مردوں کو بھی حقوق دیے جائیں


میں لکھنا چاہ رہی تھی کچھ حقوقِ نسواں کے بارے میں۔ اور میں کچھ پریشان ہوگئی کہ خواتین کے حقوق پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے کہ خواتین پوری دنیا میں مظلوم ترین مخلوق سمجھی جاتی ہے اور اگر بات ہو پاکستانی خواتین کی تو یہ مظلومیت اپنی انتہا کو پہنچ جاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سب سے زیادہ ظلم پسماندہ علاقوں کی خواتین پر ہوتا ہے اس کے لئے ایک الگ سے کالم لکھوں گی کہ ابھی میرا ان پسماندہ علاقوں کی خواتین پر لکھنے کا ارادہ نہیں ہے کہ میں شہر میں رہنے والی خواتین سے ”نکو نک“ بھر چکی ہوں۔

یہاں کی خواتین یوں تو خود کو بہت مظلوم ثابت کرتی ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کہ شہری علاقوں کی خواتین بہت چالاک ہو چکی ہیں۔ اور یہاں مجھے عورتوں کی بجائے مرد مظلوم لگتے ہیں جو بیچارے سارادن تلاشِ معاش میں بھٹکتے پھرتے ہیں اور گھر واپسی پر شکائیتوں کا ایک ڈھیر لئے خواتینِ خانہ رونے دھونے میں مصروف نظر آتی ہیں۔ اور اس کی شکائیتوں میں سب سے پہلا جملہ یہ ہوتا ہے کہ تم نے آج تک مجھے دیا کیا ہے؟ ادھر والدہ صاحبہ سے بھی شکووں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہوتا ہے جس میں سرِ فہرست یہ بات ہوتی ہے تم تو ہو بیوی کے غلام ماں جائے بھاڑ میں۔

اور سارے دن کا تھکا ہارا مرد ان دو عورتوں کے درمیان نئے سرے سے ان کو منانے کی مزدوری میں لگ جا تا ہے۔ یہ تو ہے کہانی عام گھروں کی لیکن وہ گھر جہاں جوائنٹ فیملی کا کوئی تصور نہیں ادھر کے حالات بھی اچھے نہیں۔ معاشی خوشحالی ہونے کے باوجود بھی عورتوں کو مردوں سے گلے ہیں کہ ختم ہی نہیں ہوتے۔ ہمارے ہاں یہ بہت اچھا ہے کہ عورت پہ معاشی ذمہ داری کا بوجھ نہیں ہے اگر خواتین گھر سے باہر نکلی ہیں تو اس کی وجہ مرد ہر گز نہیں کہ مردوں کی اکثریت نے انھیں کمانے پہ مجبور کبھی نہیں کیا۔

مرد اپنے گھر کی ذمہ داری احسن طریقے سے نبھارہے ہیں آگے ہر ایک کو اپنے نصیب کا لکھا ہی ملنا ہوتا ہے۔ مرد تمام عمر کماتا ہے بیوی بچوں پر خرچ کرتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ ساری عمر بیویوں کے منہ سے ایک ہی بات سنتا ہے کہ تم نے مجھے دیا کیا ہے۔ یقین کریں عورت ہونے کے باوجود عورتوں کا یہ شکوہ میری سمجھ سے بالاہے۔ ہرچند کے معاشرے کی سبھی عورتیں مجھ سے اختلاف کریں گی اور میرے اس مضمون کو اچھی نگاہ سے نہیں دیکھیں گی لیکن سچ بولنے میں مجھے کوئی عار نہیں ہے۔

میں اپنے مؤقف پر قائم ہوں۔ معاشرے میں مرد کے ساتھ ہونے والی زیادتی کا کبھی شور نہیں سنا گیا مجھے حیرت ہے کہ کبھی کسی مرد نے بھی اپنے حقوق کے لئے آواز نہیں اٹھائی۔ میں یہ بات پورے یقین کے ساتھ کہتی ہوں کہ ہمارے پڑھے لکھے شہری معاشرے میں مرد عورت سے زیادہ مظلوم ہے۔ ہمارے ہاں مغربی معاشرے سے لوگ بہت inspire ہیں یقین جانئے وہاں کا مرد تو زیادہ ہی مظلوم ہے کہ یہا ں تو پھر بول کر مرد حضرات دل کی بھڑاس نکال لیتے ہیں لیکن وہاں تو بے چارہ شوہر باتھ روم میں بند ہو کربھی بیوی کی شان میں گستاخی نہیں کر سکتا۔

میرا اصل نکتہ یہ ہے جس کے لئے ساری تمہید باندھی ہے کہ جہاں عورتوں کے حقوق پر بات ہوتی ہے سیمینارز ہوتے ہیں وہاں مردوں کے حقوق کے لئے بھی کام ہونا چاہیے۔ ہمارے بہت سارے گھر اس وجہ سے ٹوٹ رہے ہیں کہ خواتین میں برداشت کی کمی واقع ہو گئی ہے بچیوں میں صبرو تحمل کا فقدان پیدا ہو چکا ہے اور معزرت کے ساتھ گھروں کے ٹوٹنے کے پیچھے کسی حد تک لڑکی کے ماں باپ کا بھی ہاتھ ہوتاہے جو بچیوں کی یہ تربیت کر رہے ہیں کہ کوئی تمہیں کچھ نہیں کہہ سکتا اگر تمھارا شوہر تم پہ غصہ کرے تو تم واپس آجانا۔

چھوٹی موٹی چپقلش ہر جگہ موجود ہوتی ہے پھر چاہے وہ آپ کا آفس ہو یا کوئی بھی کاروبار۔ اگر ہم ادھر برداشت کرلیتے ہیں تو گھر ٹوٹنے سے بچانے کے لئے تھوڑی سی قربانی کیوں نہیں؟ پڑھے لکھے گھروں میں طلاق کی مین وجہ عدم برداشت ہی دیکھی گئی ہے کہ عورت کو یہ زعم بھی بہت ہوتا کہ وہ اپنے شوہر پہ مقدمہ کر کے اس کو عدالت میں گھسیٹے گی اور اس سے بچے کا دوگنا خرچ نکلوائے گی اس کو پتہ ہے عدالتیں اس کا ساتھ دیں گی اور وہ بات بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے اور مزے کی بات کہ کیس جیت بھی جاتی ہے۔

بیشتر گھروں میں طلاق کی ذمہ دار عورت ہوتی ہے۔ طلاق کی صورت میں بچے ماں کے حوالے کردئے جاتے ہیں کہ قدرتی بات ہے کہ باپ بچے کی ویسے نگہداشت نہیں کر سکتاجیسے ایک ماں کرتی ہے۔ بچے ماں کے پاس چلے توجاتے ہیں لیکن اس کی معاشی ذمہ داری باپ پر عائدہوتی ہے۔ لیکن باپ کو بچے سے ملنے کا تھوڑا ساوقت دیا جاتا ہے۔ ایک ماہ میں صرف دوگھنٹے۔ جبکہ بچے کی معاشی ضرورتیں باپ پوری کرے اوراس خرچ میں ہر سال دس فیصد کے حساب سے اضافہ بھی ہوتا ہے لیکن ہر گزرتے سال کے ساتھ بچے کے دل میں باپ کی محبت کا جذبہ کم ہوتا جاتا ہے۔

وجہ ہے ماں کی طرف سے بچے کی باپ کے خلاف برین واشنگ۔ ماں بچے کے دل میں یہ احساس پختہ کردیتی ہے کہ اس کا باپ دنیا کا ظالم ترین انسان ہے۔ گو کہ عدالتیں بچے کے بالغ ہونے پر بچے کو اختیار دیتی ہیں کہ وہ چاہے تو باپ کے ساتھ رہ سکتا ہے لیکن ایسی صورت میں بچے کب باپ کے پاس جانا پسند کرتے ہیں جب ایک concept ان کے دل و دماغ میں بٹھا دیا جائے کہ اس کا باپ دنیا کا ظالم ترین انسان ہے۔ بچے کو جتنی ماں کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی باپ کی بھی۔

لیکن بچے کاسارا خرچ اٹھانے کے باوجود بھی بچہ باپ کی شفقت سے محروم ہی رہتا ہے یہاں مردوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ جتنا ٹائم ماں کو ملتا ہے باپ کے لئے بھی اتنا ہی وقت طے ہونا چاہیے۔ اگر اتنا نہیں تو اس کا تہائی حصہ تو ہو کہ بچہ بلوغت کو پہنچنے پر اپنے لئے بہتر فیصلہ کرسکے۔ سال کے 365 دنوں میں سے ایک دن باپ کے ساتھ گزارنے والے بچے پر باپ کی شخصیت کبھی واضح نہیں ہو سکتی۔ میں نے بہت ساری خواتین کا مشاہدہ کیا ہے ان میں دس میں سے سات خواتین اپنی انا اور ضدمیں اپنا گھر خراب کرتی ہیں پہلے وہ چھوٹی چھوٹی معمولی باتوں کو ایشو بنا کرطلاق لیتی ہیں اور پھرمحض مرد کو پریشان کرنے کی خاطر عدالت میں جاتی ہیں اور پھر بدلہ کی خاطر وہ بچے کی ایسی برین واشنگ کرتی ہیں کہ بچے کی مکمل ذمہ داری اٹھانے کے باوجود باپ بچے کے دل میں اپنی جگہ نہیں بنا سکتا۔

میری فیملی کورٹس سے اپیل ہے کہ وہ ماں کے ساتھ باپ کی محبت کابھی خیال کریں۔ ضروری نہیں کہ عورت ہی مظلوم ہوبعض دفعہ عورت خودپر مظلومیت کاخول بھی چڑھالیتی ہے۔ کبھی کبھی عورت محض انتقام کے لئے بھی بچے اپنے پاس رکھتی ہے۔ اگر ماں کے پیروں تلے جنت ہے تو باپ اس جنت میں داخل ہونے کے لئے دروازہ ہے جو گرما کی تپتی دوپہروں اور سرما کی خون جما دینے والی سردی میں محنت کر کے اپنے بچوں کے لئے کما کر لاتا ہے۔ عورت کے حقوق پر بات کرنے والے یہ بھی یاد رکھیں کہ مرد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں اور میاں بیوی کی ناچاقی کا حصہ بننے والے بچے بھی اسی معاشرے کا حصہ بنیں گے۔

سو بچوں کے بہتر مستقبل کے لئے بچے کو باپ سے قریب رکھنے کا بھی انتظام کیا جانا چاہیے۔ ایک ماہ میں دو گھنٹے کا وقت بہت کم وقت ہے اس ٹائم پیریڈ کو بڑھایا جائے۔ دوسرا ایمانداری کی بات ہے میں تو کہوں گی کہ جیسے خواتین کے لئے ہیلپ لائن مہیا کی گئی ہے و یسے ہی مردوں کے لئے بھی ایسی ہی ہیلپ لائن کا اجراکیا جائے کہ مردوں کو تنگ کرنے پر وہ بھی بروقت مدد لے سکیں۔ ممکن ہے مردوں کی شکایات عورتوں سے زیادہ نکلیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).