ایک افسانوی و رومانوی شہر روغان


قارئین کرام آج آپ کی خدمت میں ماضی کے ایک افسانوی و رومانوی شہر، شہر روغان کی داستان بیان کریں گے۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ اس طلسماتی شہر سے واقفیت نا رکھتے ہوں۔ آئیے قدرتی حسن کے اس شاہکار شہر کی سیر کرتے ہیں۔ اس شہر میں ہم آدم خور جنوں کے خوفناک وحشی پن کے ساتھ ساتھ حسین و جمیل شہزادیوں کی قید اور ان کے عشق و محبت کی طلسم ہوش ربا داستانیں دیکھیں گے تو دوسری طرف ماضی کی دھول میں کئی صدیاں قبل غرق کسی قوم کے رہن سہن کو محسوس کریں گے۔

کراچی کو بلوچستان سے ملانے والی شاہرہ کو آر سی ڈی روڈ کہتے ہیں۔ یہ سڑک مقام وندر کے بعد زیرو پوائنٹ سے دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے ایک سڑک آپ کے بائیں ہاتھ جھیل مانی حور کے شمالی طرف سے چکر کاٹ کر ساحل سمندر کے ساتھ ساتھ گوادر سے ہوتی ہوئی ایران کے بارڈر کو جا ملتی ہے جسے مکران کوسٹل ہائی وے کہا جاتا ہے۔ اور بقیہ آر سی ڈی روڈ زیرو پوائنٹ سے اوپر شمال کی طرف اوتھل اور وڈھ کو ملاتی ہوئی خضدار جا نکلتی ہے اور اندرون بلوچستان کو کراچی اور ساحلی علاقوں سے ملاتی ہے۔ جاہو کا مقام آر سی ڈی اور بیلہ ہوشاب شاہراہوں کا سنگم ہے۔ اس مقام سے مشرق کی طرف بیلہ شہر تقریبا پندرہ بیس کلومیٹر کے فاصلے پہ واقع ہے جبکہ مغربی سمت میں یہ بیلہ ہوشاب روڈ آوران سے ہوتی ہوئی ہوشاب پہنچ جاتی ہے جہاں یہ گوادر رتوڈیرو موٹر وے میں مدغم ہو جاتی ہے۔

بیلہ شہر سے وڈھ کو جاتے ہوئے تقریبا بیس کلومیٹر کے بعد آپ بائیں ہاتھ قصبہ گوندرانی کی طرف کم وبیش دس کلومیٹر سفر کرتے ہیں۔ یہاں سے شمال کی جانب مڑتے ہوئے سڑک تقریبا ناپید ہو جاتی ہے کچے ناہموار راستے ہیں اور آڑھائی تین کلو میٹر مزید چلتے ہوئے آپ کو اکا دکا چھوٹے چھوٹے گاؤں ملیں گے۔ یہ راستہ ایک چھوٹی ندی جو دریائے کرد کے نام سے جانی جاتی ہے کے ساتھ ساتھ ہوتا ہوا آپ کی منزل مقصود شہر روغان یا غاروں کے شہر تک لے جائے گا۔ ابھی آپ شہر روغان کے دہانے پہ ہیں اور یہاں سے غاروں کے سلسلے دور دور تک پھیلے ہوئے ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں واقع اس مقام کو ”شہر روغان“ یا ”غاروں کا شہر“ بھی کہتے ہیں، اس کے علاوہ اسے ”روحوں کا گھر“ اور ”جنات کا گھر“ بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں ایک مقامی درویش عورت کا مزار بھی ہے جس مناسب سے اسے ”مائی پیر“ یا ”گوندرانی بیلہ یا مقام“ کہا جاتا ہے۔ کئی جگہوں پہ اس مقام کو ”پرانے گھر“ بھی کہتے ہیں۔

جیسے ہی آپ اس مقام پہ پہنچتے ہیں آپ کو اپنے چاروں طرف یہ غار نما کمرے پہاڑوں میں جابجا بنے نظر آتے ہیں۔ کمروں کی ہیت کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک چھوٹے برآمدے سے گزر کر آپ مرکزی کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ زیادہ تر مرکزی کمروں کے ساتھ دو سے تین چھوٹے کمرے ملتے ہیں۔ ان غاروں یا پہاڑوں میں بنے گھروں کی تاریخ یا آثار قدیمہ کی کوئی شناخت نہیں ملتی لہذا اس کے بارے میں مقامی سطح پہ مختلف کہانیاں یا قصہ گوئی پائی جاتی ہے۔ اس ضمن میں تین داستانیں زیادہ مشہور ہیں۔

پہلا خیال یہ کیا جاتا ہے کہ یہ بدھ مت کے ماننے والوں کی ایک بستی تھی جو تقریبا ساتویں صدی میں یہاں آباد ہوئے۔ یہ باقاعدہ بدھ مت کے پیروکاروں کا جیتا جاگتا شہر تھا۔ بدھ مت مذہب اس خطے میں کبھی اپنے عروج پہ بھی رہا ہے لہذا اس بات میں وزن ہے کہ یہاں بدھسٹ آباد تھے۔ دوسرے ان غاروں کی تعمیر جس میں برآمدے، مرکزی کمرہ، ملحقہ کمرے حتی کہ چراغ رکھنے کی جگہ بھی دکھائی دیتی ہے جو کہ انسانی ہاتھ کے عمل کی تصدیق کرتی ہے۔

اس کے علاوہ انفرادی غاروں جنہیں آپ گھر بھی کہہ لیں ان کی بناوٹ میں بھی فرق پایا جاتا ہے جسے آپ معاشرے میں رہن سہن کی سطح کہتے ہیں۔ کچھ غار بڑے اور کشادہ ہیں جن میں ملحقہ کمرے باورچی خانہ اور اشیاء کو ذخیرہ کرنے کے گودام یا کمرے بھی ہیں جو شاید امراء یا بڑے بدھ بھگشوں کے ہوں گے۔ لیکن تاریخ اس معاملے میں خاموش ہے کہ صدیوں بعد وہ بدھسٹ یہاں سے کیوں چلے گئے؟ کوئی موسمی آفت، بیرونی حملہ آور، قحط یا دوسری اور کون سی غالب وجہ بنی اس شہر کے ختم ہونے کی اس بارے میں ابھی تک حتمی تحقیق موجود نہیں۔ ہاں البتہ نیشنل جیگرافیک نے اپنی ایک اسٹوری میں اس جگہ بدھسٹ قوم کے ہونے کی نشاندہی کی ہے۔

دوسری کہانی کے مطابق یہاں ان غاروں میں بد روحیں اور شیطانی قوتیں رہتیں تھیں۔ یہ قوتیں انسانی گوشت اور خون کی دلدادہ تھیں اور وہ آس پاس کی بستیوں سے انسانوں کو پکڑ کر لے جاتیں تھیں۔ ان شیطانی قوتوں کا خوف چہار سو پھیلا ہوا تھا۔ اسی علاقے میں ایک فقیر عورت بھی رہتی تھی جس کا نام جندرانی تھا۔ اس نے جب یہ ظلم دیکھا تو اس نے ان بد روحوں اور شیطانی قوتوں سے جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس جنگ میں اس اللہ لوک عورت نے انسانی گوشت کھانے والی تمام شیطانی قوتوں کو ختم کیا اور آخر میں خود بھی دنیا چھوڑ گئی۔ اسی مناسبت سے اس مقام کو مائی جندرانی یا مائی پیر بھی کہا جاتا ہے۔ مقامی لوگ ان مائی صاحبہ کے عقیدت مند ہیں اور ان کی قبر پہ منتیں بھی مانتے ہیں۔

ایک اور قصے کے مطابق یہاں ان غاروں میں صدیوں سے جنات رہتے ہیں اور وہ اس وادی میں داخل ہونے والوں پہ حملہ کر دیتے ہیں۔ سینہ بہ سینہ چلنے والے اس علم کے مطابق کسی زمانے میں (وہ زمانہ پیغمبر سلیمان علیہ السلام کا بھی بتایا جاتا ہے ) یہاں انسانوں کی ایک بستی تھی جسے اس وقت شاید ملک کہا جاتا ہوگا اس کے نیک دل بادشاہ کی ایک خوبصورت بیٹی تھی جس کا نام شہزادی بدیع الجمال تھا۔ شہر روغان کے جنات اس جمال رخ شہزادی پہ عاشق ہو گئے اور اسے اٹھا کر لے گئے۔

شہزادی کی واپسی کے لئے بے شمار مہمات ہوئیں جس میں کئی شہزادے بھی آئے لیکن سب نامراد ٹہرے اور کئی مارے گئے۔ آخر کار ایک بہادر شہزادہ جس کا نام سیف الملوک تھا وہ اس مہم میں کامیاب ٹہرا۔ شہزادہ سیف الملوک نے کئی دنوں تک جنات سے جنگ کی اور بالآخر اس بڑے جن کو بھی تہہ تیغ کر دیا جس کا سایہ شہزادی پہ تھا۔ سردار جن کے مرنے کے بعد جنات کی ظاہری حکومت ختم ہونے کے ساتھ شہزادی بھی آزاد ہو گئی۔

لیکن یہاں کے بارے میں مشہور ہے کہ ان غاروں پر جنات کا ابھی بھی قبضہ ہے۔ اور وہ یہاں کسی کو رہنے نہیں دیتے، کبھی جانے والوں کو پتھر مارتے ہیں تو کبھی ان غاروں اور وادی میں ہو کا عالم جانے والے کو دیوانہ وار واپس بھاگنے پہ مجبور کر دیتا ہے۔ بظاہر یہ معلومات کا نا ہونا اور قصہ گوئی معلوم ہوتی ہے۔

ان باتوں میں کتنی سچائی ہے میں وہ بیان کرنے سے قاصر ہوں۔ لیکن اتنا عرض کر سکتا ہوں کہ چونکہ اس علاقے کے طبعی خدوخال ریتلے اور پہاڑی ٹیکروں کی صورت پھیلے ہوئے ہیں، موسم انتہائی سخت ہے یہاں تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ شام کے وقت اکثر اوقات آندھی آتی ہے یہ آندھی مقامی درجہ حرارت کے تفاوت کی وجہ سے گردباد یا گھومتی ہوئی ہواوں کی صورت اختیا کر لیتی اور اپنے ساتھ مٹی اور چھوٹے کنکر لاتی ہے اور قریبی پہاڑوں سے چھوٹے چھوٹے پتھروں کی برسات ہونے لگتی ہے اور ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ جنات نے پتھروں کی صورت حملہ کردیا ہے۔

موضوع کی مناسبت سے ایک دلچسپ بات عرض کرتا چلوں کہ پنجاب کے دیہاتوں میں بھی اپریل مئی کے مہینوں میں چھوٹے گردباد آتے ہیں جسے مقامی زبان میں ’واورولا‘ یا انگریزی میں ’ونڈورلز‘ کہا جاتا ہے۔ جب یہ واورولے آتے ہیں تو بچے شور مچاتے اس کے قریب جانے کی کوشش کرتے ہیں جس کی وجہ ان کے ذہن میں یہ خیال ہوتا ہے کہ اس میں جوتا پھینکنے کی صورت اگر جوتا سیدھا گرا تو میری منت پوری ہو گی۔ اسی لیے بچوں کے لئے یہ داستان گوئی کی جاتی ہے کہ ان گھومتی تیز ہواوں میں جنات موجود ہوتے ہیں۔ طالب علم کے خیال کے مطابق اس کی غالب اور واحد وجہ بچوں کو اس سے دور رکھنے کی کوشش ہے تا کہ کسی جانی نقصان سے بچا جا سکے۔

قارئین کرام قطع نظر کسی بھی افسانوی قصے کے شواہد بتاتے ہیں کہ یہ قسمت کا مارا برباد شدہ شہر کبھی ہنستا ہوا زندگی کے رنگ لئے مکمل طور پہ آباد تھا۔ اس شہر میں یا آس پاس کے شہروں میں بے شمار خوبصورت پری جمال شاہ زادیاں رہتی ہوں گی، لا تعداد شاہ زور سیف الملوک رہتے ہوں گے اور نیک دل بادشاہ بھی۔ عشق و محبت کی لاتعداد داستانیں بھی یقینا ہوں گی۔ کھیت ہوں گے کھلیان ہوں گے، میٹھے پانیوں کے چشمے، بہتے جھرنے، پھلوں کے خوشے الغرض زندگی اپنے رنگوں کے ساتھ جوبن پہ ہو گی۔ پھر صدیوں کے چلنے والے پہیے نے اسے شہر غاراں بنا دیا، مکمل طور پر انسانوں کے بغیر۔ پھر بد روحوں اور شیطانی قوتوں کے ڈیرے لگ گئے چاہے داستانوں میں ہی۔

یہ غار اب مکمل طور پر یتیم پڑے ہیں، موسم اور جغرافیائی شکست ریخت سے مکمل تباہی کی طرف گامزن ہیں۔ انگریز گزٹ کے مطابق 1947 میں ان غاروں کی تعداد 1500 کے لگ بھگ تھی جو اب صرف 500 کے قریب رہ گئی ہے۔ کوئی باقاعدہ راستہ نہیں ہے اس آرکیالوجیکل مقام تک پہنچنے کا۔ مقامی طور پہ کسی بھی قسم کی کوئی سہولت یا اس کے بارے میں تحریری معلوماتی کتابچہ ناپید ہے۔ یہ آثار قدیمہ کا اتنا بڑا خزانہ ہے کہ اگر اس پہ ذرا توجہ دی جائے تو ملین ڈالرز کمائے جا سکتے ہیں۔ ایسی بدانتظامی، لاپرواہی اور نالائقی دیکھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ میرے بلوچستان کا یہ حسیں رومانوی شہر دوبارہ سے بد روحوں کے سائے میں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).