ہم فحاشی کی بد ترین قِسم میں مبتلا ہیں


سچ سے منہ موڑ لینا ایک بدترین فحاشی ہے اور منہ بھی اس وقت موڑلینا جب سچ اپنی پوری طاقت اور برہنگی کے ساتھ قدم بہ قدم اس قوم کو جھنجھوڑ رہا ہو۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بحیثیت قوم ہم اس فحاشی کو کب تک برداشت کرسکتے ہیں اور معاشرتی زوال کی کون سی منزل پر ہمیں ہوش آئے گا۔ آج کی تلخ ترین سچائی یہ ہے کہ پاکستانی قوم کراہِ ارض کی قابلِ رحم قوموں میں ایک سرِفہرست قوم ہے۔ اس قوم کی مادی دولت ہی نہیں اخلاقی دولت بھی بے دردی سے لوٹ لی گئی ہے۔ یہاں انسانیت کے سب سے قیمتی اثاثوں ضمیر اور اذہان پر مہیب ترین ڈاکے مارے گئے ہیں اور مسلسل مارے گئے ہیں

قیامِ پاکستان سے لے کر آج تک ہر دور میں اس قوم کے فیصلے بے لوث و بے غرض قیادت اور دانشوروں کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ ہوس اور لالچ کے مارے اشرافیہ کے چند ذہنی بونوں کے ہاتھوں میں رہے ہیں۔ اور آج ان ہی فیصلوں کا ثمر ہے کہ اکیسویں صدی میں بھی پاکستانی قوم اور اس کی قیادت کا شعور کسی نا بالغ بچے کی ذہنی سطح پر سانس لے رہا ہے۔ انفرادی و اجتماعی، عوامی و ریاستی سطح پر اور قدم قدم پر مسلسل انسانی حقوق کی پامالی نے ہمارے معاشرے کو وحشت ذدہ بنادیا ہے۔ غربت، جہالت، مذہب کے نام ہر دہشت انگیزی، لاقانونیت، بے حسی و بے ضمیری، جھوٹی و جعلی حب الوطنی اور سب سے بڑھکر موقع پرستی اور منافقت ہماری قوم کی رگوں میں گویا خون کی طرح دوڑ رہی ہے۔

ملکِ خداداد میں بسنے والی اس قوم کے معاشی، معاشرتی اور اخلاقی زوال کے ذمہ دار غیر جمہوری حکومتیں، بد عنوان و نا اہل سیاسی قیادت، نام نہاد دانشور اور مذہبی رہنما ہیں جنہیں یہ قوم اب تک جھیلتی آئی ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سیاستدانوں کی نا اہلی، بدعنوانی اور درباری سازشوں کے باعث جمہوری روایات کی بنیاد نہیں رکھی جا سکی جس کے باعث غیر جمہوری قوتیں ابتدائی دور میں ہی بالواسطہ اور پھر بلا واسطہ اقتدار و نظامِ حکومت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ کی تقریباً نصف مدت آمروں نے براہِ راست حکومت کی اور باقی ماندہ عرصہ میں بھی اہم ملکی معاملات کے اختیارات عملاً غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں میں ہی رہے ہیں۔ یہ امر کسی کائناتی سچائی کی مانند ہے کہ ہر آمرانہ اور غیر منتخب حکومت اپنے کھوکھلے پن کے باعث ہمہ وقت عدم تحفظ کا شکار رہتی ہے اور کسی بھی حقیقی عوامی تحریک کے خوف سے ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ ان کی سب سے پسندیدہ پالیسی ہوتی ہے۔ اس پالیسی کے ذریعے آمرانہ حکومتیں اہنے عارضی اور قلیل مدتی مقاصد تو حاصل کرلیتی ہیں لیکن اس پالیسی کے طویل مدتی، ناقابل تلافی اور بدترین اثرات قوموں کو برباد کر کے رکھ دیتے ہیں۔

آمریت میں سیاسی مخالفت ہی سب سے بڑا اور ناقابلِ برداشت جرم تصور کیا جاتا ہے۔ آمرانہ حکومتیں اپنی بقاء اور مفادات کے لئے تمام ایسی آوازوں کو جو سیاسی و سماجی شعور رکھتی ہیں انہیں جبرًا خاموش رہنے اور سیاسی معاملات سے دور رہنے پر مجبور کرتی ہیں۔ ایسی تمام سیاسی و سماجی شخصیات اور گروہ جو آمرانہ حکومتوں کی کمزوریوں، جبر اور عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں انہیں دھونس، دھمکیوں، جعلی مقدمات، جبری گمشدگیوں، غداری کے الزامات اور یہاں تک کہ موت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان میں آمرانہ حکومتوں کو ہمیشہ اس حقیقت کا شدت سے احساس رہا ہے کہ وہ غیر منتخب اور غیر عوامی ہیں اور ان کے خلاف اٹھنے والی کوئی بھی چھوٹی سی عوامی تحریک کسی بھی بڑی تبدیلی کو جنم دے سکتی ہے اور اسی خطرے کے پیشِ نظر ہمیشہ ایک مخصوص خدوخال کی سیاسی اشرافیہ کو عوام پر مسلط رکھ کر دو مقاصد حاصل کیے گئے۔ اول: عوام کی سیاسی قیادت کو ان ہاتھوں میں دینے کا بندوبست کیا گیا جو نا اہل، کرپٹ اور موقع پرست تھے اور اپنی ان ہی خامیوں کے باعث پاکستان کی سیاسی قوتیں کبھی بھی غیر جمہوری قوتوں کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں آسکیں۔  دوم: سیاسی اشرافیہ کی نا اہلی اور کرپشن کے باعث عوام کو یہ بھرپور تاثر دیا گیا کہ سیاسی قوتیں اس ملک کے نظم و نسق کو چلانے کے اہل نہیں ہیں۔

کنٹرولڈ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملکی و غیر ملکی سیاست کا ایسا مخصوص نقشہ کھینچا جاتا رہا جو ایک مخصوص غیر جمہوری سوچ کے لئے ماحول کو سازگار رکھے۔ طویل آمرانہ اور نام نہاد جمہوری حکومتوں کے ادوار نے ہمارے سیاسی، معاشی ومعاشرتی اور اخلاقی ڈھانچے کو بالکل تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور عوام تاریخی حقائق، سچائی اور بیرونی دنیا اور بین الاقوامی برادری سے بالکل کٹ کر رہ گئے ہیں۔ عوام کی اکثریت صرف وہی سچ مانتی اور جانتی ہے جو اسے برسوں سے سنایا اور دکھایا گیا۔ عوام کو دانستاً کم علم اور کم فہم رکھ کر تصویر کے دوسرے رخ تک ان کی رسائی ناممکن بنادی گئی۔ طویل آمرانہ حکومتوں نے معاشرے میں عدم برداشت، عدم رواداری اور جبر کے کلچر کو فروغ دیا۔ مکالمے، دلیل اور اختلافِ رائے جو مہذب معاشروں کا حقیقی حسن ہوتے ہمارے معاشرے میں ناپید ہوتے چلے گئے۔

معاشرتی زوال کے اس شرمناک سفر میں ہمارے نام نہاد دانشوروں نے ہراول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ اہل دانش کسی بھی معاشرے کا ضمیر اور اساس ہوتے ہیں۔ معاشروں اور قوموں کی عزت وآبرو اور مستقبل کے فیصلے معاشرے میں موجود دانشوروں کی بنیاد پر ہی کیے جاتے ہیں۔ مگر جب دانشور دلال یا دلال دانشور بن جائیں۔ تو معاشرے ایسے ہی منظر پیش کرتے ہیں جو آج ہمارے سامنے ہیں۔

ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر چھائے معدودے چند کو چھوڑ کر باقی تمام دانشوروں نے قوم کو گمراہ کرنے کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ علم و عقل اور کسی بھی انسانی خصوصیت سے عاری یہ نام نہاد علم دشمن اور سماج دشمن دانشور جنہیں خدا تعالیٰ نے کسی دولے شاہ کے چوہوں جتنی فہم و فراست عطا کی ہے اور جن کی زبان اور الفاظ تک ان کے اپنے نہیں وہ قوم کی تربیت اور ذہن سازی میں مصروف ہیں۔ ہر دور میں ظلم و جبر کے ہاتھ مضبوط کرتے ان ابن الوقت کی تصویر و کردار مجھے مصطفٰی زیدی کے ان الفاظ میں نظر آتے ہیں۔

تم نے ہر عہد میں نسلوں سے غدّاری کی

تم نے بازاروں میں عقلوں کی خریداری کی

معاشرتی زوال کی داستان مذہبی قیادت کا ذکر کئے بغیر مکمل نہیں ہو سکتی۔ جدید و مہذب دنیا میں ہونے والی ہمہ وقت تبدیلیوں سے بے خبر ہماری مذہبی قیادت آج بھی سولہویں صدی عیسوی میں سانس لے رہی ہے۔ ہر ناگزیر سماجی و سائنسی تبدیلیوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنے کے بجائے ان تبدیلیوں کی راہ میں ڈھٹائی کے ساتھ کھڑے ہو جانے کی روِش نے صرف ہماری مذہبی قیادت کو ہی نہیں پوری قوم کو اقوامِ عالم کے سامنے ایک مذاق بنا دیا ہے۔

خود مذہب کے معاملے میں ان کے غیر منطقی اور پیچیدہ رویوں نے معاشرے کو الجھا کر رکھ دیا ہے۔ مذہبی قیادت کی ابن الوقتی کو ایک طرف بھی رکھ دیں تو یہ کہے بنا نہیں رہ سکتے کہ معاشرے کو درپیش مسائل کو حل کرنا تو درکِنار ہماری مذہبی قیادت نے تو معاشرے کے سینے پر مسائل کے انبار لگا دیے ہیں۔ علم دشمنی کو اپنا ورثہ سمجھنا ان کا وتیرہِ خاص ہے۔ اپنے محدود معاشی و سیاسی فوائد کے لئے عوام کو تقسیم کرنا اور عوام دشمن قوتوں کو مضبوط کرنا گویا ان کی جینز میں شامل ہے۔ ہم نے ان کے ہاتھوں فرقہ وارانہ اختلافات کو عدم برداشت اور پھر عدم برداشت کو دہشت گردی کا روپ دھارتے دیکھا ہے۔ عالمی سیاست کی بساط پر ہماری مذہبی قیادت نے کس طرح مہروں کا کردار ادا کیا اس پر تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔

تاریخ کے اس موڑ پر قوم کی تعمیر و ترقی کا سوال تو بہت دور کی بات ہے فی الوقت تو زوال کی اِن اتھاہ گہرائیوں سے نکلنے کے لئے سب سے پہلے مرحلے پر ہمیں من حیث القوم ان شرمناک سچائیوں اور حقیقتوں کو تسلیم کرنا پڑے گا۔ اپنی راہیں اپنی سمت، اپنی سوچوں کے زاویے درست کرنا پڑیں گے۔ زمینی حقائق کو جھٹلانے اور سچ سے منہ موڑ لینے کی روِش نے ہمارے قومی وجود کو بے حال کردیا ہے۔ خدا نے جو مہلت ہمیں دی تھی شاید وہ مہلت اپنی آخری ساعتوں پر ہے۔ اگر اب بھی ہم نہ سنبھلے تو ہمارا وجود تاریخ میں صرف بدترین مثالوں کے لئے یاد رکھا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).