اِک بھرم تھا سو وہ بھی گیا


مایوسی کی اس صورتحال میں چین کا سیاسی نظام مغربی دنیا میں رائج جدید آزاد جمہوریتوں کے بجائے متبادل نظام کے طورپر پیش کیاجارہا ہے۔ چین کی حکمران ’کمیونسٹ پارٹی‘ نے جو نظام وضع کررکھا ہے اس کے تحت ریاست متوسط طبقات کو سرمائے میں حصہ دار توبنارہی ہے جس سے مڈل کلاسز یا متوسط طبقات بڑھ رہے ہیں لیکن چین میں رائج نظام میں سیاسی حقوق البتہ مفقود ہیں۔ شہری آزادیاں میسر نہیں اور ریاستی اثر میں سرکاری میڈیا گویا ایک آہنی پنجرے میں قید ہے۔ کمیونسٹ پارٹی تن تنہا ریاستی نظام پر چھائی ہوئی ہے اور اس کے مدمقابل کسی اور سیاسی جماعت کا وجود ہی نہیں۔ ریاستی نکتہ نظر سے اختلاف کا سادہ مطلب جیل ہے۔

خوبصورت اسلام آباد میں بیٹھ کر اکثر ہماری گفتگو کا محور سٹریٹجک تبدیلیوں کا دلچسپ موضوع رہتا ہے۔ روس اور چین کی قربت کی نت نئی داستانیں اورپُرفریب افواہیں ہمارے کانوں میں رس گھولتی رہتی ہیں۔ ہم سنتے ہیں کہ پاکستان اپنے سرد جنگ کے دیرینہ ساتھی اور اتحادی یعنی امریکہ سے اب دور ہوچکا ہے۔ لیکن اب ہم اسے صرف افواہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس امر کے ٹھوس حقائق بھی ہمارے سامنے اب آنے لگے ہیں۔ ریاستی مشینری جس سختی سے ذرائع ابلاغ کو گرفت میں لارہی ہے، ابلاغی مواد کی کانٹ چھانٹ کا درشت عمل اس تبدیلی کے شواہد وثبوت بن کر ہمارے سامنے ہے۔

حال ہی میں ہماری نظروں کے سامنے ’سیاسی انجینئرنگ‘ ہوئی جس کے ذریعے دو مقبول سیاسی قائدین (نواز شریف اور الطاف حسین۔ ان کے اچھے یا برے ہونے کی بحث سے قطع نظر) کو سیاسی منظرنامے سے مکھن سے بال کی طرح نکال کر باہر پھینک دیاگیا۔ اور مقبول سیاسی قوتوں اور اختلاف کرنے والی آوازوں کو (جیسے پی ٹی ایم یا تحریک تحفظ پختون) قدغنوں کا سامنا ہے۔

یہ کیفیت پاکستانی حکمران اشرافیہ کے بیرونی اثر کو قبول کرنے کی ایک اور مثال ہے؟ یہ نتیجہ اخذ کرنا شاید قبل از وقت ہے۔ لیکن بلاشبہ اس امر کے واضح اشارے ہمارے سامنے ضرور آرہے ہیں کہ پاکستان حاکمانہ طرز حکومت رکھنے والے چین اور مطلق العنان نظام کے حامل روس کے قریب تر ہوتا جارہا ہے۔ چین اور روس کے سیاسی نظام میں جو بات مشترک ہے وہ ان نظاموں میں سیاسی آزادیوں کی خامی ہے۔ البتہ دونوں طرف ریاست اپنے شہریوں کو معاشی ثمرات میں حصہ دار بنائے ہوئے ہے اور یہی چیز ان سیاسی نظاموں کی کامیابی کی کنجی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پاکستانی ریاست اس قابل بھی نہیں کہ معاشی ثمرات یا دوسرے الفاظ میں دولت اپنے شہریوں میں بانٹ سکے یا اس میں انہیں حصہ دار بناسکے۔ لہذا اس بنیادی تقاضے کے پورا ہوئے بغیر محض سیاسی آزادیوں کو کچلنا اُلٹا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔

ریاستی مشینری انکاری ہے کہ تحریک تحفظ پختون (پی ٹی ایم) عوام میں مقبول اور پزیرائی رکھتی ہے کیونکہ ان کے نزدیک پختونخواہ کے عوام میں مقبولیت کی سند جواز تو عمران خان کے پاس ہے۔ تاہم خود پاکستانی معیارات کے لحاظ سے بھی جوبات نہایت غیرمعمولی ہے وہ یہ حقیقت ہے کہ ریاست پی ٹی ایم کی سرگرمیوں کو کسی ہچکچاہٹ کے بغیر کچلنے میں مصروف ہے۔ پی ٹی ایم کو اپنی سرگرمیوں کی قومی ٹیلی ویژن سکرین پر تشہیرکی اجازت نہیں۔ میڈیا ان کی سرگرمیوں کو مکمل نظرانداز کرتا ہے اور ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ یہ بات ہر کسی کو بخوبی علم ہے۔

پاکستانی منظر نامے میں یہ نئی پیشرفت اورتبدیلی محسوس ہورہی ہے کیونکہ ضیا الحق دور کے بعد پاکستانی ریاست نے اس نوعیت کی پابندیاں کبھی ذرائع ابلاغ پر عائد نہیں کیں تھیں کہ کسی خاص گروہ کی سیاسی سرگرمیوں کی تشہیر کو مکمل طورپر روک دیاگیا ہو۔ یہ چین اور روس کے حاکمانہ اور مطلق العنان سیاسی کلچر کا براہ راست پرتو ہے جہاں اختلاف کو پوری قوت سے کچل دیا جاتا ہے اور میڈیا پابند ہے کہ وہ معاشرے میں پائی جانے والے اختلافی نکتہ ہائے نظر کو پیش نہ کرے۔

یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ میڈیا میں موجود اختلاف رائے رکھنے والی آوازوں کا مکمل قلع قمع کیاجاچکا ہے جس سے میڈیا میں سکوت طاری ہے۔ ریاستی مشینری کا یہ خواب اب شرمندہ تعبیر ہورہا ہے کہ پاکستانی میڈیا کو ’ففتھ جنریشن وار‘ میں آلہ کار کے طورپر استعمال کیاجائے۔ ابلاغی جنگجو، قومیت کے نظریہ کے پرشور پرچارک میڈیا کے منظر پر چھائے ہیں اور سیاسی حریفوں کے خلاف پراپگنڈہ مہم چلانا ہی سکہ رائج الوقت ہے۔

میں یہ نہیں کہہ رہا کہ پاکستان جب مغربی جدید آزاد جمہوری نظام کی گود میں بیٹھا تھا، تو اس وقت ایسا نہیں ہوتا تھا۔ پاکستان جب واشنگٹن کا اہم اتحادی تھا، تو اس وقت بھی یہ سب ہورہا تھا البتہ اس وقت کے پاکستانی حکمران جنرل مشرف کی طرح زبانی حد تک ہی سہی لیکن سیاسی آزادیوں اور حقوق کے لئے بات ضرور کرتے تھے اور اس بارے میں ایک بھرم پھر بھی رہتا تھا۔ اب جو تبدیلی آئی ہے وہ ماضی سے بالکل الگ ہے۔ بے مروتی کا اب یہ عالم ہے کہ اظہار کی سیاسی و شہری آزادیوں کا کھلم کھلا قتل جاری ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ عرق ندامت کے بیچ ڈوبنا بھی نصیب نہیں۔ ماضی کا اِک بھرم ہی تھا سو یہ تکلف بھی اب تمام ہوا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2