خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں کا احتجاج: ’مریض بے چارہ کیا کرسکتا ہے لڑ تو نہیں سکتا‘


پشاور ہڑتال

پاکستان کے صوبے خیبر پختونخوا میں ڈاکٹروں اور حکومت کے درمیان چھ روز سے جاری تنازعہ شدت اختیار کرتا جارہا ہے جبکہ دوسری طرف ڈاکٹروں کی ہڑتال کے باعث سرکاری ہسپتالوں میں مریضوں کو کئی قسم کے مشکلات کا سامنا ہے۔

پشاور کے دو بڑے تدریسی طبی مراکز خیبر ٹیچنگ ہسپتال اور حیات آباد میڈیکل کمپلیکس میں ڈاکٹروں کی طرف سے ہڑتال کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور اس دوران صرف ایمر جنسی سروسز فراہم کی جارہی ہے جبکہ دیگر تمام سروسز معطل ہیں۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال میں پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔ ہسپتال کے مرکزی گیٹ پر پہنچتے ہی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے یہ کوئی طبی مرکز نہیں بلکہ پولیس تھانہ یا کوئی فوجی مرکز ہو کیونکہ وہاں ہر طرف پولیس اہلکار چوکس دکھائی دیتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

خیبر پختونخوا: ڈاکٹروں، حکومت کا تنازع کیا ہے؟

پشاور کے ہسپتالوں میں 700 کیمرے نصب کرنے کا منصوبہ

’ہسپتال جو مجبوروں کے لیے پناہ گاہ تھا‘

پشاور ہڑتال

ہسپتال کی مرکزی او پی ڈی جہاں عام دنوں میں مریضوں کے رش کے باعث تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی وہاں بھی مریضوں کی جگہ پولیس اہلکار تعینات ہیں۔ او پی ڈی کے احاطے میں قائم بڑے بڑے بینچوں پر پولیس اہلکار ٹیر گیس گن اور دیگر اسلحہ تھامے ہوئے آرام سے بیٹھے نظر آتے ہیں۔

وہاں موجود ایک پولیس اہلکار نے بتایا کہ وہ گزشتہ تین دنوں سے یہاں ڈیوٹی دے رہے ہیں اور جب تک ڈاکٹروں اور حکومت کے درمیان تنازعہ ختم نہیں ہو جاتا انھیں یہاں تعینات ہونے کا حکم ملا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اعلی حکام کی طرف سے حکم ملا ہے کہ اگر ڈاکٹر ان پر حملہ کریں تو جوابی کارروائی کی جائے لیکن اگر ڈاکٹرز آپس میں لڑ پڑتے ہیں تو داخل اندازی کی ضرورت نہیں۔

خیبر ٹیچنگ ہسپتال کا شمار صوبے کے بڑے طبی مراکز میں ہوتا ہے جہاں تقریباً 1200 سے لے کر 1500 مریضوں کے داخل ہونے کی گنجائش ہے۔ لیکن ہڑتال کے باعث ہسپتال کی زیادہ تر لابیز میں ہو کا عالم ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہاں کوئی ہسپتال ہی نہ ہو۔

پشاور ہڑتال

او پی ڈی کے ساتھ کھڑے پاڑہ چنار سے آئے ہوئے ایک نوجوان اشفاق نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ ان کا بھائی ذہنی امراض کے وارڈ میں گزشتہ ایک ہفتے سے داخل ہے لیکن جب سے ہسپتال میں ڈاکٹروں کی طرف سے ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے اس کے بعد سے سینئیر ڈاکٹر ڈیوٹی پر نہیں آرہے جس سے اب تمام مریض اللہ کے رحم پر کرم ہے۔

انھوں نے کہا کہ سرکاری ہسپتالوں میں داخل ہونے والے بیشتر مریض غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو نجی ہپستالوں میں علاج کی استطاعت نہیں رکھتے۔ انھوں نے کہا ’مریض بے چارہ کیا کرسکتا ہے وہ تو ویسے بھی بیمار اور ہمدردی کا طلب گار ہوتا ہے وہ ڈاکٹر سے لڑ تو نہیں سکتا۔‘

ضلع دیربالا سے مریض کے ساتھ آئے ہوئے ایک اور نوجوان سیلمان شاہ نے بتایا کہ ہڑتال کے اعلان کے بعد ڈاکٹر وارڈز میں نہیں آرہے بلکہ صرف ہسپتال کا عملہ ہی تمام اختیارات سنبھالے ہوئے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ایک ہفتہ قبل ان کے مریض کا ایم آر آئی ٹیسٹ ہوا تھا لیکن ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کی وجہ سے ابھی تک اس کا کوئی نتیجہ نہیں آ سکا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ڈاکٹروں کی عدم موجودگی کے باعث اب ہسپتال میں مریض مررہے ہیں اور جس کا الزام ڈاکٹروں پر لگ رہا ہے۔

پشاور ہڑتال

سلیمان شاہ کے مطابق ’گزشتہ رات دو بچے چلڈرن وارڈ میں ہلاک ہوئے تاہم یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ ان کی موت کس وجہ سے ہوئی لیکن ظاہری سی بات ہے جب ڈاکٹر ڈیوٹی نہیں کرینگے تو الزام تو ان پر لگے گا۔`

خیال رہے کہ چھ روز قبل صوبائی وزیرصحت کے محافظوں کی طرف سے ایک سینئر ڈاکٹر پر تشدد کیا گیا تھا جس کے بعد ڈاکٹروں کی تنظیموں نے صوبہ بھر کے تمام سرکاری ہپستالوں میں ہڑتال کا اعلان کیا تھا۔ ہڑتالی ڈاکٹروں کا مطالبہ ہے کہ وزیر صحت کے خلاف مقدمہ درج کرکے ان کو عہدے سے ہٹایا جائے اور محکمہ صحت میں ہونے والی بعض اصلاحات کو واپس لیا جائے۔

تاہم وزیراعلی خیبر پختونخوا نے ڈاکٹروں کے مسائل سننے کےلیے انھیں باضابط طور پر مزاکرات کی دعوت دی ہے جو آج بروز منگل متوقع ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp