ریاست مدینہ کا نعرہ اور ہمارا اخلاق


نوے کی دہائی کی کچھ یادیں ابھی تک ذہن میں محفوظ ہیں جب دو بڑی سیاسی پارٹیوں کے درمیان اختلافات اورایک دوسرے کے خلاف غیر مہذب زبان کا استعمال عروج پر تھے۔ بے نظیر کے وطن لوٹنے کے بعد 1988 میں اور پھر معروف آئی جے آئی بننے کے بعد 1990 کے انتخابات میں بے نظیر بھٹوکے خلاف جو پروپیگنڈہ کیا گیا اس سے تو ساری دنیا آگاہ ہے اور ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ اس کے منظر اور پس منظر میں کون تھا۔ میرے دل و دماغ پر ایک تقریر نقش ہے۔ اور وہ تقریر شاید نوے کی دہائی کے وسط کی ہے۔

ہم تب طالبعلم تھے اور اپنے ضلع کے مرکزی شہر اٹک میں امتحانات کے سلسلے میں گئے ہوئے تھے کہ پیپر دینے کے بعد دوستوں کے ساتھ نواز شریف کے جلسے میں پہنچ گئے۔ شیخ رشید اس وقت خطاب فرما رہے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ کہہ رہے تھے ”بے نظیر کو اسمبلی میں بیٹھنے کی جگہ نہیں ملتی، اپنی سیٹ مجھ سے دوررکھوا لی ہے، وغیرہ“ وہ اسی طرح کی دیگر ”عوامی دلچسپی“ کی باتیں بیان کرتے جارہے تھے اور لوگوں کا جوش و خروش دیدنی تھا۔

ایسا لگتا تھا کوئی اداکار یا مسخرہ سٹیج پر اپنے فن کے جوہر دکھا رہا ہے۔ لوگ خوشی سے پاگل ہو رہے تھے اورنعرے لگا رہے تھے۔ فرزند راولپنڈی کا نواز شریف کو قائد اعظم ثانی کہنا بھی ان گناہ گار کانوں نے پہلی مرتبہ وہیں سنا۔ انھی دنوں میں سوچتا تھا کہ بندہ راولپنڈی کا فرزند کیسے ہو سکتا ہے؟ کیونکہ وہ تو ایک شہر ہے اور شیخ صاحب ایک فرد؟ لیکن کسے خبر تھی کہ وہ آگے چل کرفرزند پاکستان بن جائیں گے۔

یہ جنگ ایک دہائی تک چلی اوردونوں پارٹیوں کو جب یہ بات اچھی طرح سمجھ آگئی کہ کوئی اور ہمیں استعمال کر کے اپنا الو سیدھا کر رہا ہے تو سیز فائر ہو گیا لیکن یار لوگ بے چین ہو گئے کہ اب مولا جٹ کی بڑھکیں کیسے سنیں گے۔ لیکن کسے خبر تھی کہ وقت نے اپنے دامن میں ایک ایساموتی چھپا رکھا ہے کہ جس نے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دینا ہے اورجس کی ”خوش گفتاری“ پر فرزند راولپنڈی نے صدقے واری جانا ہے۔

ایچی سن اور آکسفورڈ سے پڑھنے والا یہ نابغہ آخر قوم کا مقدر ہوا۔ مغرب کے نظام کی تعریفیں کرکر کے نہ تھکنے والاکبھی تو ایک جلسے میں ایک نوجوان سیاست دان کی تذلیل کررہا ہوتا ہے کہ جس کے نسب میں ایسا اعزاز ہے جو پاکستان کی جمہوریت کا ناز ہے۔ کبھی اس کے حواری اس نوجوان کے بارے میں شرم انگیز بیانات دیتے ہیں اور کبھی مریم اور بلاول کے ملنے پر اورکبھی ان کے ایک صوفے پر بیٹھنے پر باتیں بناتے ہیں۔ عمران خان اپنی طویل جدوجہد کا ذکر تو بہت کرتے ہیں لیکن اس خاندان کی جدوجہد بھول جاتے ہیں اور فرماتے ہیں بلاول کو یہ سب ایک پرچی پر ملا ہے۔ بھائی اس پرچی کو دیکھو، وہ پرچی خون میں تر ہے۔ ان نابغوں کو کون سمجھائے لہو کی لکیریں اتنی آسانی سے نہیں مٹتیں۔

ملکی سیاست میں نفرت انگیزی و اشتعال انگیزی اورسیاسی عصبیت کی انتہا ہو چکی ہے۔ شلواریں گیلی ہونے جیسی ہزاروں باتیں موصوف کے تہذیب یافتہ ہونے کا ثبوت ہیں۔ خان صاحب کواور ان کی تربیت کرنے والوں کو یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ اکثریت میں یہی کلچر مقبول ہے اورپی ٹی آئی نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایاہے۔ اس نے عوام کی غربت اورمحرومیوں کی اصل کو حل کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے ان کی نفسیاتی اور جذباتی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا کہ اس شہر میں یہی گنڈاسہ، دھمکی اور بدمعاشی کلچر چلتا ہے۔

آئے روز نوجوانوں میں جنم لینے والے انتہا پسند ی کے واقعات کیا ہمیں دکھائی نہیں دے رہا؟ کہیں طالب علم اپنے اساتذہ کا سر کچل رہے ہیں تو کہیں بچے ماؤں کوکلہاڑیوں سے قتل کر رہے ہیں۔ جو بات لکھتے ہوئے کلیجہ پھٹ رہا ہے، خدا جانے یہ بچے وہ کام کیسے کر لیتے ہیں، اور اس کی طرف ہمارے حکمرانوں کا دھیان کیوں نہیں جا رہا۔ یہ قوم تو پہلے ہی مذہبی، مسلکی، صوبائی، لسانی اور نجانے کیسے کیسے تعصبات اورتقسیم کا شکارہے۔ کئی دہائیوں سے درپیش انتہا پسندی اور دہشت گردی نے ہماری روحیں تک چھلنی کر دی ہیں۔ اس پرہمارے سیاسی کرداروں کا نئی تقسیم اور نفرت انگیزی واشتعال انگیزی کا سلسلہ ہمیں مزید اندھیروں میں دھکیلے جارہا ہے۔ اس تقسیم در تقسیم اورعدم برداشت نے ملک کو نفرتوں کا جنگل بنا کر رکھ دیا ہے۔

خان صاحب کے چاہنے والوں سمیت کئی لوگ انتہا پسندی کا شکوہ تو بہت کرتے ہیں لیکن وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایسے رویے خود ایک طرح کی انتہا پسندی کا مظہر ہیں بلکہ یہ ہر انتہا پسندی کی بنیاد ہیں۔ اب تو نفرت اور تضحیک کو سیاست کی بنیاد بنا دیا گیاہے اورلگتا ہے برائی کا یہ کلچر مزید فروغ پائے گا۔ کہاں گئیں وہ ایچی سن اور آکسفرڈ کی ڈگریاں؟ اور وہ مغربی معاشرے کی تعریفیں۔

قرض تو پچھلی حکومتیں بھی لیتی رہیں لیکن وہ رہنماقرض ملنے پر خوشی میں قوم سے خطاب نہیں کرتے تھے۔ وہ سمندر سے تیل نکلنے کی جھوٹی امیدیں نہیں دلاتے تھے، وہ نوکریوں کی برسات ہونے کا جھوٹ نہیں بولتے تھے۔ ان جماعتوں میں بھی بدزبان اور بدتہذیب لوگ موجودرہے ہیں لیکن وہ ریاست مدینہ کا نعرہ نہیں لگاتے۔ خدا معاف کرے، کہاں وہ ریاست مدینہ کہ جس کی بنیاد ہی سلامتی، شائستگی، بھائی چارے اور تحمل پر رکھی گئی تھی۔ اورکہاں یہ عامیانہ زبان۔ کیایہ سب ڈرامے بازی نہیں ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).