عرضی بنام نبی المسلمین محمد رحمتہ اللعالمین


سلام دست بستہ
اے خُدا کے پیغمبر!

10 برس ہونے کو آئے کہ میں آپ کے متعلق سوچتی رہی ہوں۔ شاید اسی قدر کہ جتنا میں نے اپنے گھر اور بچوں کا سوچا یا پھر اس سے بھی کہیں زیادہ۔ پریشان تھی کہ آپ سے رابطے کا کوئی سبب ہو تو یہ عرضی آپ تک پہنچا سکوں مگر جیل کی اس تنگ بیرک سے جہاں کوئی کھڑکی نہیں تھی کہ روشنی آتی ہو، کوئی ذی روح نہیں تھا کہ اپنے ہونے کے احساس سے ہی دلجوئی کرسکے۔ میں اس بند کوٹھڑی میں مقید رہ کربھی نقصِ امن کا سبب بنی رہی اور جرم بس یہ یہ کہ ایک روز میں نے پیتل کے اس پرانے پیالے سے پانی پینا چاہا تھا جس سے سب پیاس بجھاتے تھے۔

اے مسیح کے نبی بھائی!

میں مسیح کی ماننے والی ہوں۔ وہی مسیح جس کی ماں اِس دنیا کی پاکیزہ ترین کنواری تھی۔ وہی مسیح جس کا کوئی باپ نہیں تھا، وہی مسیح جو پنگھوڑے سے اپنی ماں کی پاکیزگی کی قسم کھا کر ابن مریم کہلایا اور تیرے رب کا معجزہ قرار پایا۔ میں اُس مسیح کی قسم اُٹھا کر کہتی ہوں کہ میں نے آپ کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی تھی۔ حالانکہ اُن عورتوں میں سے ایک میرے نبی اور آپ کے بھائی کی توہین کیے جا رہی تھی مگر میں چُپ رہی کہ میرے پیغمبر نے انہی کے کفارے میں صلیب لے لی تھی۔

میرے آقا، آپ رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجے گئے ہیں، یہ بات میں نے اپنے گاؤں کی مسجد کے اِمام صاحب سے سُنی تھی جب میں بازار سے گُزر رہی تھی۔ مجھے بڑی تسلی ہوئی کہ ہمارا وہ ہمسایہ جو دو کمروں کے ایک مکان کی خاطر ہمارا دشمن بن گیا ہے، وہ بھی تو آپ رحمت العالمین کا نام لیوا ہے۔ ہم آپ کا واسطہ دے کر اس کے شر کے بچ جائیں گے۔ مگر میرا رب کچھ اور دکھانا چاہتا تھا۔

سرکار!

اٹانوالہ بڑی زرخیز زمین ہے۔ کئی طرح کی فصلیں کاشت ہوتی ہیں۔ گرمیوں میں تو فالسے کے کھیت سے کھیت تیار ہو جاتے ہیں۔ اب مالکوں کو چننے کے لئے مزدوروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ کھیت مزدوری میں عورتوں کا رواج ہے۔ ایسی گرمی میں ہی جون کی کوئی تاریخ تھی اور ہم وہاں کام میں لگی ہوئی تھیں۔ میں آپ کے روبرو جھوٹ نہیں بولوں گی، سب اپنے اپنے گھروں کی عام باتیں کررہی تھیں کہ مذہب پہ بات شروع ہو گئی۔ میں سہم گئی اور یکایک مجھے اپنی بیٹیوں کا خیال آیا۔ نجانے کیوں میرے دل سے دعا نکلی کہ خدا ان کا نگہبان ہو۔

پھر اُن عورتوں میں سے کسی نے مجھے کہا کہ سچا دین صرف اسلام ہے اور باقی سب آگ میں جلیں گے۔ میں ان پڑھ ہوں کچھ زیادہ تو جانتی نہیں مگر ہر اتوار پادری صاحب بتاتے ہیں کہ ہمارے عیسیٰ مسیح نے ہمارے گناہوں کے بدلے خود صلیب لے لی تھی اور ہم ابراہیم کے ماننے والے ہیں اور محمد بھی ابراہیم کو مانتے تھے۔ تو پھر ہم آگ میں کیوں جلیں گے اور ویسے بھی ہم فالسہ چنتی مزدور عورتیں کیسے کسی کے لیے جنت اور دوزخ کا فیصلہ کر سکتی ہیں۔ مگر میں کچھ نہ بولی۔ وہیں یہ بات کرتے کرتے کسی نے مجھے پانی لانے کو کہا۔ قیامت کی گرمی تھی۔ دور سے پانی لانا ہوتا تھا جو میں ہی لاتی تھی کیونکہ باقی مسلمان تھیں اور میں کمتر۔ میں بُرا نہ مناتی تھی کہ ہمارے مسیح بھی تو مُردوں کو زندہ کرتے تھے اور پانی تو زندگی کی علامت ہے۔

میں پانی لائی اور وہاں پڑے پیتل کے ایک پرانے پیالے میں پینے لگی۔ پیاس سے حلق خشک تھا۔ اتنے میں وہی عورت جو مجھے اپنے دین کی تبلیغ کرتی تھی، چیختی آئی اور میرے ہاتھ سے پیالہ چھین کر چیخنے لگی کہ تمہاری جُرات کیسے ہوئی ہمارے برتنوں میں پانی پینے کی؟ مجھے اپنی چچا زاد شبانہ کی بات یاد آئی جو لاہور کے کسی صاحب کے ہاں کام کرتی تھی کہ وہاں صرف برتن ہی الگ نہیں وہ ہمیں چوڑے بھی کہتے ہیں، خیر میں نے اپنی پیاس کو ایک دم سے خشک ہوتے دیکھا اور بات ختم کرنے کے لیے کہا ابھی تو تم مجھے اپنے مذہب کی دعوت دے رہی تھی اور اب پانی بھی نہیں پینے دیتیں۔ وہ یونہی مزید بولتی رہی اور مجھے خیال آتا تھا کہ آج دیر ہوگئی ابھی ہانڈی بھی پکانی ہے اور یہ کہ اب میں ایشان کو کچھ کھانا پکانا سیکھاؤں اتنی بھی چھوٹی بھی نہیں ہے کہ ماں کی مدد نا کر سکے۔

میں گھر واپس آگئی اور صحن میں گھڑے سے پانی پیتے وقت اُس پیالے کا خیال پھر سے آیا مگر میں نے فوراً جھٹک دیا۔ اُسی دن شام سے ذرا پہلے ہی میرے کچے صحن میں 10 سالوں کے لئے رات اُتر آئی۔ یکایک باہر سے شور سا اٹھا۔ مجمع چیختا چنگھاڑتا آرہا تھا۔ آسیہ گستاخ، آسیہ ملعونہ کی آوازیں بلند سے بلند ہو رہیں تھیں۔ خاوند نے مجھ سے پوچھا تو نے کیا کر کے آئی ہے۔ میں اس کے پیروں میں گر گئی، اپنی بے گناہی کا اقرار کیا اور پیالے والی ساری بات بتا دی۔

گاؤں کے مولوی صاحب نے میرے خاوند سے کہا کہ تیری بیوی نے ہمارے نبی کی شان میں گستاخی کی ہے اور ہم اس کو مار دیں گے، سب سے آگے ہمارا وہی ہمسایہ تھا جس کے ساتھ مکان کی تلخی رہتی تھی۔

اے خدا کے پیغمبر!

اُس کے بعد میں جیل چلی گئی اور مجھ پہ وہ ناکردہ جرم ثابت بھی کر دیا گیا۔ میں انکار کرتی رہی کہ میں کسی نبی کی شان میں گستاخی کا سوچ بھی نہیں سکتی مگر میری کون سنتا تھا۔ جیل کی اُس قبر نُما کوٹھری میں مجھے صرف اپنی بیٹیوں کا خیال آتا کہ وہ محفوظ رہیں۔ پھر مجھے سزا سنا دی گئی۔ آج بھی وہ دن یاد ہے جب جج کے فیصلہ دینے کے بعد سب نعرے لگا رہے تھے کہ مار دو مار دو ملعونہ آسیہ کو مار دو۔ الّلہ اکبر اور میں پٹ سن کی پھٹی پُرانی بوری کی طرح جیل کی وین میں پھینک دی گئی تھی۔

اے رحمت کے نبی!

آپ کے نام پہ یونہی سال پہ سال گُزرتے گئے۔ کوئی جج میرا مُقدمہ سننے کو تیار ہی نہ تھا، کوئی میرا وکیل نہ تھا، کوئی آسرا نہیں تھا۔ جو بولے وہ سب باری باری مار دیے گئے۔ میں سلمان تاثیر صاحب کے لئے بہت روئی تھی کہ صرف وہ ایک مُسلمان تھا جو آپ کے نام پر میرے لئے معافی مانگ رہا تھا۔ باقی سب موت سناتے تھے۔

پاک حضور؛

پھر جب مقدمہ شروع ہوا تو خدا نے رحم کیا۔ بڑے جج صاحب نے غور کیا تو انہیں بھی معلوم ہوگیا کہ گواہی دینے والے جھوٹ بولتے ہیں۔ آپ کی عزت و ناموس کی خاطر سر تن سے جدا کرنے کا نعرہ لگانے والے آپ کے نام پر جھوٹ بولتے رہے۔ مجھے تو کئی برس کی قید کے بعد گستاخی کے جرم سے بری کردیا گیا ہے لیکن آپ کے وہ عاشق اب بھی آزاد پھرتے ہیں۔ ان کا مقدمہ میں آپ کے سپرد کرتی ہوں۔

لیکن رہائی پر بھی میری آزمائش کہاں ختم ہوئی۔ آپ کے نام لیواؤں نے مُلک بند کر دیا کہ اگر آسیہ باہر گئی تو سب جلا دیں گے، کچھ نہ چلنے دیں گے۔ پھر جب کچھ مہینوں کی جیل بھگتی بڑی تو آپ کے عاشقوں نے وعدہ کیا کہ اب کوئی بیاں نہیں دیں گے۔ چند مہینوں کی سزا نے ہی اُن کو اپنے موقف کو بدلنے پے مجبور کر دیا تو پھر گُستاخ کون۔

سرکار!

آپ کے دین کے نام پر بنا یہ مُلک اب میرے جیسی غریب مسیحی کے لئے ویسا محفوظ نہیں رہا جیسے آپ کے جعفر طیار کے لئے مسیحی حبشہ جائے امان تھا۔ آپ کے لئے بھی تو آپ کا مکہ نہیں محفوظ رہا تھا۔ میں نے بھی ایک دوسرے مُلک کو ہجرت کرلی ہے۔ یہاں آکر محفوظ ہوں، اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہوں، خوف میں نہیں ہوں مگر جیسے آپ کو آپ کے مکہ میں وہاں کے رہنے والوں نے نہ رہنے دیا تھا، مجھے بھی وطن بدری کا یہ عذاب میرے ہی ہم وطنوں نے پہنچایا ہے۔

اے رحمتوں والے پیغمبر!

اب میں اپنا مُقدمہ آپ کے حضور قیامت کے دن پیش کروں گی۔ وہ دن کہ جب آپ حوضِ کوثر پہ رحمت اور شفاعت کے جام پِلا رہے ہوں گے تو میں بھی آپ کے سامنے اپنے نبی اور آپ کے نبی بھائی عیسیٰ کے ساتھ آکر اپنا حق مانگوں گی۔ ناحق قید میں گزرے میں اپنے یہ 10 سال مانگوں گی۔ آپ وہاں جو فیصلہ فرمائیں مجھے قبول ہوگا۔ آپ تو رحمتوں کے نبی ہیں مگر آپ کے اُمتیوں کے خوف سے میں وہاں بھی اپنا الگ پیالہ ساتھ لاؤں گی۔ یہ فیصلہ آپ پر چھوڑ دوں گی کہ آپ کے در سے مجھے جام رحمت کیسے ملتا ہے۔

آپ کے نام پر ناحق ستائی گئی ایک غریب ماں

آسیہ نورین مسیح


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).