وراثت ہڑپنے سے روزہ تو نہیں ٹوٹتا؟


ماہِ مبارک کی برکت سے مسلمانوں پر نیکیوں کا چڑھا جوش قابل دید ہوتا ہے۔ پورے سال کے کردہ و ناکردہ گناہ اسی ماہ بخشوانے کی لگن میں اپنی استطاعت سے بڑھ کر کردار ادا کیا جاتا ہے، مستحقین کے لیے جیب اور دل دونوں کشادہ کر دیے جاتے ہیں، مصلوں پر سجدوں کی بھرمار ہوتی ہے، دعا کے لیے ہاتھ، اٹھے اٹھے تھکتے نہیں، صدا لگانے والے خالی ہاتھ لوٹتے نہیں، گھروں سے لے کر سڑکوں تک ایسے روح پرور مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ اللہ اللہ۔

قرآنی احکامات کی یاددہانی کا سلسلہ چاند دیکھنے سے شروع ہو کر چاند دیکھنے تک ہی جاری رہتا ہے۔ اچھی بات ہے، یہی ہونا بھی چاہیے۔ لیکن وراثت کی تقسیم ایک ایسا معاملہ ہے جس کے بارے میں رمضان میں بھی گھروں سے لے کر منبروں تک سناٹا چھایا رہتا ہے۔ ہر طرف زکوٰۃ، صدقات اور عطیات کی چیخ وپکارتو ہوتی ہے، لیکن کسی کونے سے وراثت کی تقسیم کے لیے آواز بلند نہیں ہوتی۔ انسانی زندگی کے اس اہم ترین حکم کی طرف سے پورے سال کی طرح اس ماہ بھی آنکھیں بند کرلی جاتی ہیں، کیوں کہ بعض لالچی قسم کے مسلمانوں کے نزدیک یہ واحد چیز ہے جس کو ہڑپنے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔

والدین اولاد کے سُکھ کے لیے اپنی ساری جمع پونجی لگا کر ایک گھر بناتے اور اس میں بچوں کو بساتے ہیں۔ یہی چار دیواری جو والدین کی زندگی میں سب کو اپنے اندر خوشی خوشی سموئے رکھتی ہے، ان کے بعد داخلی سیاست اور نفسانفسی کی نذر ہوجاتی ہے۔ قرآن پاک کے قانونِ وراثت کو پسِ پشت ڈال کر قبضے کی جنگ میں بہن بھائی ایک خون کے بجائے دو متحارب گروہوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں۔ ایک گروہ وہ جو وراثت کی تقسیم کا معاملہ التوا میں ڈال کر آبائی گھر سے کسی جونک کی طرح چمٹ جاتاہے، والدین نے جو جائیداد بلا تخصیص سب بچوں کے سکھ کے لیے چھوڑی ہوتی ہے، اس سُکھ کو سب میں تقسیم کرنے کے بجائے بڑے دھڑلے اور استحقاق کے ساتھ یہ گروہ صرف اور صرف اپنے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتا ہے، جب کہ دوسرے گروہ میں شامل حق داراکثر، اپنا جائز حق مانگتے مانگتے ہی عمر پوری کر دیتے ہیں اور تھک ہار کے ماں باپ کے پہلو میں جا سوتے ہیں۔

بہت سارے معاملات کی طرح اس معاملے میں بھی معاشرے کے اصول اس قدر ظالمانہ ہیں کہ وراثت تقسیم نہ کرنے والے تو ہر الزام سے بری ٹھہرتے ہیں لیکن اپنا شرعی حق طلب کر نے والوں کو ایسے ایسے بدالقابات اور خطابات سے نوازا جاتا ہے کہ وہ اپنی ہی نظروں میں ہی گر جاتے ہیں۔ حق دار ہو کر بھی فریاد کرنے اور مانگنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ آخر کار ٹھکرا دیے جاتے ہیں۔ میں آئے دن اپنے اطراف قانونِ وراثت کی پامالی کے بدترین اثرات دیکھتی ہوں لیکن افسوس نیکیوں کے اس موسمِ بہار میں بھی کوئی اتنے بڑے گناہ کی طرف توجہ مبذول کروانے کی زحمت نہیں کرتا۔

وراثت اجتماعی معاملہ ہے، لیکن ہم انفرادی عبادت پر اکتفا کر کے اپنے بے چین نفس کو پُرسکون کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ وراثت غضب کرنے کے معاملے پر عموماً میں نے محمودوایاز کو ایک ہی صف میں کھڑا دیکھا ہے، یعنی یہ گناہ صرف دنیاداری کے میل میں اَٹے نام نہاد مسلمانوں کے ہی کھاتے میں نہیں جاتا بلکہ خود کو سچا پکا اور کھرا مسلمان سمجھنے والے افراد بھی اس جرم کے سزاوار ٹھہرتے ہیں۔ قرآن کے ہر حکم کو عین انسانیت کی بھلائی اور فلاح وکامرانی کا باعث سمجھنے والے بھی حق وراثت پر دن دہاڑے ڈاکا ڈالتے ہیں اور شرمندہ تک نہیں ہوتے۔

جن خاندانوں میں وراثت تقسیم کرنے سے گریز برتا جاتا ہے وہاں خود کو مطمئن کرنے کے لیے کئی بودی وجوہات کا سہارا بھی ڈھونڈا جاتا ہے ان میں، پہلی وجہ والدین کے گھر سے ایسی شدید محبت ہے جو اس کی تقسیم کے حکم پر عمل پیرا ہونے سے روکے رکھتی ہے۔ یہ ہنسنے کا مقام ہے کہ چاردیواری کی محبت کو والدین کی محبت کے دعوے میں لپیٹ کر باہمی احترام اور رشتوں کے تقدس پر دے مارا جاتا ہے، اور اسے والدین سے حقیقی محبت کا نام دیا جاتا ہے۔

وراثت کی تقسیم کے راستے میں جو دوسری چیز حائل رہتی ہے وہ مستقبل کی طرف سے شدید غیریقینی اور ذہن میں کلبلاتے وہ اندیشے ہیں جن کے بعد زبان پر بس یہی ہوتا ہے کہ اگر وراثت کے نام پر سب تقسیم کردیا تو ہم آخر کہاں جائیں گے؟ میرا خیال ہے کہ یہ سوال اپنی ذات سے کرنے کے بجائے ہمیں خدا سے کرنا چاہیے جس نے وراثت کا غیرمشروط حکم عائد کیا ہے۔ میرے مشاہدے اور ذاتی تجربے نے اس سوال کا تو بس یہی جواب دیا ہے کہ حکمِ الٰہی کے تحت ہونے والی منصفانہ تقسیم کے بعد اس کی رحمتوں اور برکتوں کی ایسی پھوار برستی ہے کہ کوئی محروم نہیں رہتا، سب بھیگ جاتے ہیں، لیکن اس کے لیے اللہ کی ذات پر اس اندھے یقین کی ضرورت ہے جس کے دعوے تو سب کرتے ہیں لیکن عمل کوئی کوئی۔

رمضان صرف بھوک پیاس پر قابو رکھنے کا نام نہیں بلکہ اپنی بے جا نفسانی خواہشات پر بھی پاؤں دھرنے کا نام ہے۔ جیسے کھلے ہاتھ سے اس ماہ صدقات اور زکوۃ دے کر نیکیاں بڑھاتے ہیں ایسے ہی کھلے دل سے وراثت تقسیم کر کے اپنوں کا بھی بنیادی حق ادا کیجیے۔ وراثت کا مال کھانے سے بے شک روزہ تو نہیں ٹوٹتا لیکن یقین جانیے کسی کام کا بھی نہیں رہتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).