پہلا ناول لکھنے کے دوران بہت کچھ سیکھا


1978 کے ابتدائی دنوں میں ایک چھوٹے اشاعتی ادارہ کے لئے کام کرنے والی میری ایک دوست نے مجھے بتایا کہ اس نے کچھ غیر ناول نگار مصنفین (یعنی فلسفیوں، ماہرین سماجیات، سیاستدانوں وغیرہ) سے کہا ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی جاسوسی کہانی لکھ کر دیں۔ میں نے اسے جواب دیا کہ میں تخلیقی تحریر میں دلچسپی نہیں رکھتا اور مجھے پورا یقین ہے کہ میں اچھے مکالمے لکھنے میں مکمل طور پر غیر فعال ہوں۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی بات ختم کی، کہ جب بھی میں ایک جرم پر مبنی ناول لکھوں گا، وہ کم از کم پانچ سو صفحات طویل ہو گا اور کسی قرون وسطی کے زمانے کے خانقاہ کے پس منظر میں ہو گا۔ پتہ نہیں، یہ بات میں نے کیوں کہی تھی، لیکن یہ تھوڑا سا اشتعال انگیز انداز میں کہی تھی۔ میری دوست نے مجھ سے کہا کہ وہ ایسے کسی جلد از جلد فروخت ہو جانے والے ادب کی بابت بحث کرنے میرے پاس نہیں آئی ہے۔ اور ہماری ملاقات وہیں ختم ہو گئی۔

خیر جیسے ہی میں گھر پہنچا، تو میں نے اپنی میز کی دراز میں کاغذ کا وہ ٹکڑا تلاش کرنا شروع کیا، جس پر کچھ راہبوں کے نام گزشتہ سال میں نے لکھ رکھے تھے۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ میری روح کے سب سے زیادہ خفیہ حصے میں ایک ناول کا خیال پہلے سے ہی موجود تھا، لیکن میں اس سے لاعلم تھا۔ اسی وقت مجھے یہ خیال آیا کہ بہتر ہو گا کہ میری کہانی میں ایسا ہو، کہ ایک راہب کی موت ایک پراسرار کتاب پڑھتے ہوئے ہو۔ اس طرح میں نے ’دی نیم آف دی روز‘ لکھنے کی شروعات کی۔

ناول شایع ہونے کے بعد اکثر لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے کہ آخر مجھے اس ناول کو لکھنے کی کیا ضرورت آن پڑی تھی، پھر میں انہیں جو بھی وجہ بتائی وہ ہمیشہ میرے مزاج کے حساب سے تبدیل ہوتی گئی،وہ سارے کے سارے حق بجانب تھے لیکن وہ غلط بھی تھے۔ آہستہ آہستہ مجھے خود ہی اس بات کا ادراک ہوا کہ صرف ایک ہی جواب درست تھا اور وہ یہ کہ زندگی کے کسی ایک خاص لمحے میں میرے اندر ناول لکھنے کی چاہ پیدا یوئی تھی اور مجھے لگتا ہے کہ اس بارے میں ہر کسی کے سوال کا ایک یہی جواب کافی ہے۔

جب انٹرویو کرنے والے مجھ سے پوچھتے ہیں، آپ اپنا ناول کس طرح لکھتے ہیں، تو میں ان کے سوال کو بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے جواب دے دیتا ہوں، بائیں سے دائیں کی طرف۔

مجھے پتہ ہے کہ یہ کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے اور اس وجہ سے بہت سے عرب ممالک اور اسرائیل میں ایک خاص قسم کی حیرت بھی پھیل سکتی ہے۔ اس سوال کا تفصیلی جواب دینے کے لئے اب میرے پاس کافی وقت ہے۔

پہلا ناول لکھنے کے عمل میں میں نے کچھ چیزیں بہت غور سے سيكھیں۔ پہلا محرک ایک ایسا برا لفظ ہے، جس کا استعمال جگاڑو مصنف اپنی فنکارانہ حیثیت بڑھانے کے لئے کیا کرتے ہیں۔ ایک پرانی کہاوت ہے کامیابی کا مطلب دس فیصد تحریک اور نوے فیصد سخت محنت ہے۔

فرانسیسی شاعر لامارتينے کے بارے میں ایک واقعہ بتایا جاتا ہے۔ وہ اپنی ایک انتہائی معروف نظم کے بارے میں کہتے تھے کہ ایک رات وہ گھنے جنگل میں گھوم رہے تھے ، تبھی ایک خاص لمحے میں یہ نظم ان پر وارد ہوئی۔ ایک دم اسی طرح لکھی ہوئی۔ اور ان کی موت کے بعد کسی نے ان کے مطالعہ گاہ سے اس کی شاعری کے بہت سے الگ الگ ڈرافٹ نکالے۔ یعنی اس نظم کو وہ لکھنے اور کاٹنے کس عمل کئی برسوں سے کر رہے تھے۔

جس ناقد نے دا نیم آف دی روز پر پہلا تبصرہ لکھا تھا، اس کا کہنا تھا کہ یہ ناول کسی خاص لمحے میں ہی لکھا گیا ہے، لیکن اس کی زبان، ساخت اور تھیم مشکل ہیں، اس ناول کو صرف ایک خاص طبقہ ہی پڑھ سکتا ہے۔ جب اس ناول نے لاجواب کامیابی حاصل کی، اس کی دسیوں لاکھ کاپیاں فروخت ہوئیں، تو اسی ناقد نے اس کی مقبولیت اور تعریف کو ہضم نہ کر پاتے ہوئے یہ لکھا، مجھے پورا یقین ہے کہ اس ناول میں تیکنیکی طور پر کسی خفیہ نسخوں یا ہدایت کا بہت سارا مواد استعمال کیا گیا ہے۔ بعد میں ان لوگوں نے یہاں تک کہا کہ اس کتاب کی کامیابی کے پیچھے ایک کمپیوٹر پروگرام کی شراکت ہے۔

یہ بات کہتے ہوئے وہ لوگ بھول گئے کہ کسی طرح کچھ کھٹ پٹ کر لینے والے تحریری سافٹ ویئر کے ساتھ جو پہلا کمپیوٹر آیا تھا، وہ اَسی کی دہائی کے اوائل میں آیا تھا۔ اور میں اپنا ناول اس سے پہلے لکھ چکا تھا۔ 1978-79 میں ۔ امریکہ میں بھی آپ کو جو بہترین کمپیوٹر مل سکتا تھا، وہ تھا تینڈی کا بنایا ہوا ناقص کمپیوٹر، جس کا زیادہ سے زیادہ استعمال آپ ایک مختصر خط لکھنے کے لئے کر سکتے تھے، اس سے زیادہ نہیں۔

نوٹ: عظیم اطالوی مصنف امبریتو ایکو نے جب پہلا ناول لکھا، اس وقت ان کی عمر تقریبا پچاس سال تھی۔ وہ مفکر اور فلسفی کے طور پر اس سے پہلے ہی دنیا بھر میں معروف ہو چکے تھے۔ ان کا پہلا ناول دا ’نیم آف دی روز‘، جسے شروع میں ناقدین نے نشانے پر لیا تھا، بہت جلد ہی پوری دنیا میں مقبول ہوا اور اب وہ جدید کلاسیکی ادب میں شمار کیا جاتا ہے۔ یہ حصہ ہارورڈ یونیورسٹی پریس کی طرف سے شایع ایکو کی کتاب ’کونفیکشن آف آ ینگ ینگ ناولسٹ‘ (2011 ) سے لیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ایکو کی جانب سے ایم رائے یونیورسٹی میں ایک سیریز کے تحت دیئے گئے خطبات بھی موجود ہیں۔

تحریر: امبترو ایکو
انگریزی سے ترجمہ: محمد علم اللہ

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 167 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah