تشکر بسیار ! راحیل شریف


\"farnood01\"جنرل راحیل شریف ان جرنیلوں میں سے ہوئے جو اپنا بخت سلامت رکھ سکے۔ ذہین کون نہیں ہوتا، اپنی ذہانت کو دانشمندی سے ہم آہنگ کرنا در اصل اعصاب کی آزمائش ہوتی ہے۔ یہ کہہ کر چھڑی جنرل راحیل شریف کو تھمائی گئی تھی کہ وہ ایک پیشہ ور اور دیانت دار سپاہی ہیں۔ پیشہ ور شخص اپنے ادارے کا احترام جانتا ہے اور وہ دیانت دار ہو تو دوسرے اداروں کے احترام پہ یقین رکھتا ہے۔ اپنی ذمہ داری وہ چھوڑتا نہیں دوسروں کی ذمہ داریوں کو وہ چھیڑتا نہیں۔ یوں بھی اپنا احترام وہی کروا سکتا ہے جو دوسروں کو احترام بخشنے کا حوصلہ رکھتا ہو۔ عزت مند انسان کی تو پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ وہ عزت دینا جانتا ہے۔ پیشہ ورانہ سنجیدگی کی نسبت اگر ایک سپاہی کی طرف کی جائے تو ہم ایسے ستائے ہوئے لوگ اس سے مراد یہی لے سکتے ہیں کہ کم از کم سیا ست میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ آج جب وہ چھڑی دست بدست آگے بڑھانے کا وقت آیا ہے تو دلِ مضطر جنرل راحیل شریف کی ذہانت اور دانشمندی کی گواہی دینے پہ آمادگی ظاہر کررہا ہے۔

جنرل راحیل شریف کی دانشمندی کا ثبوت خود ان کی قیادت کا دورانیہ ہے۔ ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا آپریشن ضرب عضب انہی کی قیادت میں شروع ہوا۔ کراچی کے حالات میں سدھار لانے کیلئے قومی قیادت نے انہی پر اعتماد کیا۔ قومی لائحہ عمل کو بروئے کار لانے کیلئے بھی پارلیمنٹ نے ان پہ کامل بھروسہ کیا۔ ہر چند کہ کہ جو ذمہ داریاں جنرل راحیل شریف کو سونپی گئیں ان کو کو آئینی شقوں کی تائید حاصل تھی، مگر یہ دھڑکا بجا طور پر لگا رہا کہ فوجی لشکر پورس کے ہاتھی نہ بن جائیں۔ کیونکہ جو ذمہ داریاں قومی اتفاق رائے سے بری افواج کو سونپی جارہی تھیں وہ سول اداروں میں مداخلت کے مواقع بھی مہیا کر رہی تھی۔ جونہی کراچی آپریشن شروع ہوا اس دھڑکے میں مزید تڑکا پڑگیا۔ مشکل یہ آن پڑی کہ عوامی تائید کا ایک بڑا حصہ سپہ سالار کے نصیب میں چلا گیا۔ یہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔ وہ عام شہری جسے حالات کی بے رحمیوں نے مایوس کردیا تھا اسے جینے کی امید ہوچلی۔ شہر چھوڑ جانے والا سرمایہ کار راتوں رات واپس لوٹ آیا۔ قبضہ گیری اور بھتہ خوری کی لعنت سے جان خلاصی ہوئی۔ جو شہر سرِ شام سہم کر دیوار سے لگ جایا کرتا تھا وہ رات گئے تک جاگنے لگا۔ ایسے میں صبح شام اول آخر درود شریف کے ساتھ شکریہ راحیل شریف کا ورد کوئی تعجب کی بات نہیں تھی۔ ہم ایک عام شہری کو دوش بھی نہیں دے سکتے کہ سپہ سالار کو ہی مسیحا کیوں جان بیٹھا ہے۔ دوش اس لیئے بھی نہیں دے سکتے تھے کہ یہ سب در اصل منتخب عوامی نمائندوں کی ناقابل معافی کو تاہی کا نتیجہ تھا۔ وہ کام جو پولیس کے کرنے کا تھا اس کیلئے فوج کو دعوت دینی پڑی۔ پولیس کے محکمے پہ اعتماد اس لیئے نہیں کیا جا سکتا تھا کہ تھانوں میں سیاسی جماعتوں کے مراکز قائم ہوچکے تھے۔ جہاں سے تحفظ ملنا تھا وہیں سے پرچیاں ملنے لگیں۔ جن پتوں پہ عوام نے تکیہ کیا تھا وہی پتے شدت کی ہوائیں دے رہے تھے۔ سیا ست دان کی طرف دیکھیئے تو وہ بد امنی اور قتل و غارت گری کا خاتمہ جمہوریت کے فضائل سے کرنا چاہ رہا ہے۔ دانشور کی طرف نگاہ کیجیئے تو وہ جمہوریت کے استحکام کیلئے پندرہ بیس برس انتظار کی بھیک مانگ رہا ہے۔ نتیجے میں مایوسی نے ہی جنم لینا تھا کہ زلف کے سر ہونے تک کب کون جیا ہے۔ کوئی ایک دکھ ہوتا تو خلق خدا ٹھنڈے پیٹوں کنارہ پکڑ لیتی مگر یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا تھا۔ لوگوں کو ہنگامی بنیادوں پر حل درکا ر تھا جو فوجی آپریشن کے ذریعے ہی ممکن ہوا۔

اس پوری صورت حال میں ایک طرف ہم جیسے سانپ کے ڈسے ہوے رسی سے خوفزدہ تھے اور دوسری طرف جنرل راحیل شر یف کی پیشہ ورانہ دیانت داری اور دانشمندی کا امتحان شروع ہوگیا تھا۔ جنرل راحیل شریف کا پہلا امتحان تو ممکنہ طور پر آپریشن سے پیدا ہونے والے ناگوار نتائج کی صورت میں ہونا تھا اور دوسرا امتحان یقینی طور پر آپریشن ہی سے پیدا ہونے والے خوشگوار اثرات کی صورت ہونا تھا۔ ناگوار نتائج کا سامنا سیاسی قیادت کی طرف سے ہی ممکن تھا۔ ایک طرف ایم کیو ایم کے پاس مہاجر کارڈ تھا دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے پاس آمریتوں کے خلاف مزاحمت کی تاریخ تھی۔ پھر یہاں تیسری طرف مقا می مذہبی جماعتوں کے ہاتھوں میں اسلام کی کنجیاں تھیں جن کے احترام پہ آنے والا کوئی بھی حرف دکھوں میں اضافہ کر سکتا تھا۔ ویسے بھی نوے کی دہائی میں ہونے والے آپریشن ایک تلخ تجربے کے طور پر ہمارے سامنے تھے۔ یہ بات قابل ستائیش ہے کہ آپریشن میں ماضی کی غلطیوں کو سامنے رکھ کر سمت کا تعین کیا گیا۔ سیاسی جماعتوں اور سول اداروں کا احترام قائم رکھتے ہوئے براہ راست مسئلے کی جڑ پہ ہاتھ ڈالا گیا۔ قبضہ گیروں اور قاتلوں کے نیٹ ورک منتشر ہو گئے۔ یہاں سے خوشگوار اثرات شروع ہوئے جو اول و آخر جنرل راحیل شریف کے حق میں جاتے تھے۔ سپہ سالار کی مدح سرائی سے آراستہ پیراستہ قدِ آدم بینر چوک چوراہوں پہ آویزاں ہوگئے۔ تاجر برادری نے خطوط لکھ کر جنرل سے اپنی مدت ملازمت میں توسیع پہ اصرار کیا۔ سول سوسائٹی نے تو زیر لب گورنر راج کی طرف بھی بھر پور توجہ دلائی۔ ہمارے بزرگ کالم نگاروں نے اپنی توانائیاں جنرل راحیل شریف کو اکسانے پہ صرف کردیں کہ وہ پنجاب کی طرف متوجہ کیوں نہیں ہورہے۔ ایک بزرگ نے تو گزشتہ دنوں آخری کوشش کے طور پہ یہ تک کہہ دیا کہ پاک چین اقتصادی راہدی پر پیدا ہونے والے خلفشار میں جنرل راحیل کیونکر مداخلت نہیں فرما رہے۔ کچھ ہمارے اساتذہ قسم کے لکھاری تو رات کے اندھیرے میں کسی میجر سے مل کر صبح تڑکے روداد لکھتے تو یوں لگتا موصوف نپولین بونا پاٹ کو ملٹری سائنس کا کوئی مشکل باب پڑھا کر آرہے ہیں۔ کچھ سیاست دانوں کا کمال تو اس حد تک پہنچا کہ انتخابی مہم میں بینروں پہ اپنے رخِ بے انور پہ نور کی کچھ کرنیں چھوڑنے کیلئے جنرل راحیل شریف کی تصویر لگادی۔ سماجی ذرائع ابلاغ پہ موجود ایکشن فلموں سے متاثر نوجوانوں نے تو نسیم حجازی کے نالوں کے سارے کردار ہمیں جنرل صاحب کے پیکر خاکی میں دکھا دیئے۔ سیاسی مداخلت کیلئے ماحول کی یہ سازگاریاں اس سے پہلے شاید ہی کسی فوجی سربراہ کو میسر رہی ہوں۔ وقت کی ان بے سمت آواز وں نے ہی اکثر ذہین سالاروں کا جاہ وجلال خاک میں ملایا ہے۔ عزت سادات انہی دانشمندوں کی بچ رہی جن کا ادراک اٹھائی گیروں کے جھوم جھمیلے میں بھی حقیقت کا بھرم رکھ سکا۔ خوشگوار فریب کے دام میں جو آجائے وہ ذہین ہی ہوتے ہیں۔ وہ دانشمند ہوتے ہیں جو تلخ حقیقت کا سامنا کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں۔ سپہ سالار نے کل دانشمندی کا ساتھ نبھانے کا پیمان کیا ہے۔ اس سے اچھی بھی کوئی خبر ہوسکتی ہے؟

فوج کا ادارہ ایک باوقار ادارہ ہے۔ اس ادارے کا وقار بار بار مجروح کیا گیا جس کا سہرا خود فوجی سربراہوں کے سوا کسی کے سر نہیں جاتا۔ جرنیلوں کا شاید اس بات پہ کامل ایمان ہوتا ہے کہ داغ تو اچھے ہوتے ہیں، اسی لیئے عوام کے حقِ حکمرانی پہ ڈاکہ ڈالتے وقت بھی ان کا ضمیر مطمئن رہتا ہے۔ دہائیوں پہ پھیلے ہوئے داغ دھبے دھونے میں جنرل راحیل شریف کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے اگلے محاذوں پہ موجود سپاہیوں کے ساتھ خوشی کے لمحات کاٹ کر جوانوں کا حوصلہ بلند کیا۔ قومی قیادت نے ان پر جو اعتماد کیا اس کی لاج رکھ کر ادارے کے احترام میں اضافہ کیا۔ سیاسی قوتوں، بھاڑے کے دانشوروں اور مایوس قلم کاروں کی طرف سے اٹھتی ہوئی العطش کی صداو¿ں کو نظر انداز کر کے پارلیمنٹ کو تو قیر بخشی۔ دفاعی پالیسیوں پہ حرف گیر تجزیہ کاروں کی تنقید کو گوارا کر کے انہوں نے اصلاح کے امکان پہ پڑی گرد پہ پھونک ماری ہے۔ اب موافق ہواو¿ں کے باوجود اپنی مدت ملازمت میں توسیع کے امکان کو مسترد کرکے جنرل راحیل شریف نے اس خیال کو استحکام بخشا ہے کہ ادارے شخصیتوں سے نہیں بلکہ اصولوں سے چلتے ہیں۔ اصول کا چلن دے کر وہ اپنے آنے والوں کیلئے مثال قائم کر رہے ہیں۔ آنے والوں کو توفیق ہو کہ وہ اپنے پیشرو سے بروقت ملنے والی چھڑی کو عسکری بے راہ روی سے محفوظ رکھتے ہوئے بروقت آگے بڑھاتے جائیں۔ جانے والے نے اپنے حصے کی شمع جلادی ہے آنے والوں نے اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ یونہی چراغ سے چراغ جلیں گے تو اجالا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments