سچل سائیں میرا


سندھ کی اساسی شاعری کے انتہائی اہم شاعر اور بعض روایات کے مُطابق، حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ کے بقول اُن کی چڑھائی ہوئی دیگچی کا ڈھکنا اُتارنے والے، حضرت سچل سرمستؒ کا 198 واں عُرسِ مُبارک، پیر، 20 مئی ( 14 رمضان المُبارک) اور منگل، 21 مئی ( 15 رمضان المُبارک) کوضلع خیرپُور کے تعلقہ گمبٹ میں واقع، اُن کے آبائی مسکن، ’درازا شریف‘ (جس کو ہم جیسے طالب العلم ’درِراز‘ بھی کہتے ہیں ) میں منایا جا رہا ہے۔

(یہاں پر میں ’روایتی جوش و خروش‘ کی اصطلاح استعمال نہیں کرُوں گا، جو اس قسم کے مواقع کو رپورٹ کرتے ہوئے، تقریباً تمام اخبارات اور چینلز کا ایک روایتی (اسڻیریو ڻائپ) جُملہ ہُوا کرتا ہے ) ، کیونکہ مجھے ہر برس اس ’روایتی‘ جوش و خروش میں بھی بتدریج کمی ہی نظر آتی ہے۔ میں تو زیادہ سے زیادہ گذشتہ 2 دہائیوں سے اس میلے کی تقریبات کو دیکھنے کا شرف حاصل کررہا ہُوں، اس ضمن میں جو لوگ اس سے بھی پہلے سے اس میلے کو دیکھتے آرہے ہیں، اُن کا تجربہ شاید میرے مشاہدے سے بھی زیادہ تلخ ہو۔

19 ویں صدی عیسوی اور 21 ویں صدی ہجری میں کلہوڑا دورِ حکُومت میں درازا شریف کے فاروقی خاندان میں پیدا ہونے والے حضرت سچل سرمستؒ، نے 90 برس سے زیادہ کی عمر پائی، جن میں سے لگ بھگ 40 برس وہ کلہوڑا دؤرِحکُومت میں جئے اور عمر کے باقی 50 برس وہ تالپُور دؤرِحکومت میں سانس لیتے رہے۔ وہ نہ صرف سیاسی اور سماجی حوالے سے اس انتہائی پُرآشوب دور کے مُشاہد رہے، بلکہ اُس دؤر کے واقعات و سانحات کو بالواسطہ یا بلا واسطہ رقم کرنے کی وجہ سے اپنے دور کے ’منظُوم مؤرخ‘ بھی رہے۔

سچل سرمستؒ (جن کو اُن ہی کے خطے سے تعلق رکھنے والے اُن کے انتہائی اہم شارح، محقق اور مترجم، پروفیسرڈاکٹر عطا مُحمّد ’حامی‘ ، محبّت سے ’سچَو سائیں‘ کہتے تھے ) ’شاعرِچہار زبان‘ ہیں (جن کو خالصتاً عقیدت کی بناء پر اُن کے کچھ غیر مُحقق معتقدین نے ’ہفت زبان شاعر‘ کے طور پر مشہُور کردیا۔ جو اصطلاح ابھی تک زبان زدِ عام ہے۔ ) اس حد تک کہ ہر برس عرس مُبارک کا افتتاح کرنے والے وزراء، اُمراء اور حکمران بھی اُنہیں اسی لقب سے یاد کرتے ہیں، جو یقیناً اُن کی نہیں، بلکہ اُن کے تقریر نویسوں کی کم علمی ہُوا کرتی ہے۔

درحقیقت، سچّے سائیں کا کلام سندھی اور سرائکی میں سب سے زیادہ مقدار میں، فارسی میں دُوسرے نمبر پر اور رِیختہ (اردُو کی پرانی صورت) میں تیسرے نمبر پر موجود ہے، اور وہ ان ہی چار زبانوں کے شاعر ہیں۔ مگر ان کے بعض معتقدین نے اُنہیں بِیسویں صدی کے وسط میں کسی تقریب میں جوشِ خطابت میں صرف اس بناء پر ’ہفت زبان شاعر‘ (سات زبانوں کے شاعر) کا لقب دے دیا تھا، کہ انہُوں نے اپنی شاعری میں، کہیں کہیں کوئی ایک آدھ لفظ، جُملے یا محاورے پنجابی، عربی یا ہندی کے استعمال کرلئے ہیں۔

ویسے بھی مختلف زبانوں کا آنا یا اُن کاعلم یا اُن میں مہارت ہونا اور اُس زبان میں شاعری بھی کرنا، یہ دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔ شاعری کی عظمت کا معیار بہرحال، کثیراللسانی شاعری (زیادہ زبانوں میں شاعری کرنا) ہرگز نہیں ہے، اور نہ ہی شاعری کی عمدگی یا عظمت کی کسوٹی بصیارنویسی ہے۔ ورنہ غالب کو اُن کا ایک ہی دیوان ’عظیم شاعر‘ کا رُتبہ نہ دلوا پاتا۔ اس ضمن میں ڈاکٹر عطا مُحمّد حامی اپنی اس تحقیق (کہ سچّے سائیں چار زبانوں کے شاعر ہیں ) کے حوالے سے یہ دلیل دیا کرتے تھے کہ معرُوف جرمن اسکالر، ڈاکٹر اینمری شمل (جنہُوں نے سندھ کی تاریخ، تہذیب اور تمدّن پر بہت کام کیا ہے ) 16 زبانیں لکھنا، پڑھنا اور بولنا جانتی تھیں، توکیا وہ سچل سرمستؒ سے بھی زیادہ عظیم ہوگیئں؟ یا حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ؒ صرف ایک زبان (سندھی) کے شاعر ہیں، تو کیا وہ سچل سرمستؒ سے کم درجے کے شاعر ہیں؟ لحٰذیٰ زیادہ کلام کہنا یا زیادہ زبانوں میں کلام کہنا، شاعری کی عظمت کا معیار ہے ہی نہیں۔

آپ کو یہ جان کر بھی حیرت ہوگی کہ حضرت سچل سرمستؒ کے زندگی میں، یا اُن کی رحلت کے کافی عرصے بعد تک بھی، اُن کے نام کے ساتھ کہیں بھی ’سرمست‘ کا لقب شامل نہیں تھا۔ اس حد تک کہ 1901 ء میں جب مرزا علی قُلی بیگ سچّے سائیں کا کلام پہلی بار ترتیب دے کر شایع کرواتے ہیں، تو اُس مجمُوعہء کلام کا نام بھی ’رسالومیاں سچل فقیر جو‘ (رسالہ میاں سچل فقیر کا) رکھتے ہیں۔ گویا سچّل کے نام کے ساتھ ’سرمست‘ کا اضافہ بھی بیسویں صدی کے دؤران اُن کے کسی ”معتقد“ کی جانب سے کیا گیا، جو، اب اُن کے نام کا حصّہ بن چکا ہے۔

سچل سرمستؒ کے عرس مُبارک کے موقع پر ادبی کانفرنس کے انعقاد کا آغاز، 80 کی دہائی سے ہوا، جب ہادی بخش لاڑک مرحُوم، اپنے رُفقاء کے ساتھ ’سچل یادگار کمیٹی‘ کی داگ بیل ڈالی، اور ڈاکٹر تنویر عبّاسی کی معاونت سے ادبی کانفرنس کے انعقاد کو ممکن بنایا، مگران ادبی کانفرنسوں میں، جہاں کسی دور میں ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ، پیرحسام الدین شاہ راشدی، علّامہ غلام مصطفیٰ قاسمی، ڈاکٹر عطا مُحمّد ”حامی“ اوران جیسے دیگر عظیم اسکالرز اسٹیج پر مجلسِ صدارت میں جلوہ افروز ہوتے تھے، جبکہ اب ان مجالس میں سچّل شناس مُحقق اور اسکالرز بہت ہی کم تعداد میں نظر آتے ہیں۔

المیہ صرف اِس کادبی کانفرنس کے اُجڑنے اور مذکُورہ قحط الرجال کاہی نہیں ہے (جس میں اب صرف خانہ پُوری کرنے والے مقالہ جات کی بُہتات سُننے کو ملتی ہے ) ، بلکہ دکھ کی بات یہ بھی ہے کی عثمان علی انصاری کی ترتیب کے باوجُود ہمارے پاس اب تک سچل سائیں ؒ کے سندھی و سرائکی کلام کا کوئی مستند نُسخہ موجود نہیں ہے، جس کے بارے میں ہم کہہ سکیں کہ یہی سچّے سائیں کا سربستہ اور پُورا کلام ہے اور اس میں کسی اور کا کلام شامل نہیں ہے۔

یہ کام کرنے کے لئے کسی اور سیّارے کی مخلوق کے کہیں سے اُترنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ حکومتِ سندھ کی تھوڑی سی توجّہ اور ترجیح کی ضرورت ہے، اور اُس رویّے کی ضرُورت ہے، جس کے تحت سچّل سائیں کے پیغام کے ابلاغ کے لئے پُورا سال کام کیا جائے۔ موجود اسکالرز میں سے قابل عالموں کی کمیٹی تشکیل دے کر اُن سے پورا برس سچل سائیں کی فکر کے حوالے سے، بالخصُوص اُن کے رسالے (کلام) کی ترتیب کے لحاظ سے کام کروایا جائے، تو کوئی ناممکن نہیں، کہ ایک دو برس کے اندر سچّل سرمستؒ کا مُستند کلام ادب کے بُک شیلف کی زینت ہو، جس سے سچل ؒ کی فکرکی تفہیم کی بدولت نہ صرف ان کے افکار کے نئے دریچے وا ہوں، جن سے نہ صرف مرزا علی قُلی بیگ، آغا صوفی، نمانو فقیر (ہاسی بائی) ، رشید احمد لاشاری، ڈاکٹر عطا محمّد ’حامی‘ ، تنویر عبّاسی، مقصُودگل، مُحمّد علی حداد، قاضی علی اکبردرازی سمیت سچّے سائیں کے تمام جنّت نشین مُحققین اور شارحین کی رُوحیں سکُون پاسکیں، بلکہ بشمُول بلدیومٹلانی، ڈاکٹر مخمُور بخاری، پروفیسر الطاف اثیم، اختردرگاہی، ڈاکٹرغلام نبی سَدھایو و دیگر، اُن کے زندہ مُحققین کے دل بھی شاد ہوں اور سچل سائیں ؒ کے ہند، سندھ سمیت پُورے عالم میں آباد، قاری اور مدّاحوں کے چشم و قلُوب بھی روشن ہوں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).