بھائی کا پرس اور اس کی تصویر


جب سے ہوش سنبھالا ہے تب سے ایک بات تقریباً ہر روز کسی نہ کسی سے سننے کو ملتی ہے کہ یہ نہ کرنا، وہ نہ کرنا معاشرہ بڑا خراب ہے اور یہ سنتے سنتے اپنے لوگوں کی ایک تصویر ذہن میں خود ہی بن گئی جو کہ معاشرے کا نام سنتے ہی ذہن اور آ نکھوں کے سامنے آ جاتی ہے۔ کتابوں، اخباروں اور رسالوں میں جدید تہذیب پڑھ کے، انٹر نیٹ پر مہذب دنیا کی ویڈیوز دیکھ کے او راپنے معاشرے کی کہانیاں اپنے نیوز چینلز اور اخباروں کے ذریعے پڑھ کے تو مذکورہ بالا تصویر اور بھی پکی ہو گئی کہ شاید ہم شاید معاشرتی طور پر ایسے ہی ہیں۔

اسی اثناء میں بیرون ملک جانے کا حادثہ پیش آ یا وہاں جاتے ہی پہلے واقعہ نے متاثر کر دیا کہ کیسے لوگ اتنے اچھے بھی ہوتے ہیں اور وہ بھی اپنے ہی ہے۔ واقعہ کچھ یوں ہوا کہ ائر پورٹ سے ٹیکسی لی تو جیسے ہی ہوٹل پہنچے تو میں اپنا سامان ٹیکسی میں ہی بھول گیا اور پریشان ہو گیا کہ یہ سارا سامان تو گیا، مگر ریسیپشن والے بھائی نے کہا کہ بے فکر رہیں آ پ کا سامان مل جائے گا۔ میرے پاس اس کی یہ بات ماننے کا علاوہ کوئی اور چارہ نہ تھا، مگر دماغ میں نقش تصویر نے طبیعت میں یقین نہ آ نے دیا، مگر جیسے ہی میں نے اپنے کمرے میں پہنچ کر ابھی پانی ہی پیا کہ ریسیپشن سے کال آ گئی کہ سر آپ کا سامان کمرے میں ہی بھیج دوں۔ بس کیا تھا آ کر واقعہ خاندان سے لے کر تمام حلقہ احباب کو سنایا گیا مگر انہوں نے اس کی بھی یہ کہہ کر نفی کر دی کہ ایسا صرف باہر کی دنیا میں ہوتا ہے یہاں نہیں۔

مگر پچھلے ایک ماہ تین ایسے واقعات ہوئے ہیں جنہوں نے میری مدد کی کہ میں اپنے ذہن میں نقش معاشرتی تصویر میں خوشنما رنگ بھر سکوں۔ سب سے پہلے میں ایک دن میں اپنی کچہری کے واش روم میں اپنا پرس بھول گیا اور واپس آ کر اپنے کاموں میں مشغول ہو گیا، کاموں کی مگن میں ہی میں کچہری سے نکل آ یا۔ تقریباً دوپہر ایک بجے فون آ یا کہ آپ یاسر طالب ہیں، میں نے اثبات میں جواب دیا، تو آگے سے جواب آ یا سر آ پکی کوئی چیز گم گئی ہے شاید، میں نے فوراً پرس چیک کیا او نہ پایا تو فون پر بتایا کہ میرا پرس جناب۔ تو ان صاحب نے ایڈریس بتا یا کہ جناب آ کر ہمارے دفتر سے لے لیں۔

اسکے بعد کچھ دن بعد میں نے ماہانہ فون کا بیلنس کروانے کے لوڈ کروایا جو کہ چیک کرنے پر پتا چلا کہ وہ کسی اور نمبر پر چلا گیا ہے جو کہ سراسر میری غلطی تھی، تھوڑی پریشانی کے بعد فیصلہ کیا کہ اس نمبر پر فون کر کے رابطہ کرلیتے ہیں اگر وہ مان گئے تو۔ جیسے ہی کال کی اور دوسری جانب والے شخص کو اپنا مسئلہ بتایا تو اس نے بڑی ہمدردی سے کہا آپ پریشان نہ ہوں، مجھے اس کو بھیجنا کا طریقہ تو نہیں آ تا میں مگر جیسے ہی میرا بیٹا آ تا ہے میں اس سے کہہ کر آ پ کو بھیج دیتا ہوں، اور اس اثنا میں اس شخص نے خود پانچ بار کال کر کے مجھے بتایا کہ ابھی میرا بیٹا گھر نہیں آ یا، اور شام کو اس نا معلوم شخص نے ایک نا معلوم شخص کو اس کی رقم لوٹا دی۔

میرا چھوٹا بھائی جو کہ مزدوری کرتا ہے اور کپڑے کی کٹا ئی کرتا ہے، اس کو اس کام کی اجرت ہفتہ وار مل جاتی۔ ایک دن اس اجرت لی اور گھر آ کر گھر کے خرچے کے پیسے امی کو دے دیے اور اپنے ذاتی خرچے سمیت اپنے موبائل فون کی قسط کے پیسے اپنے پرس میں رکھ لیے اور دوستوں کے ہمراہ گھر سے نکل گیا۔ رات کو جب گھر واپس آ یا تو بڑا پریشان تھا کہ میرا پرس کہیں گر گیا ہے، میری امی اس کی بات سن کر اور بھی پریشان ہو گئیں، ہم بھائیوں نے کافی تسلی دی مگر۔ بے لوث۔

خدا خدا کر کے وہ سو گیا اور آ ہستہ آہستہ اس غم بھول گیا کہ واقعہ کے ایک ماہ بعد کل اسے ایک نا معلوم فون سے کال آ ئی کہ آ پ عاقب طالب ہیں، بھائی نے ہاں ظاہر کی تو صاحب نے بتایا کہ آپ کی کوئی چیز گم گئی ہے، بھائی نے بتایا کہ پرس، مخالف شخص نے مزید تفتیش کی اور پرس میں موجود چیزوں کے بارے میں پوچھنے لگا، اور چھان بین کرنے کے بعد اس شخص نے اپنا پتہ بتایا کہ فلاں جگہ سے آ کر اپنا پرس لے لیں۔ ہم نے دماغ میں نقش تصویر کے بابت پھر شک میں کہا کہ بھائی آپ اکیلے نہ جا نا، مگر وہاں جا کر جب پرس پکڑا اور اس میں ایک ماہ بعد بھی تما م چیزوں کے ساتھ ساتھ رقم بھی دیکھی تو یقین نہ آیا۔ اور فوراً سے دل میں خیال آ یا کہ یار کیا بندہ ہے جس اتنی ثابت قدمی سے ایک مہینہ پرائی دولت کی حفاظت کی اور لوٹا دی۔

بس کیا تھا بندے کا شکریہ ادا کر کے اور ٹوٹے پھوٹے خیالات اور مال اسبا ب لے کر واپس گھر آ ئے تو سارا واقعہ گھر والوں کو بتایا جنہوں نے پہلے تو بڑی تعریف کی اور آ خر میں پھر کہہ دیا کہ یا ر کوئی اچھا بندہ ہی ہو گا ورنہ ہمارے معاشرے میں۔ ۔ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).