سفرنامہ ”شنگریلا کی تلاش“ سے ایک اقتباس راما جھیل


ڈاک بنگلے سے باہر نکلے توراما وادی اس طرح سامنے آئی کہ جیسے کوئی حسینہ اچانک گلی کی نکڑ پر بے حجاب سامنے آجائے۔

سبز مرغزار تھا جس کی حدیں درختوں کی سبز جھالر کو چھوتی تھیں جس کے پار دلربا پہاڑوں کا ایک وسیع و عریض سلسلہ پھیلاچلا جاتا تھا۔ اس مرغزار کے بیچوں بیچ ایک کومل اور معصوم سی بل کھاتی ندی کانچ کی ردا اوڑھے انتہائی سکون سے بہتی تھی۔ مجھے وہ کوئی ایسی معصوم سی بچی لگی جو چاندی کے گوٹوں سے سجی سرمئی چنری لے کر گھر سے نکلی ہو اور اب اُ س کی چنری اس سے سنبھالے نہ سنبھلتی ہو، کبھی دائیں طرف سے سرکتی ہو تو کبھی بائیں طرف سے مچلتی ہو۔

اس مرغزار میں کئی گھوڑ ے منہ لٹکائے بارش میں نہائی کنواری گھاس چرتے تھے۔ ان گھوڑوں کا سکون اور انہماک دیدنی تھا، انہیں کھانا ختم ہونے کا شائبہ تک نہ تھا، نہ ہی وقت ختم ہونے کاڈر۔ اسی لئے یہ اپنے دسترخوان کا احترام کرتے ہوئے اُ س سے استفادہ کر تے تھے۔ ہم انسانوں کی طرح نہیں جو کھانے کو زندگی کا آخری کھانا سمجھ کر کھاتے ہیں۔ خاص طور پر اُس وقت جب یہ کھانا کسی کی شادی یا دعوت کا ہو۔ استور کے یہ گھوڑے اشرف المخلوق تونہ تھے مگر اپنے اس عمل کی وجہ سے اشرف المخلوق پر سبقت لے گئے تھے۔ استور پولوکے لئے بھی مشہور ہے۔ مجھے پورا یقین تھا کہ یہ پولو کھیلنے والے گھوڑے ہی تھے۔

پی ٹی ڈی سی کے سامنے سے گزر کر ہم درختوں کے ایک جھنڈ کے اندر سے گزرے جہاں سبز مرغزار کے سینے پر لیٹی وہ کومل ندی کئی حصوں میں بٹی تھی۔ یہاں مرغزار کے آثار بتاتے تھے کہ راما وادی میں خیموں میں رہنے والے اپنے خیمے یہیں استادہ کرتے ہوں گے۔ اس جھنڈ سے کچھ ہی دورایک چھوٹی سی ندی ہمارے داہنی طرف سے اترتے ہوئے بائیں طرف کو جاتی دکھائی دیتی تھی۔ دور اس ندی کی کئی شاخیں سفید لکیر وں کی طرح سفید پہاڑوں سے چمٹی دکھتی تھی۔ لگتا تھا جیسے کسی بڑھیا نے اپنی سفید زلفیں کھول کر جھٹکی تھیں کہ وہ وہیں برف ہو گئی تھیں۔

ندی کے اوپر لکڑی کے ایک پل پر سے کچا راستہ لہراتا کچھ ہی دور ایک سنہری موڑ کی آغوش میں چھپتا تھا۔ اس پُل کے سامنے اوردائیں بائیں ایسے مناظر تھے کہ جن کے پہلو میں بیٹھ کر ہر کوئی امر ہونا چاہتا تھا۔ یوں ہم نے بھی ان جاں فزا مناظر کے ساتھ تصویریں بنا کر خود کو صفحہ قرطاس کے زنداں کے حوالے کیا۔

ندی کا پانی جو دور سے کانچ اُگلتادکھتا تھا پاس سے دیکھا تو مٹیالانکلا۔ چھوٹے سے کچے راستے پر یہ ندی ہماری داہنی طرف تھی جبکہ بائیں طرف پہاڑوں کی دیوار تھی جس میں سبز درخت کسی شاہی پوشاک پر قیمتی پتھروں کی طرح جڑے تھے۔

سڑک نا صرف کچی تھی بلکہ اُس پر بڑے بڑے پتھر بھی تھے۔ صرف پتھر ہی نہیں تھے بلکہ خطرناک موڑ بھی تھے۔ یہ وقار ہی تھا جو اس منی پجارو کو ان پتھروں اور موڑوں میں اس طرح گھما رہا تھا جیسے کوئی کھلنڈرا بچہ اپنے گھر کے دالان میں چھوٹی سی ڈنکی کو گھماتا ہو۔

دور ناناگا پربت کے سلسلے کی چوٹیاں ایک دوسرے کے ساتھ بندھی اس طرح دکھتی تھیں جیسے کئی سہیلیاں انگڑائیاں لیتی ہوں ایک موڑ مڑنے کے بعد وادی ہماری بائیں جانب اور پہاڑوں کی دیوار دائیں جانب ہو گئی۔ یہاں سے سڑک کھلی ہوگئی تھی ایک میدان تھا جس میں وہ ایک ندی کی طرح بہتی جاتی تھی۔ ایک نالہ ہماری بائیں طرف بہتا تھا۔

پھر وہ جگہ آ گئی جہاں ایک گلیشئیر پنجاب پولیس کی طرح ناکہ لگائے کھڑا تھا۔ مگر اس ناکے پر نہ ہمارا دل دھڑکا نہ کوئی خوف محسوس ہوا۔ بلکہ ہم بڑے اطمینان سے اپنی گاڑی میں سے اتر کر اس گلیشئیر سے بغل گیر ہونے لگے۔ یہاں کا منظر بہت خواب ناک تھا۔ سامنے برف سے ڈھکی نانگا پربت کی رفیق چوٹیوں پر بادلوں کے سفید اور سرمئی ٹکڑے مٹر گشتیاں کرتے اس وادی کی سرحدوں پر اترتے تھے۔ دائیں جانب کشمیر کی وادیوں سے بغل گیر ہوتے سبز پیرہن میں ملبوس درختوں کی لمبی اور اونچی نیچی قطاریں تھیں۔

بند راستہ دیکھ کر ہم سب کبھی مناظر کو دیکھتے کبھی ایک دوسرے کو۔ فیصلے کا اختیارِ کُل چونکہ میرے پاس تھا اس لئے میں نے اپنی سوچ کو متحرک کرنے کے لئے سگریٹ سلگائی اور ایک پتھر پر بیٹھ کر سامنے موجود دو گھوڑے والوں کو دیکھنا شروع کردیا۔ وہ مجھے تکتے تھے میں ان کو۔ جب اُن میں سے ایک کے ساتھ میری آنکھیں چار ہوئیں تو میں نے اُن میں سے ایک کو غیر شرعی سے انداز میں اشارہ کر کے پاس بلایاجیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کو اشارہ کر کے اندھیرے میں بلاتا ہو۔

” یہاں سے راما جھیل کتنی دور ہے۔ “
میں نے متوازن جسم کے حامل خوبصورت جوان کی بلوری آنکھوں کے حسن میں غوطہ لگاتے ہوئے پوچھا۔

” کافی دور ہے۔ “
وہ بہت چالاک تھا یا معصوم نامکمل جواب دے کر مجھے اپنے سوال کو دوبارہ مرتب کرنے پرمجبور کر دیا۔

” ہم اگر پیدل جائیں تو کتنی دیر میں راما جھیل تک پہنچ سکتے ہیں۔ “
اُس نے پہلے میرے سراپا کو غور سے دیکھا اور بغل میں تیزی سے ہاتھ چلاتے ہوئے کہا۔

” آگے راستہ بہت خراب ہے صاب۔ برپ بھی ہے، کافی چلنا پڑتا ہے۔ کوئی دو گھنٹہ لگ جائے گا۔ “
اتنی دیر میں وقار بھی ہمارے پاس آگیا تھا۔ ا ُس کی بات سن کر اُس نے اپنی ہی زبان میں اُس سے کچھ کہنے کے بعد مجھ سے کہا۔

” سر! جھوٹ بولتا ہے یہ۔ بیس پچیس منٹ سے زیادہ نہیں لگے گا۔ یہ گھوڑا دینے کے لئے چکر دیتا ہے۔ “

” یار! ایک گھوڑا لے لیتے ہیں۔ چلو بچے خوش ہوجائیں گے۔ تم ان سے بات کرلو۔ “ میں نے وقار کو گھوڑے والے کے ساتھ ساز باز کا کامل اختیار دے دیا اور خود سامنے ایک کالے پہاڑ کو دیکھنے لگا۔

” سر یہ کہتا ہے ہم دو ہیں اس لئے ہم دو ہی جائیں گے اور آنے جانے کا دوہزار مانگتا ہے۔ “ وقار یہ وعید سنا کر ہمیں بغیر گھوڑے کے پیدل جانے پر مجبور کر دیا۔

” پندرہ سو پہ مانتا ہے تو لے چلو۔ “

اب نیا امتحان شروع ہوا کہ گھوڑے پر کون بیٹھے۔ بدر نے ایک پورا شیڈول بنایا اور ساتھ یہ کہا کہ اگر بھائی کو گھوڑے کی ضرورت محسوس ہوئی تو وہ کسی بھی وقت کسی سے بھی لے سکتے ہیں۔

” نہیں نہیں سب سے پہلے میں بیٹھوں گا۔ “

میں نے یہ کہہ کر سب کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا۔ اصل میں میں کچھ دیر گھوڑے پر بیٹھ کر دیکھنا چاہتا تھا کہ میرے نازک بدن میں موجود کسی حسینہ کی زلفوں جیسی نازک ہڈیاں اور اُن پر چڑھا گیلی مٹی جیسا گوشت اس گھڑ سواری کو کسی طرح لیتا ہے۔

ایک بڑے سے پتھر پر چڑھ کر میں گھوڑے پر بیٹھ گیا اور ہمارے قافلے نے سفر شروع کیا۔

کچھ ہی دیر میں میری رانوں میں اٹھتی درد کی کسک نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ گھوڑے کی سواری سے بہتر ہے کہ پیدل ہی چلا جائے کم از کم ہچکولے تو نہیں لگتے۔ یوں میں نے گھوڑا چھوڑا اور پیدل چلنا شروع کر دیا۔

سڑک مسلسل بلند ہوتی تھی۔ ایک گلیشئیر ہماری داہنی طرف کسی درویش کی طرح سفید چادر اوڑھے پڑا سسکیاں لیتا تھا۔ وہاں یا ہوا کی مدھر راگنیا ں تھیں یا اس گلشئیر کے اندر سے اٹھتی سسکیاں۔ اس کے علاوہ کوئی آواز کانوں میں نہ پڑتی تھی۔

ایک موڑ پر پہنچ کر ہمارا قافلہ کچھ دیر کے لئے رک گیا۔ میں بھی ایک پتھر کے ساتھ بچھے گھاس کے ایک قطعے پر بازوؤں کا تکیہ بنا کر لیٹ گیا۔ نیلا آسمان میری آنکھوں میں اُترتا تھا اور اُس پر تیرتی بدلیوں کی نمی میری آنکھوں کی پتلیوں پر دستک دیتی تھی۔

دیودار کے درختوں کی مخصوص خوشبو کواپنے دامن میں چھپائے ٹھنڈی ہوا نے جب میری گالوں پر تھپکیاں دیں تو مجھے ٹھنڈک کا شدید احساس ہوا۔ مگر یہ احساس اتنا خوش گوار تھا کہ جی چاہتا تھا کہ میں ساری عمر کے لئے اپنا وجود ان ہواؤں کے سپرد کر دوں۔

کچھ دیر آرام کرنے اور اپنے کیمروں کا پیٹ بھرنے کے بعد ہمارا قافلہ پھر بلندی کی طرف رینگنا شروع ہوا۔ ہم اونچائی پر تھے اس لئے پیچھے کے مناظر بڑے واضح تھے جن میں سبز درختوں کے بیچوں بیچوں پتھریلے کھلے میدان اور ان کے اندر پھیلی بل کھاتی ندی اور جابجا سستاتے ہوئے گلیشئیرز۔

برف کی حشر سامانیوں نے کئی پہاڑوں کو جلا کر راکھ کر دیا تھا۔ ایسے ہی ایک پہاڑ کے اندر سے ایک جھرنا باہر کو بہتا تھا۔ جیسے کسی بڑے سے نل کے اندر سے پانی بہہ رہاہو۔ اس جھرنے اور ارد گرد بہتے پانیوں نے اتنا شور مچا رکھا تھا کہ کانوں پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔

ہم کچھ ہی دور گئے تھے کہ ایک اور گلشئیر سامنے اس طرح پھیلا ہوا تھا جس طرح کسی دیو نے اپنی سفید چادر سوکھنے کے لئے پھیلا رکھی ہو۔ اس میں سے نکلنے والے پانی نے زمرد رنگ کی ایک جھیل بنا دی تھی۔ ۔ کٹورا سی اس جھیل سے پرے برف کا ایک جہان پھیلا ہوا تھا۔ جس میں سے پتھر اور درخت بھی سر اٹھا اٹھا کر جہانِ تازہ کی کوئی نوید سننے کے لئے بے چین تھے۔ اس گلیشئیرکے بالکل درمیان میں انسانی قدموں کے نقوش نے ایک لکیر کھینچ دی تھی۔ اسی لکیر پر چلتے ہوئے ہمیں آگے جانا تھا۔ جب ہم اس گلیشئیر کے پار پہنچے تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ پانی کی ایک نہر اس گلشئیر کے نیچے جا رہی تھی۔ پانی نے ایک سرنگ بنا دی تھی۔ جس میں پانی داخل ہو رہا تھا۔ یہی پانی تھا جو اس گلشئیر کو اندر سے پگھلا رہاہوگا۔

یہاں سردی اور ہوا تو خاصی تیز تھی لیکن بارش کی بوندوں نے سردی میں اضافہ کر دیا تھا۔ ۔ ہم گلشئیرپار کرنے کی مہم سر کرنے کے بعد گلشئیر کے پہلو میں بیٹھے تھے۔ کوئی منہ کھولے سانس اپنے اندر بھرنے کی کوشش کر تا تھا توکوئی سینے کو سہلا تا تھا۔ کوئی گھٹنوں کوپکڑ کر بیٹھا تھا تو کسی کے اپنے ہی ہاتھوں پر اپنا ہی سر دھرا تھا۔ سب کسی نہ کسی مشکل میں تھے لیکن سب کی گردنیں گھومتی تھیں اور سب مناظر کو اپنے اندر کسی نہاں خانے میں قید کرتے تھے۔ سفید دودھیا گلیشئرز کا ایک سلسلہ تھا جو دور پہاڑوں تک پھیلا ہوا تھا۔ گلشئیرز کے آنسوؤں سے تخلیق پانے والی کئی چھوٹی چھوٹی جھیلیں زمرد کے نگینوں کی طرح ان گلیشئیرز کے ساتھ چمٹی ہوئی تھیں۔

خالقِ کائنات کا شاہکار ہمارے سامنے تھا۔ زمرد رنگ کے پانیوں میں برف کے سفید اوراق تیرتے تھے۔ برف سے ڈھکی چھونگرا پیک کا عکس اس طرح پانیوں میں جھلملاتاتھا کہ جیسے کوئی عاشق سفید لباس میں ملبوس اپنے محبوب کی چوکھٹ پر جھکا ہوا ہو۔ سبز قباؤں میں ملبوس پہاڑ جھکے ہوئے اس شاہکار کے درِ نیاز پر سر جھکائے کھڑے تھے۔ آوارہ بادلوں کی ٹکڑیاں اس کے زمرد پانیوں میں غوطے لگاتیں اور اس کے لب چومتے نہ تھکتی تھیں۔ ہوائیں جب اس کے نازک بدن پر چٹکیاں کاٹتیں تو وہ تھرکنے لگتی۔

نیلا امبر دیوانوں کی طرح اس کے زمرد بدن پر رقص کرتا تھا۔ جانے کس کس چوٹی کی برفوں کا پانی محبت کے گیت گاتے اس کے پانیوں میں داخل ہوتا تھا۔ کہیں پس منظر میں ٹوٹتے گلشئیر ز اور رقصاں پانیوں کی آوازیں ماحول میں جلترنگ بجاتی تھیں۔ پرندوں کی ایک ٹولی نیلے امبر تلے اڑتی ہوئی گزری تو ا س جھیل کے پانیوں نے اُن کے سارے نقش اپنے زندانِ دل میں قید کر لئے۔ وہ پرندے مجھے کسی طلسماتی دنیا کی کوئی ماورائی مخلوق لگی جو اس جھیل کے اوپر سے رقص کرتی ہوئی گزری اور نانگا پربت کے معابد میں کہیں جا کرگم ہو گئی۔ میں نا نگا پربت کے سلسلوں کے پربتوں کو دیکھتا تھا جن کی برفوں کی بلندیوں میں مجھے اپنی شنگریلا کا در کھلا دکھتا تھا۔ سرمئی دھند کی اُڑانوں میں کہیں پریوں کے وجود بنتے اور بکھرتے دکھتے تھے۔ اگر وہ تھیں تو پربتوں پر رقصاں تھیں۔

میں ایک پتھر کا سہارا لئے کبھی مالکِ لم یزل کے اس شاہکار کو تکتا تھا تو کبھی برف پوش پہاڑیوں کی وسعتوں کو ماپتا تھا۔ مجھے ہر طرف وجود مالکِ کائنات کی نشانیاں بکھری دکھتی تھیں۔ میں سوچتا تھا کہ جس مالک کی یہ تخلیق اتنی حسین تھی وہ خود کتناحسین ہوگا۔ میں کسی خواب نگر میں کھڑا تھا یا کسی لامکاں میں۔

وہ جس کی دید میں لاکھوں مسرتیں پنہاں

وہ حسن جس کی تمنا میں جنتیں پنہاں

شباب جس سے تخیل پہ بجلیاں برسیں

وقار جس کی رفاقت کو شوخیاں ترسیں

ہوا میں شوخئی رفتار کی ادائیں ہیں

فضا میں نرمئی گفتار کی صدائیں ہیں

غرض وہ حسن اب اس رہ کا جزو منظر ہے

نیاز عشق کو اک سجدہ گہ میسر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).