چاند پر پہلے انسانی قدم کو پچاس برس مکمل ہو گئے


اپولو 11 کی چاند پر اترنے کی 50 سالہ سالگرہ کے موقع پر بی بی سی نے ’تھرٹین منٹس ٹو مون‘ یعنی چاند تک پہنچنے میں 13 منٹ نام کی ایک خصوصی پوڈکاسٹ نشر کی۔ اس پوڈکاسٹ میں چاند پر اترنے کے آخری مراحل کی اور اس لمحے تک پہنچنے سے پہلے کے اہم مہینوں کے بارے میں تفصیلات ہیں۔ پوڈکاسٹ کے میزبان کیون فونگ نے بشمول اپولو کے چند حیات خلابازوں کے منفرد کرداروں سے اپنی ملاقاتوں کو یاد کرتے ہیں۔

***    ***

’تھرٹین منٹس ٹو مون‘ کو بنانے کے لیے ہم نے چار ہفتوں کا بیشتر حصہ ایسے لوگوں کو ڈھونڈنے کے لیے امریکہ میں سفر کرتے ہوئے گزارا جنھوں نے کسی طرح ایک انسان کو بحفاظت دوسری دنیا کی سطح تک پہنچانے میں کردار ادا کیا۔

ٹیکساس میں ہماری ملاقات چارلی ڈیوک سے ہوئی جو اپولو 16 پر خلائی گاڑی کے پائلٹ تھے اور والٹ کننیگم سے جو اپولو 7 کی افتتاحی پرواز کے دوران کمانڈ موڈیول کے پائلٹ تھے۔

شیکاگو میں ہم نے جم لوول کا انٹرویو کیا جو 1968 میں اپولو 8 کی پرواز میں چاند کے گرد گھومے تھے اور بعد میں بدقسمت اپولو 13 کی سربراہی کر رہے تھے۔

تھرٹین منٹس ٹو مون

ہمارا پہلا انٹرویو مائکل کولنز کے ساتھ ہوا جو نیل آرمسٹرانگ اور بز آلڈرن سمیت اپولو 11 کے عملے میں شامل تھے، جنھوں نے 1969 کی گرمیوں میں پہلی دفعہ انسان کو چاند پر اترتے دیکھا۔

مجھے یاد ہے کہ میں رات کو فلوریڈا میں ایورگلیڈز کے ایک سستے ہوٹل میں پہنچا اور گاڑیوں کی پارکنگ میں کھڑے ہو کر چاند کو دیکھا اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ کل میں کسی ایسے شخص سے بات کر رہا ہوں گا جو کسی زمانے میں وہاں پرواز کر چکے ہوں گے۔

لیکن خلاباز تو اس پورے مشن کے ایک چھوٹے، مگر زیادہ معروف حصہ تھے۔

اپولو منصوبے کے ساتھ کم از کم چار لاکھ لوگ منسلک تھے۔ چاند پر صرف مٹھی بھر افراد ہی گئے تھے لیکن تقریباً سب لوگ اس منصوبے کے ساتھ جذباتی طور پر جڑے ہوئے تھے۔

20 جولائی 1969 کو اپولو پروگرام میں کام کرنے والے فیکٹری مزدوروں، انجینیئرز، ٹیکنیشن اور سائنسدانوں کو ایسا محسوس ہوا کہ وہ بھی چاند پر اترے ہیں۔

ہم چاند کی سطح پر لینڈ کرنے سے 13 منٹ پہلے کی ڈرامائی صورتحال کے ساتھ یہ ہی تمام کہانیاں بتانا چاہتے تھے۔

خلاباز نیل آرمسٹرانگ نے بعد میں اس وقت کے بارے میں کہا تھا کہ مشن کا وہ وقت بحران سے بھرا ہوا تھا اور انھیں صورتحال کے بارے میں علم نہیں ہو رہا تھا۔ .

جب آرم سٹرانگ اور آلڈرن چاند کی سطح سے 50 ہزار فٹ کی بلندی پر تھے اور نیچے اتر رہے تھے اس وقت ان کا زمین سے رابطہ منقطع ہونے لگا اور خلائی گاڑی اپنے طے شدہ اترنے کے مقام سے ہٹنے لگی۔

خلانوردوں کے پاس موجود کمپیوٹرز میں، جن پر خلاباز پوری طرح انحصار کرتے تھے، میں ایسی خرابی آ گئی جس کو عملے نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا اور آخری سیکنڈوں میں ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آرمسٹرانگ اور آلڈرن کے پاس شاید ایندھن ختم ہو جائے گا۔

مشن کے رابطوں کی ریکارڈنگ کے آخری 13 منٹ میں آپ ہر کہے گئے لفظ، جملے اور خاموشی کے ساتھ تناؤ کو سن سکتے ہیں۔

لہذا ان بھاری لمحات کو جانچنے اور ان سے یہ بھی سمجھنے کے لیے کہ کیسے دہائی ختم ہونے سے پہلے چاند کی سطح پر ایک عملے کو پہنچانے کے مقابلے نے ان سرور بخش آخری لمحات کو جنم دیا میں اور سیریز کے پروڈیوسر اینڈریو لک بیکر نے اپنا کام شروع کیا۔

میرا بچپن اپولو منصوبے کے بعد 70 کی دہائی میں گزرا۔ میں اس موضوع سے متعلق جو اس واقعے کی کہانی بتاتے ہر چیز، ہر ٹیلی ویژن پروگرام، ہر کتاب اور ہر میگزین کو جذب کرتا تھا اور بعد میں اسی وجہ سے میں نے سائنس کو بطور پیشہ اپنایا۔

میں نے یونیورسٹی کالج لندن سے پہلے ایسٹرو فزکس اور بعد میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مجھے ناسا کے جانسن سپیس سینٹر میں بطور ڈاکٹر اور محقق کام کرنے کا موقع ملا۔

اس کام کے ساتھ جو دلچسپ زندگی مجھے گزارنے کو ملی اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ وہ لوگ بھی تھے جنھوں نے چاند کا سفر کیا تھا۔

سکول کا طالبعلم ہونے کے باوجود میرے خیال سے مجھے اس بات کی سمجھ تھی کہ اگر لوگ انسانوں کو اپنے سیارے کی سطح سے اڑا کر کسی دوسری دنیا میں اتار سکتے ہیں تو یقیناً اس کا مطلب ہے کہ کچھ بھی ممکن ہے۔

تو جب یہ پوڈکاسٹ بنانے کا موقع آیا تو میں اس پر کود پڑا۔

ہم نے امریکہ بھر میں کئی افراد کے انٹرویو گئے، ہم نے بہت سارا وقت ایسے خلابازوں کے گھروں میں ان سے بات کرتے ہوئے گزارا جنھوں نے چاند کے لیے پرواز کی اور اس پر چلے بھی۔

لیکن میرے لیے سابق کنٹرولر سٹیفن بیلز کا ایک انٹرویو ہے جو سب سے سبقت لے جاتا ہے۔ میں سٹیو کو اپولو منصوبے کے لیوک سکائی واکر (فلم سٹار وارز کا اہم کردار) کے طور پر دیکھتا ہوں۔

وہ آئووا ریاست میں ایک کسانوں کی برادری میں جوان ہوئے لیکن وہ راتوں کو جب آسمان واضح ہوتا تھا اس کے ستاروں سے بھرے وسیح اندیھرے کو دیکھتے تھے اور خلا میں مہم جوئی کے خواب دیکھتے تھے۔

بعد میں انھوں نے انجینئیرنگ کی ڈگری حاصل کی اور اپنا دیہاتی علاقہ چھوڑ کر ہلچل بھرے ہوسٹن شہر میں آگئے۔

انھوں نے بطور انٹرن جانسن سپیس سنٹر میں کام شروع کیا۔ وہ خصوصی مہمانوں کو منصوبے کے مشن کنٹرول کا دورہ کرواتے تھے۔

لیکن وہ موقع ملتے ہی اپنی یہ ذمہ داریاں چوڑ کر فلائٹ کنٹرولرز سے ان کے خلائی جہاز کے سسٹم کو چلانے اور اس میں موجود خلا میں سفر کرتے انسانوں کے متعلق کام کی باتیں کرتے تھے۔

انھوں نے فیصلہ کیا کہ یہ وہ جگہ تھی جہاں وہ اس ٹیم کا حصہ بننا چاہتے تھے جو اس منصوبے کو چلا رہی تھی اور اس وقت ان کے جوان ولولے نے انھیں اس میں کامیابی دلائی۔

جب صدر جان ایف کینیڈی اپنی قوم کو ایک دہائی میں چاند تک پہنچانے کے ہدف کا اعلان کیا تو ناسا کو ایسے کام کرنے والے لانے پڑے جو اس وعدے کو پورا کر سکیں۔

انھوں نے جلدی اور اکثر بغیر انٹرویو کے بھرتیاں شروع کر دیں۔ انھوں نے لوگوں کو ان کے ہنر کی بنیاد پر بھرتی کیا اور بعد میں کام کے دوران ان کو جانچا۔

اپولو منصوبے کے فلائٹ کنٹرولر کافی جوان تھے۔ ان کی اوسطاً عمر 26 سال تھی۔ یہ بات یقیناً عجیب محسوس ہوتی ہے کہ اتنی بڑی ذمہ داری نئے لوگوں کو دی گئی جو کچھ ہی عرصہ پہلے یونیورسٹیوں سے باہر آئے تھے لیکن ان کی اس جوانی کو اہم اثاثہ کے طور پر سمجھا گیا۔

اپولو کے فلائٹ ڈائریکٹر گیری گریفن نے مجھے بتایا کہ ’ایسا نہیں کہ انھیں خطرات کی سمجھ نہیں تھی، انھیں بس خوف نہیں تھا۔‘

نڈر اور اپنے آپ کو اپنے کام کے لیے قربان کرنے کو تیار یہ وہی جذبہ تھا جو خلائی منصوبے کی ضرورت تھی۔

سٹیو نے ایک ٹیکنیشن جو منصوبے کی معاونت کا کام کرتے تھے سے پروجکٹ جیمنائی کے مشن کنٹرول میں بطور فلائٹ کنٹرولر تک جلدی سے ترقی کی منزل طے کی۔ اس وقت ان کی عمر 23 برس تھی۔

مشن کنٹرول میں آپ کو یقین نہ بھی ہو ہمیشہ کوئی نہ کوئی آپ کو دیکھ رہا ہوتا تھا، اور جیسے ہی توجہ جیمنائی کی گردشی پرواز سے اپولو اور چاند پر اترنے کی طرف گئی، سٹیو کو راہنمائی، جہاز رانی اور کنٹرول ٹیم میں ڈال دیا گیا۔

یہ وہ لوگ تھے جن کی خلا میں خلائی جہاز کا راستہ بنانے کی ذمہ داری ہوتی تھی۔

20 جولائی 1969 سے پہلے کے مہینوں میں تھکا دینے والی سمیولیشنز کے دوران بھی سٹیفن نے اپنی کارکردگی سے لوگوں کو متاثر کیا۔

جب منصوبے کے مینیجرز، فلائٹ کنٹرولرز کی ٹیم بنا رہے تھے، جو اس وقت کمرے میں موجود ہوں گے جب اپولو 11 تاریخ میں پہلی دفعہ چاند کی سطح پر اترنے کی کوشش کرے گا تو اس فہرست میں 26 سالہ سٹیو کا نام بھی آ گیا۔

لینڈنگ کے دوران وہ مشن کنٹرول کا سب سے اہم کردار ادا کریں گے، وہ بطور ’گائیڈینس آفیسر‘ یعنی راہنمائی افسر اپنی نشست پر بیٹھیں گے۔ اور اس کام کی اہمیت کا انھیں اندازہ تھا۔

انھوں نے 50 سال کے بعد بھی حیرت اور بے یقینی کے ساتھ مجھے بتایا ’یہ 26 سال کا لڑکا، ایک بچہ جو ایک خلائی مشن کو روک سکتا ہے!‘

آرمسٹرانگ اور آلڈرن کے چاند پر اترنے کے آخری 13 منٹ میں کنٹرول روم میں موجود عملے اور ان کی معاون ٹیم ایک کے بعد ایک مسئلے سے دوچار ہو رہی تھی۔

وہ چاند کے مدار میں اتنی تیزی سے گردش کر رہے تھے کہ اس بات کا خدشہ تھا کہ وہ طے شدہ مقام پر اتر نہیں سکیں گے۔

زمین کے ساتھ رابطہ خراب ہونے لگا اور پھر جیسے ہی وہ چاند کی سطح کے قریب آئے ان کے کمپیوٹرز کے الارم بجنے شروع ہو گئے جو عملے نے پہلے نہیں دیکھے تھے اور انھیں ان کی سمجھ بھی نہیں آ رہی تھی۔

اس وقت چاند پر لینڈ کرنے کے لیے عملہ مکمل طور پر ایک آٹو پائلٹ پر انحصار کرتا تھا جس کو ’اپولو گائڈنس کمپیوٹر‘ کہا جاتا تھا۔

آج ہم اس کی پروسیسنگ کی طاقت کا مذاق اڑاتے ہیں لیکن اس وقت وہ خلائی جہاز پر سب سے زیادہ پیچیدہ اور جدید آلہ تھا۔

اس کا خلابازوں کی ناممکن کے قریب کارنامہ سرانجام دینے میں مدد کرنا مشن کی کامیابی کے لیے بہت اہم تھا۔

خلائی جہاز پر موجود اس کمپیوٹر کا ڈسپلے اور کی بورڈ ایک بڑے کیلکیولیٹر کی طرح نظر آتے تھے اور اس کے ڈسپلے پر اعداد کے سلسلے نظر آتے تھے جس سے معلومات ملتی تھیں اور مسئلے کے بارے میں پتا چلتا تھا۔

نسا
اپولو 11 کا عملہ نیل آرمسٹرانگ (بائیں جانب)، مائیک کولنز (درمیان میں) اور بز آلڈرن (دائیں جانب) پر مشتمل تھا

آپ مشن کی آوازوں کی ریکارڈنگ میں سن سکتے ہیں کہ بز آلڈرن اور پھر نیل آرمسٹرانگ ڈسپلے پر آنے والے اعداد بولتے ہیں 1202 جسے وہ ’ٹویلو او ٹو‘ بوتے ہیں۔

مشن کنٹرول میں موجود لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔ کیا کمپیوٹر بند ہونے والا ہے؟ کیا انھیں لینڈنگ کو روکنا پڑے گا؟ کیا آرمسٹرانگ اور آلڈرن کی زندگی کو خطرہ ہے؟

کچھ وقت کے لیے خاموشی تھی جب عملہ اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہا تھا اور اس وقت نیل آرمسٹرانگ جن کی عموماً آواز پرسکون ہوتی تھی، انھوں نے رابطہ کیا اور پریشان لہجے میں کہا کہ انھیں ’ٹویلو او ٹو‘ کا بتائیں۔

جس سے بھی ہم نے بات کی یہ وہ واحد موقع ہے جب انھیں یاد ہے کہ خلابازوں کی آواز میں بے چینی پائی گئی تھی۔

آرمسٹرانگ اور آلڈرن کے الارم کو پہلی دفعہ دیکھنے کے 15 سیکنڈ کے دوران سٹیو بیلز نے اپنی معاون ٹیم سے بات کی اور آرمسٹرانگ کو فوری جواب دینے کے لیے کھوج شروع کر دی۔

کچھ سیکنڈ گزر گئے، خلائی گاڑی چاند کی زمین کی طرف گر رہی تھی اور عملے کو ابھی تک یہ نہیں پتا چل رہا تھا کہ کیا اس پر موجود کمپیوٹر ابھی بھی اُنھیں لینڈ کروانے کی حالت میں ہے یا نہیں۔

یہ مشن کنٹرول کے کام کی روح تھی۔ اپولو کی پروازوں کے دوران پیچیدہ نظام میں اسی وقت مسائل آتے تھے جنھیں انسانی آپریٹرز کو بھی اسی لمحے حل کرنا ہوتا تھا۔

اور جب آرمسٹرانگ انتظار کر رہے تھے تمام لوگوں کی نظریں سٹیو بیلز کی طرف گئیں۔

معاون ٹیم کے کمرے سے سٹیو کے ساتھی جیک جرمن نے 1202 کوڈ کو پہچان لیا، جسے انھوں نے کچھ ہفتے پہلے ایک سمیولیشن میں دیکھا تھا۔

یہ بتا رہا تھا کہ کمپیوٹر مشکل میں ہے لیکن اپنا کام کر رہا ہے اور مشن کے اہم ذمہ داریوں پر پورا عمل کرے گا۔

جب یہ الارم مشق کے دوران بجا تھا تو اس وقت سٹیو نے بلاضرورت مشن کو روک دیا تھا جس کے بعد انھیں سرزنش کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

تو جب اپولو 11 کے اترنے کے آخری لمحات میں جب 1202 کا الارم بجا تو سٹیو بیلز کے پاس اس کا جواب موجود تھا کہ اترائی کو برقرار رکھا جائے۔ اس کے بعد کیا ہوا وہ سب کو پتا ہے۔

جب ہم نے فلائٹ کنٹرولرز اور ڈائریکٹرز سے سٹیو بیلز کے بارے میں بات کی تو انھوں نے ایک بے باک اور جوش و ولولے سے بھرے ہوئے جوان کی تصویر کشی کی جو اس سب کے باوجود اہل بھی تھا اور قابل اعتماد بھی۔

ستاروں کا خواب دیکھنے والے بچے نے 1969 کی گرمیوں کی اس رات کسی طرح اپولو منصوبے کے ایک ایسی سب سے مشکل صورتحال میں اپنے آپ کو پایا اور ایک پل میں ایسا فیصلہ کیا جس نے اس مشن کو بچا بھی لیا۔

بعد ازاں جب خلاباز بحفاظت چاند کی سطح پر تھے تو فلائٹ ڈائریکٹر جین کرینز نے انھیں اپنے ساتھ ایک افرا تفری سے بھری پریس کانفرینس میں لے گئے اور جب ان کے کام کا وقت ختم ہوا تو انھوں نے مشن آپریشن کی راہداریوں سے گزر کر ہوسٹن کے تپتے سورج کے سامنے اپنے آپ کو پایا۔

چندھیائی آنکھوں کے ساتھ وہ وہاں کھڑے تھے۔

آئووا سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا جس نے انسان کو چاند تک پہنچانے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

ہمارا امریکہ کے گرد لوگوں اور کہانیوں کو تلاش کرنے کا سفر ایک مخلص کاوش تھی۔

ہم جہاں بھی رکتے ہمیں سٹیو جیسی کہانیں سننے کو ملتی جس میں مشن کی سلامتی اور کامیابی انتہائی نازک مرحلوں سے گزتے منائی دی۔

کسی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ نیل آرمسٹرانگ ویں20 صدی کے ان چند افراد میں سے ہیں جنھیں ممکنہ طور پر 30ویں صدی میں یاد کیا جائے گا۔

ہماری پوڈکاسٹ سیریز ہمیں موقع دیتی ہے کہ نہ صرف ہم انھیں اور ان کے خلاباز ساتھیوں کو یاد کریں بلکہ ان عظیم افراد کو بھی یاد کریں جن کے بغیر انسان کبھی چاند پر اپنے پاؤں کا نقش نہ چھوڑ سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp