ممبئی کی جھونپڑ پٹی کے بچوں کو بہتر مستقبل کا خواب دکھانے والا مسیحا


صہیب اور ان کے شاگرد

صہیب اب ممبئی کی مالونی نامی بستی میں ایک کمیونٹی سینٹر چلاتے ہیں

’میرے حصے میں جو آیا وہ صرف اس لیے کہ میں کہیں اور پیدا ہوا، اور ان بچوں کے حصے میں وہ سب اس لیے نہیں آیا کیوں کہ یہ جھگیوں میں پیدا ہوئے ہیں۔ لیکن کیا اس وجہ سے ان کی زنگی کے تمام راستے بند ہو جانے چاہییں۔’

یہ سوال ہے صہیب بیگ کا جو آسائشوں بھری زندگی گزارنے کے لیے خود کو ایک مجرم جیسا محسوس کرتے ہیں۔

دنیا کی بڑی الیکٹریکل کمپنیوں میں سے ایک کے لیے آٹھ برس کام کرنے کے بعد انھوں نے سب کچھ چھوڑ کر ممبئی کا رخ کیا۔

اب وہ ممبئی کی مالونی نامی بستی میں ایک کمیونٹی سینٹر چلاتے ہیں۔ ’اڑان‘ نامی اس مرکز میں صہیب اور ان کے ساتھی بچوں کی سکول کی پڑھائی میں مدد کے علاوہ انھیں موسیقی، کراٹے، فٹبال اور مباحثوں کی تربیت دیتے ہیں۔

ان کی کوششوں کی نتیجے میں اب یہاں آنے والے بچے مختلف مقابلوں میں حصہ لے رہے ہیں۔ صہیب نے بتایا کہ 16 برس سے کم عمر کی لڑکیوں کی ٹیم ریاستی اور قومی مقابلوں میں بھی شرکت کر چکی ہے۔

بریلی سے تعلق رکھنے والے صہیب بیگ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان کے والد ایک ڈاکٹر ہیں اور صہیب کو بچپن میں کسی طرح کی معاشی تنگی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

صہیب

بریلی سے تعلق رکھنے والے صہیب بیگ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انجینیئرنگ کی تعلیم حاصل کی تھی

صہیب کا کہنا ہے کہ ‘جب میں یہاں پڑھانے آیا تو مجھے محسوس ہوا کہ میں جتنی بھی کوشش کر لوں لیکن جب تک میں یہاں انھی لوگوں کے درمیان زندگی نہیں گزاروں گا، ان کے اصل مسائل کیسے سمجھوں گا۔ اس لیے میں نے یہیں اسی علاقے میں رہنے کا فیصلہ کیا۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہاں ایک ایک کمرے کے مکانوں میں ٹائلٹس بھی نہیں ہیں تو بچوں کے لیے اپنے شوق پورے کرنے یا ہنر سیکھنے کے لیے جگہ کی امید کیسے کی جا سکتی ہے۔’

ان حالات سے متاثر ہو کر انھوں نے بچوں کے لیے ایک ایسی جگہ بنانے کا فیصلہ کیا جہاں آ کر بچے وہ سب کچھ کر سکیں جس کی انھیں حالات اجازت نہیں دیتے۔

ایک کمرے سے شروع ہونے والا یہ کمیونٹی سینٹر اب تین کمروں میں تبدیل ہو چکا ہے۔ یہاں آنے والے بچے صہیب کو بابو بھائی کہ کر جب پکارتے ہیں تو لگتا ہے انھیں ایسا شخص مل گیا ہے جو ان میں سے نہ ہو کر بھی ان کا اپنا ہے، انھیں سمجھتا ہے اور ان کی زندگی بانٹنے کو تیار ہے۔

صہیب نے کہا کہ ‘بےشک یہ ذمہ داری میری نہیں حکومت کی ہے کہ وہ ان بچوں کو وہی مواقع دے جو مجھے ملے لیکن اگر حکومت ان سے منہ پھیرے ہوئے ہے اور ہم بھی پھیر لیں گے تو ان کے سوالوں کے جواب کسی کو تو دینے ہوں گے۔‘

صہیب اور ان کے شاگرد

ایک کمرے سے شروع ہونے والا یہ کمیونٹی سینٹر اب تین کمروں میں تبدیل ہو چکا ہے

’آپ ان علاقوں سے آنکھ موند کر گزر جائیں تو مختلف بات ہے، لیکن اگر آپ کا ضمیر زندہ ہے تو آپ اس ضمیر کو کیا جواب دیں گے۔’

صہیب 34 برس کے ہیں اور ان سے اکثر پوچھا بھی جاتا ہے کہ وہ نوجوانی میں ایسا ایثار کیوں کر رہے ہیں۔ ان کے والدین سمیت تمام رشتہ دار ان کے مستقبل کے لیے فکر مند ہوتے ہیں۔

معاشی طور پر ان کا ہاتھ تنگ رہتا ہے، وہ ماضی کی طرح اپنے تمام شوق بےفکر ہو کر پورے نہیں کر سکتے لیکن صہیب کہتے ہیں کہ وہ اپنے ضمیر کے ہاتھوں مجبور ہیں۔

اس سوال پر کہ کیا انھیں کبھی اپنے اس فیصلے پر پچھتاوا ہوا، صہیب کا کہنا تھا کہ ‘میں نے اپنی زندگی میں اتنا سکون کبھی محسوس نہیں کیا۔ میں خود کو اس زندگی کے لیے ڈھال چکا ہوں۔‘

’ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں سونا اور گاڑیوں میں گھومنا محض عادت کی بات ہوتی ہے۔ میں جو کر رہا ہوں اس کے بعد اپنے ضمیر سے مجھے منہ نہیں پھیرنا پڑتا۔ اگر مجھے زندگی میں ایک بار پھر یہ فیصلہ کرنا پڑے تو میں دوبارہ یہی کروں گا۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32473 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp