدد کی اور محکمے کی جانب سے بھی انھیں تعاون حاصل رہا تھا ۔

طاہر خان بنیادی طور پر پولیس کے کمیونیکیشن ونگ میں کانسٹیبل بھرتی ہوئے تھے جسے عام زبان میں وائرلیس آپریٹر بھی کہا جاتا ہے لیکن آج وہ خیبر پختونخوا پولیس کی فرانزک لیبارٹری کے اہم رکن ہیں ۔

طاہر خان نے بتایا کہ بنیادی طور پر انھوں پی ایچ ڈی پبلک ہیلتھ میں ٹی بی کے مرض پر کی ہے جس میں بعض اوقات ادویات کے خلاف جسم میں مزاحمت بڑھ جاتی ہے اور ادویات بیماری کو ختم کرنے میں موثر کردار ادا نہیں کر سکتے بلکہ اس سے نقصان ہوتا رہتا ہے ۔

طاہر خان

طاہر فارنزک میں بھی تحقیق کر رہے ہیں

اس کے علاوہ انھوں نے بتایا کہ وہ فرانزک میں بھی تحقیق کر رہے ہیں جس میں مختلف ٹیسٹس کے لیے جو کیمیکل استعمال ہوتے ہیں انھیں دیکھ رہے ہیں کہ مختلف کیمکلز کیسے کام کرتے ہیں ۔

انھوں نے کہا کہ وہ فرانزک سیرالوجی پر تحقیق کر رہے ہیں تاک معلوم کیا جا سکے کہ قانون کے تناظر میں جسم کی رطوبتیں کیسی ہیں حقیقی ہیں یا کوئی اور چیز ہے ۔

خیبر پختونخوا پولیس کے فرانزک نمونے یہاں اسی لیبارٹری میں لائے جاتے ہیں اور وہ اس لیبارٹری کے اہم رکن ہیں ۔

ان سے جب پوچھا گیا کہ انھیں اکیس سال ہو گئے ہیں ان کی ترقی کیوں نہیں ہوئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ گریڈ پانچ میں بھرتی ہوئے تھے اور اس کے بعد حکومت نے پانچ گریڈ والوں کو ترقی دے کر گریڈ سات دے دیا تھا اس لیے وہ ابھی تک اسی گریڈ میں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ان کی معلومات کے مطابق ان کے شعبے میں ایسا کوئی طریقہ نہیں ہے کہ زیادہ تعلیم حاصل کرنے پر ترقی دی جا سکتی ۔

محمد طاہر خان نے بتایا کہ یہ ان کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کریں اور یہ وہ کسی لالچ یا کسی عہدے کے لیے نہیں کی بلکہ وہ پاکستان میں بہتر کردار ادا کرنے کے لیے کی ہے ۔

ان سے جب پوچھا کہ وہ چین کس سلسلے میں گئے تھے تو انھوں نے بتایا کہ اپنے ریسرچ کے سلسلے میں انھیں جانا پڑا۔

انھوں نے کہا کہ ان کی تحقیق کے دو حصے تھے جس میں ایک بائیولوجیکل حصہ تھا جو انھوں نے پاکستان میں مکمل کر لیا تھا لیکن دوسرے حصے کے لیے سہولیات پاکستان میں دستیاب نہیں تھیں اس لیے انھوں نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن نے سکالرشپ حاصل کی اور وہ چھ ماہ تک چین میں کام کرتے رہے جہاں انھوں نے اپنی تحقیق مکمل کی اور وہاں پولیس کے نظام کو بھی قریب سے دیکھا۔

محمد طاہر خان کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں اور سب تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے بچے اعلی تعلیم حاصل کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32547 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp