مریم نواز کے شوہر کہاں ہیں؟


یوں تو ہماری اوقات اس کائنات میں ایک ذرے کے مترادف بھی نہیں۔ کبھی کبھار لکھ لکھا لیتے ہیں۔ دو چار لوگ پڑھ بھی لیتے ہیں۔ بہت ہو جائے تو کمنٹ بھی کر دیتے ہیں۔ آسمان زمیں پر گر پڑے تو شیئر بھی کر دیتے ہیں۔ یہ وہی دو چار کرم فرما ہیں جو ہمارے نام سے واقف ہیں۔ ورنہ یقین جانئے کہ گھر میں تو کوئی دوسری بار مانگنے پر سالن بھی نہ دے۔ اگر کبھی کسی کے سامنے کسی کی غلطی سے کی گئی تعریف کا ذکر بھی کر دیں تو امی یہی کہتی ہیں
’ان کی نظر خراب ہو گی۔ ‘

جس معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں وہاں عورت کے اظہار رائے پر اس حد تک پابندی ہے کہ اگر کچھ لکھنا بھی چاہے تو مناسب یہی ہے کہ قلمی نام سے لکھے۔ ہم تو ٹھہرے بہادر سپاہی۔ نہ صرف اپنے نام سے لکھتے ہیں بلکہ تصویر بھی سب کے سامنے ہے۔ سوشل میڈیا ہر بھی خاصے ایکٹو ہیں۔ اب وقت کم ملتا ہے لیکن پھر بھی کسی نہ کسی طرح شیطان کے اس چندے میں اپنا کار خیر جمع کراتے رہتے ہیں۔ سب کو اس بات کا تو حق الیقین ہے کہ سعدیہ ہی ہے۔ پردے میں چھپا عبدالقدوس نہیں۔

فیڈ بیک ایک لکھاری کے لئے آکسیجن کا کام کرتا ہے۔ لیکن یہاں آکسیجن میں کچھ ملاوٹ ہے۔ جہاں کئی کمنٹس کا ہمارے کام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا وہیں کئی لوگوں کو ہماری ذات سے متعلق تجسس بھی رہتا ہے۔ ہمیں اپنی ذاتی زندگی کو سوشل میڈیا پر ڈسکس کرنا چنداں پسند نہیں لیکن کبھی کبھی یہاں موجود لوگوں کا استفسار جھنجھلاہٹ پر مجبور کر دیتا ہے۔ ہم سے پوچھا جانے والا سب سے بڑا سوال یہی ہے
’کیا آپ شادی شدہ ہیں؟ ‘

شروع شروع میں تو یہ ہماری سمجھ سے باہر تھا کہ اس کا ہمارے سیاسی اور سماجی کالموں سے کیا تعلق ہے۔ یہ سوال صرف ہم سے ہی نہیں بلکہ ہمارے جاننے والوں سے بھی کیا جانے لگا۔ ہمیں اس سوال سے چھٹکارے کا بظاہر حل یہی نظر آیا کہ ہاں کر کے سر سے بلا ٹالیں۔ لیکن صاحب یہاں بھی بات نہ رکی۔ اگلا سوال یہ تھا
’آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ ‘

جی۔ ہمارا سب کام ایک طرف اور ہمارے شوہر کا محل و وقوع ایک طرف۔ ہم اپنی طرف سے جتنی مرضی عقل کی بات کر لیں تان ہمارے شوہر پر ہی آ کر ٹوٹے گی۔ کہ ٹھیک ہے بی بی گزارے لائق لکھ تو لیتی ہو لیکن پہلے یہ بتاؤ کہ تمہارا مالک کہاں ہے۔ تمہاری ذات تو یوں بھی ذرہ بے نشاں ہے۔ یہ تو بتاؤ کس کی بہن اور کس کی بیوی ہو۔ تمہاری یہ جرات کیسے ہو گئی کہ مردوں کے شانہ بشانہ اپنی رائے کا اظہار کرنے لگو۔ تم لان کے پرنٹوں کا ذکر کرو۔ یہ بتاؤ کہ لال رنگ بھلا ہے یا گلابی۔ بہت جی چاہے تو صوفوں کا کپڑا بدل لو۔ لیکن یہ خیال کیسے آ گیا کہ اپنی شناخت خود بناتی پھرو۔ یہ مردوں کے کام ہیں۔ کیا زمانہ آ گیا ہے۔ توبہ توبہ۔

شاید اسی خیال کے پیش نظر یہ معاشرے کی عزت کے رکھوالے ہمارے مجازی خدا کو جاننا چاہتے ہیں۔ جیسے کوئی بچہ کسی کے گھر کی بیل بجا کر بھاگتا ہوا پکڑا جائے تو پہلا سوال یہی ہوتا ہے کہ بتاؤ تمہارے ابو کہاں ہیں۔ ذرا ان کو تمہاری خبر کریں۔

جیسا کہ ہم پچھلے باب میں پڑھ آئے ہیں کہ عورت کی ذات لالی پاپ کے مانند ہے۔ ریپر کے بغیر مکھیاں بھنبھنانے لگیں گی۔ اسی لئے تمام عورتوں کے والی وارثوں کا نام نشان بھی ضروری ہے۔ خیر صاحب ہم کیا ہماری اوقات کیا۔ ابھی کل سے سوشل میڈیا پر مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی پر ملاقات کی تصویروں نے تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ یوں تو ہر قسم کا کیچڑ اچھالا ہی جا رہا ہے لیکن کچھ عزت کے رکھوالوں کو یہ بھی فکر ہے کہ مریم نواز کے شوہر کہاں ہیں۔

وہ عورت جو اس وقت ملک کی دوسری بڑی جماعت کی نائب صدر ہے، مخالفین کی آنکھ کا تنکا ہے، لندن سے بستر مرگ پر پڑی ماں کو چھوڑ کر خود کو ملک کے قانون کے سپرد کرنے آ گئی، باپ کی غیر موجودگی میں پارٹی کی اہم رکن ہے، جس کی ایک ٹویٹ آ جائے تو ایک اہم حکومتی عہدے دار کا سارا دن اس کے جواب میں ’ضائع‘ ہو جاتا ہے، جس کا ایک بیان پوری حکومت اور اس کے حواریوں کو مرچیں چبوا دیتا ہے، اس کے لئے بھی اس قوم کا یہی ’کنسرن‘ ہے۔
’آپ کے شوہر کہاں ہیں؟ ‘

ایک دفعہ کچھ ایسا ہی سوال ہر قسم کی ٹینس چیمپئن شہ جیتنے والی ثانیہ مرزا سے بھی کیا گیا کہ آپ کا ’سیٹل‘ ہونے کے بارے میں کیا ارادہ ہے۔ یہ ٹرافیاں اور میڈل یہیں رہ جانے ہیں۔ بچے پیدا کب کریں گی؟ ثانیہ مرزا نے تو خیر ان صحافی کی ایسی ستھری کی کہ شاید آئندہ کسی کامیاب عورت سے ’سیٹل‘ ہونے کا سوال نہ کری۔

صاحب، ہم تو اپنا منہ مسور کی دال کی امید میں دھو ہی رکھیں۔ جس سوال سے مریم نواز جیسی طاقتور سیاسی شخصیت اور ثانیہ مرزا جیسی کامیاب کھلاڑی محفوظ نہیں تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں۔

ویسے ایک آئیڈیا یہ بھی ہے کہ اپنے نام سے لکھنا بند کریں اور زوجہ فلاں کے نام سے تحریریں چھاپیں۔ تصویر کی جگہ شوہر نامدار کی زمانہ طالب علمی کی فوٹو چھپوا دیں۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ شاید اسی سے اس معاشرے کو ہماری پاکبازی کا یقین ہو رہے اور سوال کا جواب بھی مل جائے۔ جی، یہ رہے ہمارے شوہر۔ بلکہ جو ہیں وہی ہیں۔ ہمیں کوئی ہیر نہ ہکسرے۔
یوں تو تب بھی مشکل ہے لیکن ٹرائی کرنے میں حرج نہیں۔ آئیے لٹو گھمائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).