کشمیر: ’تشدد کا استعمال انڈین ریاست کی پالیسی کا حصہ ہے‘


گ

کشمیر میں گزشتہ 30 برس سے علحیدگی کی تحریک جاری ہے

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں فوج اور سکیورٹی فورسز گزشتہ 30 سال سے مبینہ طور پر علیحدگی کی تحریک کو دبانے کے لیے ہزاروں کشمیریوں پر جسمانی اور ذہنی اذیت پہنچانے کے تمام حربے استعمال کرتی رہی ہیں جن میں ‘واٹر بورڈنگ’ اور جسم کے نازک اعضا پر کرنٹ لگانا شامل ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے یہ رپورٹ ‘ٹارچر: انڈین سٹیٹ انسٹرومنٹ آف کنٹرول ان انڈین ایڈمنسٹرڈ جموں اینڈ کشمیر’ کے عنوان سے جاری کی ہے۔

اس مشترکہ رپورٹ میں مبینہ تشدد اور ایذا رسانی کے سینکڑوں واقعات کو قلم بند کرتے ہوئے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ کشمیر میں پیش آنے والے ظلم اور بربریت کے واقعات پر بین الاقوامی سطح پر تحقیقات کرائی جائیں۔

یہ بھی پڑھیے

کشمیر میں ’مزاحمتی آرٹ‘ کی سنسرشپ

کشمیر میں اخبارات سادہ کیوں شائع ہوئے؟

رپورٹ میں 432 واقعات کی تفصیلی تحقیقات کی بنیاد پر اس متنازع خطے میں تشدد کے رجحان، طریقہ کار، تشدد کا نشانہ بننے والے قیدیوں، فوجی عقوبت خانوں اور تشدد کے عام عوام پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا گیا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت اس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد اپنا رد عمل پیش کرے گی۔

یہ رپورٹ لاپتہ ہونے والے نوجوانوں کے والدین کی تنظیم (ایسوسی ایشن آف پیرنٹس آف ڈس اپیئرڈ پرسنز) اور جموں اور کشمیر کی سول سوسائٹی کے اتحاد (جموں اینڈ کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی) نے جاری کی ہے اور الزام عائد کیا ہے کہ کشمیر میں انڈین فوج عقوبت رسانی کے وہ تمام حربے استعمال کر رہی ہے جو انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر انسانی اور غیر قانونی قرار دیے جاتے ہیں۔

مبینہ تشدد کے طریقے

اس رپورٹ میں 432 قیدیوں پر مبینہ تشدد کے واقعات پر تحقیق کی گئی۔ اور رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان میں سے ایسے چالیس سامنے آئے جن میں قیدی انتہائی جسمانی تشدد کے باعث ہلاک ہو گئے۔

رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ 432 میں سے 190 قیدی ایسے تھے جن کو برہنہ کر کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق 326 افراد کو مبینہ تشدد کے دوران ڈنڈوں، لوہے کی راڈوں، سریوں اور چمڑے کے ہنٹروں اور بیلٹوں سے مارا پیٹا گیا۔

رپورٹ کے مطابق ان میں 169 بدقسمت ایسے تھے جن کو ‘رولر ٹارچر’ کا نشانہ بنایا گیا اور واٹر بورڈنگ کا حربہ 24 قیدیوں پر آزمایا گیا۔

مبینہ طور پر قیدیوں کے سروں کو پانی میں ڈبو کر تشدد کرنے کے 101 واقعات سامنے آئے، جسم کے نازک اعضا پر بجلی کا کرنٹ لگا کر 231 پر تشدد کیا گیا اور 121 قیدیوں کو سر کے بل چھت سے لٹکایا گیا۔

رپورٹ میں الزام ہے کہ گیارہ کو طویل عرصے تک قیدِ تنہائی میں رکھا گیا، اکیس قیدیوں کو سونے نہیں دیا گیا اور 238 کے ساتھ ریپ اور جنسی تشدد کیا گیا۔

سکیورٹی فورسز کے حراستی مراکز میں مبینہ تشدد کا نشانہ بننے والے لوگوں کی اکثریت عام شہریوں کی تھی۔ 432 قیدی جن کا رپورٹ میں تفصیل سے ذکر ہے ان میں 301 خواتین، طلبہ، کم عمر بچے، سیاسی اور انسانی حقوی کے کارکن اور صحافی شامل تھے۔

تشدد کے ان انفرادی واقعات کے علاوہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مبینہ طور پر شہریوں کو اجتماعی طور پر سزا دینے کے بھی طریقے بنا لیے گئے جن میں پوری پوری آبادیوں کا محاصرہ کر کے وہاں تلاش کے بہانے گھروں میں گھس کر لوگوں پر تشدد کیا جاتا ہے اور خواتین کو ریپ کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ اس طرح کے زیادہ تر واقعات منظر عام پر ہی نہیں آتے۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

فوج کے خصوصی اختیارات

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خطے میں فوج اور سکیورٹی فورسز کو خصوصی قوانین کے تحت قانونی تحفظ حاصل ہونے کی وجہ سے انسانی حقوق کی پامالی کے ایک بھی واقعہ میں ملوث کسی فوجی اور سرکاری اہلکار کو سزا نہیں دی جا سکی ہے۔

رپورٹ میں انڈیا کے تمام آئینی اداروں عدلیہ، مقننہ اور فوج کو انسانی حقوق کی پامالی میں برابر کا ذمہ دار ہونے کا الزام لگاتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تشدد کو جموں اور کشمیر میں باقاعدہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت باقاعدہ منظم حربے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ خلیج گوانتامو اور عراق کے ابو غریب قید خانے میں انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات کے منظر عام پر آنے کے بعد بین الاقوامی سطح پر ایسے واقعات کی پرزور مذمت اور توجہ کے باوجود انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کوئی بات نہیں کی گئی اور یہ بین الاقوامی نظروں سے اوجھل رہی ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں اور لاپتہ افراد کے لواحقین کی تنظیموں نے یہ بھی الزام عائد کیا ہے کہ تشدد اور بربریت کا یہ سلسلہ وسیع پیمانے پر اب بھی جاری ہے۔

اس بارے میں رپورٹ میں ایک واقع بھی درج کیا گیا ہے جس میں اس سال مارچ کی انیس تاریخ کو مبینہ طور پر ایک مقامی سکول کے انتیس سالہ پرنسپل رضوان پنڈت کو غیر قانونی طور پر حراست میں لیے جانے کے بعد کشمیر پولیس کے سپیشل آپریشن گروپ کے کارگو کیمپ میں تشدد کر کے ہلاک کر دیا گیا تھا۔

تین دن کے بعد پولیس نے رضوان کے خلاف ایک مقدمہ درج کیا جس میں الزام لگایا کہ رضوان پولیس کی حراست سے فرار ہونے کی کوشش کرتے ہوئے مارا گیا ہے۔

رپورٹ میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں 1947 کے بعد مخالفین کی آواز کو تشدد سے دبانے کی تاریخ پر بھی نظر ڈالی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ 1990 کے بعد تشدد کے استعمال میں بے انتہا اضافہ کر دیا گیا۔

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر

انسانی حقوق اور تشدد کے استعمال کی گزشتہ تیس برس میں تاریخ کو مختلف ادوار میں باٹنتے ہوئے رپورٹ میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ فوج اور سکیورٹی فورسز کے علاوہ اخوان اور ولج ڈیفینس کمیٹیز کو بھی وقتاً فوقتاً انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں شامل کیا جاتا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp