ریپ سے بچائیے: بچیوں کو زندہ دفن کیجئے


پندرہ مئی دوہزار انیس کی شب دارالحکومت کے باسی اپنے آرام دہ بستروں میں اے سی کی ٹھنڈی ہوا میں خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ کچھ دوستوں اور اہل خانہ کے ساتھ منال کے پر فضا مقام پر سحری بوفے کا لطف لے رہے تھے۔ کوئی بیس کلومیٹر کے فاصلے پر راولپنڈی کی فوڈ سٹریٹس میں کھوے سے کھوا چھلتا تھا کہ روزے میں بھوک کی لذت سے پہلے سری پائے اور نہاری کے ساتھ گرما گرم نان کا مزہ لینا باعث و برکت و ثواب ہے۔

ایسے میں گل نبی نامی ایک مزدور اپنے گھر اور چک شہزاد تھانے کے درمیان شٹل کاک بنا ہوا تھا۔ اس نے یہ رات اپنی شریک حیات کے ساتھ کانٹوں پر گزاری۔ اس کی دس سالہ بچی فرشتہ افطار سے کوئی دو گھنٹے پہلے اپنے تنگ و تاریک گھر سے باہر گلی کی کھلی فضا میں کھیلنے کے لئے باہر نکلی لیکن اس کے بعد اس پر کیا بیتی یہ کوئی نہ جان سکا۔ گل نبی پانچ دن تک انصاف کے رکھوالوں کی منت سماجت کرتا رہا کہ اس کی بچی اغوا ہوگئی ہے اسے تلاش کیا جائے۔

انصاف کے رکھوالے اپنی ماورائی بصیرت کے سبب فوری طور پر یہ جان گئے کہ دس سالہ فرشتہ اغوا نہیں ہوئی بلکہ اچانک اپنے اندر جاگ گئے جنسی جذبات کی تسکین کے لئے کسی آشنا کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔ فرشتہ کا جاہل باپ لیکن انصاف کے پہنچے ہوئے رکھوالوں کی بصیرت پر یقین کرنے سے انکاری تھا۔ اس اٹل حقیقت سے انکار کی سزا ظاہر ہے اسے ملنی تھی سو مل کر رہی۔

پانچ دن بعد اسلام آباد کے ایک ویرانے میں کچھ لوگوں نے ایک بچی کی سوختہ لاش دیکھی تو چک شہزاد کے تھانے میں اطلاع دی۔ انصاف کے حصول کے لئے تھانیدار کی منتیں کرتے گل نبی نے وہ لاش کیسے دیکھی ہوگی یہ تصورکسی بھی صاحب اولاد کے رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے۔ اس ملک کا ہر وہ باسی جو کسی بچی کا باپ ہے اور اس حادثے کی اطلاع پا چکا ہے میرا اس سے صرف اتنا سوال ہے کہ کیا وہ اپنی معصوم بچی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر خود کو یقین دلا سکتا ہے کہ سکول، مدرسے یا کسی پارک میں جاتی ہوئی اس کی بچی زندہ سلامت واپس آجائے گی؟

دس سالہ فرشتہ کی متعفن لاش اسلام آباد کے ترامڑی چوک میں سرخ رنگ کے ایک بوسیدہ ٹینٹ کے سائے میں رکھی ہے۔ خوشبو میں بسا سہاگ کاجوڑا فرشتہ کے نصیب میں نہیں، بدلے میں سرخ ٹینٹ تلے رکھے اس کے متعفن لاشے پر بار بار خوشبودار سپرے کیا جارہا ہے۔ اس ہجوم میں کچھ تو وہ ہیں جو گل نبی کے درد میں شریک ہونے آئے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو تماشا دیکھ کر خاموشی سے واپس جا رہے ہیں۔ مصروف شاہراہ پر دوڑتی چمچماتی گاڑیوں کا راستہ رکا تو انصاف کا رکھوالا پولیس افسر کاندھے پر سنہرے پھول سجائے نمودار ہوا، رعونت بھری نگاہ اس مختصر ہجوم پر ڈالی اور گویا ہوا کہ لاش کے احترام کی وجہ سے وہ خاموش ہے ورنہ دو منٹ میں اس ہجوم کو اپنی طاقت کے بل بوتے پر منتشر کر سکتا ہے۔

بات چھپ نہ سکی اور سماجی ذرائع ابلاغ پر یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔ سنا ہے بچی کی پشتون شناخت کو سیاسی منافع کے لئے استعمال کرنے والے تاجروں نے ریاست کے خلاف جذبات ابھارنے کی کوشش بھی کی۔ ریاست مدینہ کے حکمرانوں کا ایک ساتھی خرم نواز اس حلقے سے قومی اسمبلی کا رکن ہے لیکن گل نبی کا ووٹ شاید اس کے لئے اہم نہیں۔ ووٹ کو عزت دینے کا مطالبہ کرنے والے اس راز سے اچھی طرح واقف ہیں کہ فرشتہ انہیں کبھی ووٹ نہیں دے گی۔

بے شک یہ خبر پورے ملک میں پھیل گئی لیکن متعلقہ ڈی ایس پی، اے ایس پی، ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی سمیت انصاف کے تمام رکھوالے ماہ صیام کی برکتیں سمیٹنے کے لئے عبادت میں مصروف ہیں۔ موت برحق ہے اور اسے کوئی نہیں روک سکتا، توپھر وہ اپنی عاقبت سنوارنے کی بجائے دس سالہ فرشتہ کا ماتم کرنے کیوں بیٹھ جائیں؟ دارالحکومت میں امن و امان اور شہریوں کے جان و مال کے محافظ کی تو پوچھئے ہی مت، کیا معلوم مظاہرین سے نمٹنے کے لئے چھترول کرنے پہنچ جائیں۔

ترامڑی چوک میں رکھی اس سوختہ لاش سے بمشکل پندرہ کلومیٹر دور ایک سفید عمارت اس ملک کے باسیوں کے جان ومال کی حفاظت کے ضامن منتخب نمائندوں کا ٹھکانہ ہے۔ لیکن فی الوقت انہیں فرشتہ کے نوچے گئے معصوم بدن سے کہیں زیادہ اہم معاملہ درپیش ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران مملکت خداداد کے مقدس جسم کو جن چوروں، ڈاکوؤں اورلٹیروں نے کھدیڑا ہے ان کی بیخ کنی ریاست کا فرض اولین ہے، باقی کام بعد کے ہیں۔

منگل بیس مئی کی رات آٹھ بجے کے لگ بھگ خبر ملی کی قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے معاملے کا نوٹس لیا۔ ٹی وی پر ان سے منسوب یہ بیان دیکھا کہ کل تمام فریقین کو بلایا ہے، فرشتہ کے والد کو بھی بلائیں گے۔ شکر ہے فرشتہ کے والد کو سرکار دربار میں اذن باریابی ملا۔ رات دس بجے کے قریب اطلاع ملی کہ مظاہرین اور ضلعی انتظامیہ کے مذاکرات اس شرط پر کامیا ب ہوئے ہیں کہ ایس ایچ او تھانہ چک شہزاد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے گا اور معاملے کی عدالتی تحقیقات کی جائیں گی۔ انکوائری افسر سات دن میں رپورٹ پیش کرے گا لیکن فرشتہ کے قاتلوں کو سزا کب ملے گی یہ کوئی نہیں جانتا۔ یہ مگر ہر کوئی جانتا ہے کہ انصاف کی ضمانت نئے پاکستان میں بھی نہیں ہے۔

پرانے پاکستان میں کسی بچی سے زیادتی ہوتی تھی تو حکمران دوڑے دوڑے اس بچی کے گھر پہنچتے، ٹی وی کیمروں کی روشنیوں میں اس بچی کے سر پر ہاتھ رکھتے اور چند لاکھ روپے کا چیک اس کے ہاتھ پر رکھتے، گویا کہتے ہوں لو، رکھ لو! چند گھڑیوں کی مشقت کا معاوضہ۔ اگلے دن اخباروں میں بھی رنگین تصویر کے ساتھ خبر چھپتی اور معاملہ گول۔ نئے پاکستان میں چند منٹ کی جنسی مشقت اٹھانے والیوں کو مگر یہ سہولت بھی میسر نہیں کیونکہ گزشتہ دس برس کے دوران چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروں نے ملکی خزانہ خالی کر دیا ہے اور سمندر سے تیل بھی نہیں ملا۔

ریاست مدینہ کے دعوے داروں پر طعن دراز کرنے والے ناموس رسالت ﷺ کے رکھوالے پیر افضل قادری، مولوی خادم رضوی، پیر سیالوی، جماعت اسلامی کے سراج الحق اورپاکستان کے غم میں ہلکان مولانا فضل الرحمان سمیت سب خاموش ہیں۔ حور و غلمان کے قصے سنانے والے میٹھے لہجے کے مولانا طارق جمیل کا احسان کہ انہوں نے قمر زمان کائرہ کے بیٹے کی افسوسناک موت پر ٹیلی فون پر ان سے تعزیت کی لیکن غریب فرشتہ کا باپ گل نبی یہ اعزاز بھی نہ پا سکا کہ علاقے کی تبلیغی مسجد کا نمائندہ ترامڑی چوک میں پہنچے اور اسے گلے سے لگا کہ ہمدردی کے دو بول ہی کہے۔

آج مملکت خداداد میں ریاست مدینہ کے قوانین لاگو کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن رکئے، حالات اس نہج پر جانے دیجئے کہ ریاست مدینہ قائم ہو۔ سنا ہے ریاست مدینہ کے قیام سے پہلے عرب کے بدو اپنی بچیوں کو پیدا ہوتے ہی زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ آج کے حالات بھی کچھ زیادہ فرق نہیں ہیں۔ آئیے! عہد کریں کہ آج کے بعد اس ملک میں پیدا ہونے والی ہر بچی کو زندہ دفن کر دیا جائے گا تاکہ بچیوں کے والدین اُس کرب سے محفوظ رہیں جو فرشتہ کے والدین نے جھیلا اور پھر ریاست مدینہ کے قیام کے لوازمات بھی پورے ہو سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).