دو ہاتھوں سے تالی اور ایک ہاتھ سے تھپڑ


مشہورزمانہ کہاوت ہے کہ تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی، اس کے لئے دوسرا ہاتھ ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر ہاتھ ایک ہی ہو تو اس سے تالی تو نہیں مگر تھپڑ ضرور مارا جا سکتا ہے۔ یہی حال آج کل ہمارے ملکی حالات اور خاص طور پر معاشی معاملات کا ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، ہر سیاسی جماعت نے اپنا ایک ایک ہاتھ اٹھایا ہوا ہے، مگر کسی کو یہ خیال نہیں آرہا کہ اس ہاتھ کا استعمال تھپڑ کی صورت میں کرنا ہے یا تالی کی صورت میں۔

آج جو جماعت حکومت میں ہے ماضی میں وہ اپوزیشن میں تھی، اور جو جماعتیں آج اپوزیشن میں ہیں ماضی میں حکومت کا حصہ تھیں، مگر سب نے اپنے اپنے مفادات کے لئے سیاست کی اور سیاست کر رہے ہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کے چلنا، ایک دوسرے کے تجربے سے فائدہ اٹھانا ہماری سیاسی روایات کا حصہ کبھی بھی نہیں رہا۔

ہر جماعت کا اپنا ایک سیاسی ایجنڈا ہے مگر پاکستان کس جماعت کا ایجنڈا ہے یہ ابھی بھی سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ موجودہ حالات کن اقدامات کا تقاصا کرتے ہیں کیا حکومت کی غلط پالیسیوں پر محض تنقید ہی اپوزیشن کی واحد حکمت عملی ہونی چاہیے، کیا بر سر اقتدار آنے کے بعد صرف اور صرف اپنے آپ کو عقل کل سمجھ لینا چاہیے، کیا تنقید برائے تنقید سے سو دن، پھر دس مہینے اور پھر پانچ سال پورے کر لینے چاہئیں؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جن کے جوابات کا ایک عام پاکستانی مدت سے منتظر ہے۔

ہمارے ملک کا المیہ یہ ہے کہ صاحب اقتدار لوگ حد سے زیادہ خود اعتمادی کا شکار ہیں۔ عمران خان اپوزیشن میں تھے تو ان کی خود اعتمادی کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن آج حزب اختلاف کے بنچوں پر بیٹھ کر اسی طرح خود اعتماد نظر آرہے ہیں اور حکومت مخالف تحریک چلانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ ماضی کے سخت حریف، ایک دوسرے کا پیٹ پھاڑ کر چوکوں چوراہوں میں لٹکانے کی باتیں کرنے والے افطار کے بابرکت دسترخان پر سر جوڑے بیٹھ گئے ہیں۔

پیپلز پارٹی دہائیوں سے سندھ میں برسر اقتدار ہے مگر آج بھی ایڈز کنٹرول کی کوئی واضح پالیسی نہیں۔ سینکڑوں کی تعداد میں آئے دن کیسز رپورٹ ہو رہے ہیں۔ مٹھی میں آج بھی بھوک سے معصوم بچوں کی جانیں جا رہی ہیں، مگر وفاق کے ذریعے حکومت چلانے کا ایسا نشہ ہے کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ مسلم لیگ ن لگ بھگ دو دہائیوں تک پنجاب میں برسر اقتدار رہی، مگر بنیادی مسائل جوں کے توں رہے، دونوں جماعتیں وفاق میں تین تین دفعہ سیاہ سفید کی مالک رہیں مگر نہ محصولات بڑھا سکیں، نہ ہی برآمدات اور نہ ہی خود کو آئی ایم ایف کے شکنجے سے آزاد کرا سکیں۔ اب ان نو ماہ میں حزب اختلاف کے پاس ایسی کون سی جادو کی چھڑی آگئی ہے جس کے بل بوتے پر وہ حکومت گرانے کے درپے ہیں اور پھر تمام مسائل اس جادو کی چھڑی سے حل کر دیں گے۔

قومی اسمبلی ہو، ٹی وی ٹاک شوز ہوں یا سوشل میڈیا، صبح دوپہر شام حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ عوام نے سیاستدانوں کو مسائل کا حل نکالنے کے لئے اقتدار کے ایوانوں میں بھیجا تھا نا کہ مسائل اور مشکلات پر تنقید کرنے کے لئے۔

اگر آج پاکستان کے حالات دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہیں، آج پاکستان آئی ایم ایف سے قرض کی بھیک مانگ رہا ہے، آج ہمارا روپیہ اس خطے میں کم ترین کرنسی کی سطح پر چلا گیا ہے تو اس میں ہار کس کی ہے اور جیت کس کی؟ ایساتاثر دیا جا رہا ہے کہ حکومت کی ناکامی اپوزیشن جماعتوں کی کامیابی بنتی جارہی ہے۔ کون سے ایسے ترپ کے پتے ہیں جو حکومت اپنی جیب میں رکھ کر بیٹھی ہے اور اپوزیشن اپنی جیب میں، جو ایک دوسرے سے شیئر کرنے کے لئے تیار نہیں۔ اس ساری دھینگا مشتی میں نقصان ایک عام پاکستانی کا ہو رہا ہے اس کا ذمہ دارکون ہے؟ ایک عام آدمی کو مسائل کا حل چاہیے نہ کہ مسائل پر شور و غوغا۔

اپوزیشن اگر اپنے آپ کو اس قابل سمجھتی ہے کہ وہ اقتدار میں آکر معاشی مسائل کاحل نکال لے گی تواچھے کام کے لئے کل کا انتظار کیوں؟ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جمہوری نظام کی چولہیں ہلا نے کے بعد ہی عوام کے مسائل کیوں حل کرنا چاہ رہے ہیں؟ کیا اپوزیشن بنچوں پر بیٹھ کر مسائل کا حل نہیں نکالا جا سکتا؟ حکومت کی ناکامی پر بغلیں بجانا آپ کو فاتح نہیں بنا دے گا۔ اگر حکومت کے آئی ایم ایف کے پاس جانے پر آپ لوگ سراپا احتجاج ہیں تو اس میں قصور آپ کا بھی ہے، کیوں کہ بحیثیت اپوزیشن آپ کی ذمہ داری ہے کہ حکومت کو متبادل راستہ دکھائیں۔

دوسری جانب عمران خان صاحب سے اگر معاملات کنٹرول نہیں ہو رہے تو کیا قباحت ہے کہ وہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب ہاتھ بڑھا کر ایک ٹیبل پر بیٹھ جائیں اور مسائل کا حل تلاش کریں۔ اگر اپوزیشن میں رہتے ہوئے آپ کی جانب سے کی گئی ساری کیلکولیشن آج حکومت میں آکر غلط ثابت ہو رہی ہے تو اس بات کو تسلیم کرلیں۔

آپ کے اوپنر بیٹسمین اسد عمرصاحب کی مثال اس امام کی سی ہے جس کی امامت میں قوم تراویح پڑھ رہی ہو اور اٹھارہیویں تراویح کے بعد یہ بتایا جائے کہ امام صاحب کا وضو نہیں تھا لہٰذا نئے امام کے پیچھے ایک مرتبہ پھرتراویح کا آغاز کیا جائے۔ براہ کرم ایسے تجربات سے گریز کریں۔ اس قوم کے صبر کا مزید امتحان نہ لیا جائے۔ کیوں کہ جمہور میں مایوسی جمہوری نظام پر کسی نہ کسی صورت میں اثر انداز ہوتی ہے۔

گزشتہ حکومتوں کا حصہ رہنے والے افراد آج کابینہ کا حصہ ہیں تو حضور اس کابینہ کو پھیلا کر قومی اسمبلی کے فلور تک لے جائیں، ماضی کی حکومتوں کو ایک گرینڈ کابینہ کی شکل میں اپنے قریب کریں اور پاکستان کا کیس سامنے رکھیں۔ قوموں کودرپیش مسائل کا حل کبھی بھی صرف حکومت یا صرف اپوزیشن کے پاس نہیں ہوتا۔ حل تب ہی نکلتا ہے جب سیاسی اختلاف بلائے طاق رکھ کر ملک کے لئے سوچا جائے۔

اگر نیشنل ایکشن پلان پر سب جماعتیں اکٹھی ہو سکتی ہیں جس کے نتیجے میں کراچی میں امن لایا جا سکتا ہے، دہشت گردی کے واقعات میں واضح کمی دیکھی جا سکتی ہے تو ایک نیشنل ایکشن پلان عام عوام کے لئے بھی ترتیب دیا جا سکتا ہے۔

اگر تو مقصد عام پاکستانی کی زندگی میں بہتری لانا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو اپنے ہاتھ ملا کر تالی بجانا ہوگی اور اگر مقصد صرف اپنی انا کی تسکین یا عہدے کا لالچ ہے تو یہ ہاتھ ہوا میں تو لہراتے نظر آئیں گے مگر صرف ایک تھپڑ کی صورت میں اور تھپڑ بھی وہ جو پے در پے عوام کے منہ پر پڑ رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).