لاڑکانو میں ایڈز واقعی بڑی بیماری نہیں ہے


لاڑکانو میں تیزی سے پھیلتی ہوئی خطرناک بیماری ایڈز پر قابو پانے کے لئے سندھ سرکار کی کارکردگی پیش کرنے کے لئے ایم این اے فریال ٹالپور نے پریس سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”لاڑکانہ میں ایڈز کوئی اتنی بڑی بیماری نہیں ہے، سول سوسائٹی خاموش رہے اور صحافی مثبت رپورٹنگ کریں۔ “

سندھ کی صحافی اور سماجی رضاکار حضرات یہ دانائی کی باتیں سن کر بھی خاموش رہنے کے بجائے لاڑکانو میں ایڈز کے پھلتے ہوئے خطرے کے بارے عوام الناس کو مطلع کرنے، اسکریننگ کیمپس لگانے کے بعد اب عید کے دن لاڑکانو شہر میں احتجاجی مظاہرہ کرنے کا پلان بنا رہے ہیں۔

صحافی رشید سموں کا کہنا ہے کہ پہلے یہ بھی اک بہت بڑی خبر ہوا کرتی تھی ”کسی شہر میں اک شخص ایڈز میں مبتلا پایا گیا ہے، اور اب تو ضلع لاڑکانو میں سینکڑوں سے آگے نکلتے ہزاروں لوگوں میں ایچ آئی وی وائرس ہونے کی مکمل تصدیق کے باوجود کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ “ رشید سموں اور اس کے دوست صحافیوں نے پہلے تو صرف خبر کے حوالے ایڈز کے مریضوں کے اعداد و شمار حاصل کرنے کے لئے کام شروع کیا تھا، مگر جب انہوں نے دیکھا کہ ”ایڈز نے تو لاڑکانو کو ایک وبا کی صورت گھیر رکھا ہے تو اب صرف خبر کے لئے نہیں مگر ساتھ ساتھ سماجی ذمیداری سمجھ کر لاڑکانو کے اکثر صحافی اب سماجی رضاکاروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔

اسی سلسلے میں کراچی میں مستقل سکونت اختیار کرنے والے لاڑکانو کے نوجوان سراج چانڈیو اپنے سینکڑوں ساتھیوں کے ساتھ عیدالفطر کے دن لاڑکانو میں ”ایڈز سے بچاؤ کے لئے اک تقریب کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ “ لاڑکانو ہمارہ شہر ہے اور یہ ہماری ذمیداری ہے کہ اپنے علاقے کو اس جان لیوا بیماری سے بچانے کے لئے کام کریں۔ اس سلسلے میں سندھ کے سینکڑوں فنکار، اداکار، گلوکار اور سماجی رضاکار مل کر ایڈز زدہ لوگوں کے ساتھ عید منانے کا فیصلہ کیا ہے، باغ جناح میں جلسہ ہوگا وہاں سے پاکستان چوک تک ریلی نکالی جائی گی اور بیماری میں مبتلا لوگوں کی مدد ے لئے اک فنڈ ریزنگ شو بھی کیا جائے گا، اس سلسلے ہمیں خاطر خواہ پذیرائی بھی مل رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کے ابھی صرف سوشل میڈیا پر شروع کی گئی کمپین کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ پ پ پ کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاڑکانو میں پھیلتی اس بیماری کا نوٹس لیا ہے، اور سندھ سرکار کو تیز اقدامات اٹھانے کے احکامات جاری کردیئے ہیں۔ ایک ہفتے کے اندر ہے بلاول بھٹو کی دونوں پھوپھیاں یعنی ڈاکٹر عذرہ پیچوہو اور فریال ٹالپور سمیت بلاول کے پولیٹیکل سیکریٹری جمیل سومرو اور دیگر پ پ پ رہنما لاڑکانو، رتودیرو وارہ اور دوسرے شہروں میں ہسپتالوں کے دورے کر چکے ہیں۔

اس سلسلے میں سندھ میں سب سے بڑے پیمانے پر سماجی کام کرنے والی تنظیم سندھ گریجویٹس ایسوسی ایشن (سگا) کی جانب سے عام لوگوں میں اس بیماری کے بارے میں انفارمیشن بڑہانے کے لئے عملی کام شروع کیا جا چکا ہے، اس سلسلے میں سندھی بولی میں لاکھوں لوگوں تک سوشل میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے توسط سے پمفلٹ پہنچائے گئے ہیں۔ ساتھ ہے گھر گھر جاکر لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ ایڈز سے ڈرنا نہیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ سندھی میں لکھے پمفلٹ اور بینرز کی مدد سے سمجھایا گیا ہے کہ ”ایڈز دراصل اک وائرس ایچ آئی وی (Human Immunodeficiency Virus ) کے پھیلنے سے ہوتے ہے۔

یہ وائرس انسان کے خون میں موجود سفید جزوں کو تباھ کردیتا ہے، جس سے انسانی جسم میں موجود طبی دفاعی نظام کمزور ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد انسان کو ایڈز AIDS (Acquired Immune Deficiency Syndrome) ہوجاتا ہے۔ ایڈز اک ایسی بیماری ہے جو مختلف وجوہات سے پھیلتی ہے جس میں متاثر مریض سے جنسی تعلقات رکھنا، متاثر مریض سے خون کا انتقال، ہم جنس پرستی، وائرس سے متاثرہ انجیکشن کا دوبارہ استعمال یا پھر متاثرہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں پھیل سکتا ہے۔

سندھ گریجوئیٹ ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل خالد حسین چنا کا کہنا ہے کہ ”یہ بیماری صرف لاڑکانو شہر نہیں مگر پورے لاڑکانو ڈویزن تک پھیل چکی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ سندھ سرکار اس سلسلے میں اکیلے کام نہیں کرسکتی سندھ کی سماجی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑہیں اور اس کام میں اپنا کردار ادا کریں، اس سلسلے میں سگا کے ہزاروں رضاکار سندھ سرکار کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

دوسری طرف اخبارات میں آنے والے اعداد و شمار ہوش اڑا دینے والے ہیں، صرف نؤدیرو اور رتودیرو میں سینکڑوں لوگوں کے خون میں HIV وائرس کی موجودگی کے انکشاف نے تہلکہ مچا دیا ہے۔ سراج چانڈیو کا کہنا ہے کہ رتودیرو میں خون کے نمونے چیک کرنے والی اک کیمپ پر جب صرف پہلے دن ہی متاثر مریضوں کی تعداد 180 لوگوں سے بڑہ گئی تو ڈر کے مارے کیمپ ہی بند کردیا گیا۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ تھی کہ لاڑکانو، رتودیرو، نؤدیرو، قمبر، وارہ اور شہدادکوٹ میں متاثر مریضوں میں سب سے بڑی تعداد چھوٹے قصبوں اور گاؤں کے ایسے معصوم بچوں اور عورتوں کی پائی گئی ہے، جن کے خاندان میں کسی اور میں اس بیماری کی موجودگی کے آثار نہیں ملے۔ جس سے صاف ظاہر ہے کہ وہاں یہ بیماری جنسی بے راہ روی کے بجائے کسی اور طریقے سے پھیلی ہے۔

لاڑکانو پریس کلب کے اکثر صحافی حضرات اس سلسلے میں اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں عام لوگوں میں HIV وائرس پھیلنے کی بڑی وجھ سرنج کا ایک سے زیادہ بار استعمال ہے۔ لاڑکانو میں چانڈکا میڈیکل کالج اور ہسپتال ہونے کی وجہ سے جہاں سندھ پنجاب اور بلوچستان کے سرحدوں اضلاع میں سب سے زیادہ علاج معالجے کی سہولیات اس شہر میں ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے زیادہ اتائی ڈاکٹر بھی یہاں موجود ہیں۔ یاد رہے کہ سندھ میں کراچی اور حیدرآباد کے بعد سب سے زیادہ پرائیویٹ ہسپتالیں، کلینکس اور میڈیکل اسٹور لاڑکانو میں موجود ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ لاڑکانو میں سب سے زیادہ کمائی والا کاروبار بھی میڈیکل اسٹور مانا جاتا ہے۔

سراج چانڈیو کا کہنا ہے کہ ”لاڑکانو کے چانڈکا، سول اور تعلقہ ہسپتالوں سے لے کر سینکڑوں پرائیویٹ ہسپتالوں اور کلینکس میں استعمال ہونے والے انجیکشنز اور دیگر طبی آلات کو حذف کرنے کا کوئی بھی خاطر خواہ بندوبست نہیں، یہاں تک کہ سول ہسپتال میں بھی استعمال شدہ سرنج کو ناکارہ کرنے کے لئے قائم برن سینٹر کئی سالوں سے درست کام نہیں کر رہا۔ اس سے زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے کہ جس طرح بڑے شہروں میں کچھ ٹھیکیدار مرغی کی دکانوں سے آلائشیں اٹھانے کے لئے اپنی گاڑیاں لے کر آتے ہیں اسی طرح سے لاڑکانو کی ہسپتالوں سے استعمال شدہ طبی فضلے کو ٹھکانے لگانے کے بجائے ایسے ٹھیکیداروں کو بیچا جاتا ہے، جو پہلے سے استعمال شدہ سرنجوں کو صاف کرکے دوبارہ پیک کر کے سستے داموں مارکیٹ میں بیچ دیتے ہیں۔ وہاں کے اتائی اور ممکن ہے کہ سرٹیفائیڈ ڈاکٹرز بھی دیہات اور گاؤں سے آنے والے مریضوں کو وہ ہی استعمال شدہ سرج دوبارہ لگالیتے ہیں۔ لاڑکانو میں یہ کاروبار بڑے پیمانے پر جاری تھا، مگر اس کی وجہ سے پھیلتے ایچ آئی وی وائرس کی خبروں نے سب کو ہلا کر رکھ دیا۔

سندھ کے مقبول سماجی رضاکار اور صحافی نثار کھوکھر نے اک کمال کام کیا کے اپنے ساتھیوں ڈاکٹر برکت نوناری، استاد لیاقت میرانی، وکیل جان محمد لہر اور پہلوان جویو سمیت دیگر کے ساتھ مختلف گاؤں کے دورے کر کے میگافون پر اعلانات کرتے رہے اور گھر گھر جاکر لوگوں میں ایڈز کے بارے معلومات دیتے رہے۔

نثار کھوکھر کا کہنا ہے کہ ”لوگ اور سرکار خاموش بیٹھی ہے مگر پورے لاڑکانو میں قیامت برپا ہو چکی ہے۔ جن جن لوگوں میں HIV وائرس پازیٹو پایا گیا ہے وہ لوگ گھر اور محلوں میں اچھوت کی زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ ہم نے جاکر ان لوگوں کی کاؤنسلنگ کی ہے۔ ہمیں اس دوراں انتہائی بھیانک تجربوں سے گزرنا پڑا، لاڑکانو کی تحصیل رتودیرو کے اک چھوٹے سے گاؤں الہڈنو سیلرو میں ایک غریب کسان کے گھر میں چار پائی پر سہمی بیٹھی اس عورت کے درد کو ہم سمجھ ہی نہیں پائے جس پانچ اور سات سال کے دو معصوم بیٹے ایڈز کی وجھ سے مرچکے تھے، اور ایک گاؤں میں رہنے والے اس ہی خاندان کے دیگر س 21 بچوں میں HIV وائرس پازیٹو پایا گیا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جو کھانسی یا ہلکے بخار کا علاج کروانے لاڑکانو گئے تھے اور واپسی پر HIV وائرس ساتھ لے آئے باقی کسر گاؤں اور قصبوں میں موجود اتائی ڈاکٹروں نے پوری کردی جنہوں نے اس کو گاؤں گاؤں پھیلا دیا۔

سوشل میڈیا پر ”صحت منہنجے ماروئڑن جی“ پیج چلانے والے لاہور میں رہنے والے ڈاکٹر جگدیش کمار سندھ میں پھیلنے والی ایڈز کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں، ایک طرف دنیا بھر میں رہنے والے سندھی ڈاکٹرز سے رابطے کرکے اس سلسلے میں مدد کرنے کی اپیل کر رہے ہیں، دوسری طرف زیادہ سے زیادہ مواد سندھی بولی میں ترجمہ کرنے عام لوگوں تک پہنچا رہے ہیں۔

سب سے اہم کام یہ کہ سندھ سے باہر رہنے والے رضاکاروں سے مل کر HIV چیک کرنے والی کٹ کا بندوبست کر رہے ہیں، جو یقینن سروے میں کارگر ہوگی۔

لاڑکانو میں بجلی ترسیل کے ادارے لیسکو میں لائین مین کے طور پر کرنے والے نوجوان شاہد حسین کا کہنا ہے کہ ”اس وقت لاڑکانو میں ہر بیٹھک اور اوطاق میں صرف یہ ہی ایک موضوع گفتگو ہے، ہر شخص دوسرے کو شک کی نگاھ سے دیکھ رہا ہے، جب سے یہ مشہور ہوا کہ اک HIV میں مبتلا ڈاکٹر نے نفسیاتی احساس کمتری اور حسد کی وجھ سے سرنجیں اپنے خون سے آلودہ کر کے سیکڑوں مریضوں کو ایڈز میں مبتلا کردیا تو اب پر کسی ڈاکٹر پر بھروسا نہیں رہا۔ میڈیکل اسٹورز پر نقلی دوائیوں کا کاروبار کم تھا کہ ڈاکٹر خود بیماریاں پھیلانے کا سبب بننے لگے۔ آخر لوگ جائیں تو کہاں جائیں۔

اس سلسلے میں سندھ سرکار کی سنجیدگی کا عالم یہ ہے کہ خود سرکاری نمائندے کہہ رہے ہیں کہ ”لاڑکانو میں ایڈر کوئی بڑی بیماری نہیں ہے، لوگ ایسے ہی گھبرا رہے ہیں۔ لاڑکانو میں قومی اسمبلی کی بلاول بھٹو سے مقابلہ کرنے والے جے یو آئی کے رہنما راشد محمود سومرو کا کہنا ہے کہ“ پ پ پ والے درست فرما رہے ہیں کہ ”لاڑکانو میں ایڈز سب سے بڑی بیماری نہیں ہے، کیونکہ لاڑکانو میں اصل بڑی بیماریاں تو اقربا پروری، بدامنی، مہنگائی، بدعنوانی اور خود پ پ پ ہے، جس کی وجھ سے یہ خوبصورت اور پرامن شہر اب موت کے دھانے پر آ کر کھڑا ہوا۔ “

(نوٹ: شہر کا اصل نام ”لاڑکانو“ ہے نہ کہ لاڑکانہ، اس سلسلے میں ڈپٹی کمشنر لاڑکانو نے اک نوٹیفکیشن بھی جاری کیا ہے، شہر اور ضلع کا لاڑکانہ کے بجائے، اصلی نام ”لاڑکانو“ لکھا اور پڑھا جائے۔ )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).