آر ایس ایس کا شکریہ


’ہا آریٹس‘ اسرائیل کا سب سے پرانا اور معتبر اخبار ہے، عالمی مبصرین اس اخبار کو سنجیدگی سے دیکھتے ہیں اور اس میں شائع ہونے والی خبروں، کالموں اور مضامین کو اکثر بین الاقوامی میڈیا میں نمایاں جگہ ملتی ہے۔ گزشتہ دنوں اس اخبار میں ایک مضمون شائع ہوا جسے پڑھ کر میں خاصا حیران ہوا۔ اس مضمون میں بتایا گیا تھا کہ بھارت میں قوم پرست ہندوؤں نے مسلمان اداکاروں کے خلاف جنگ چھیڑ رکھی ہے۔ اس معاملے کا مجھے پہلے سے کچھ اندازہ تھا اس لیے حیرانی نہیں ہوئی البتہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بھارت کے خلاف یہ مضمون اسرائیلی اخبار میں شائع ہوا ہے۔ آپ اسے میری کم علمی پر محمول کر سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ذہنوں یہ تاثر ہے کہ اسرائیل کے اخبار میں بھارت کے خلاف کچھ نہیں چھپ سکتا۔ خیر، یہ ایک علیحدہ موضوع ہے، اصل مدعا پر واپس آتے ہیں۔

مضمون نگار لکھتا ہے کہ عامر خان کی نئی فلم ’لال سنگھ چڈھا‘ ٹام ہینکس کی ’فارسٹ گمپ‘ سے متاثر ہو کر بنائی گئی، عامر خان نے پہلے تو اس فلم میں کام کرنے میں ہچکچاہٹ کا اظہار کیا مگر بعد میں سکرپٹ پڑھ کر ہامی بھر لی، اس کے بعد فارسٹ گمپ کے پروڈیوسر سے اجازت لی گئی، یہ عمل خاصا طویل تھا، اجازت ملنے کے بعد فلم کی عکس بندی شروع ہوئی، انڈیا کے دو سو مقامات پر اس کی شوٹنگ ہوئی، اس پورے کام میں دس برس لگے اور فلم پرکل بائیس ملین ڈالر لاگت آئی، یوں یہ فلم انڈیا کی پندرہ سب سے مہنگی فلموں میں سے ایک بن گئی۔

یہ فلم 11 اگست کو ریلیز ہوئی مگر اس سے پہلے ہی انڈیا کے قوم پرست ہندوؤں نے اس کا بائیکاٹ کر دیا اور جب فلم سنیما ہالز میں لگی تو احتجاج کرنے والے بھونپو لے کر وہاں پہنچ گئے اور فلم بینوں کو ہال میں جانے سے منع کیا کیونکہ ان کے خیال میں عامر خان ایک بھارت مخالف اداکار ہے، دوسرے لفظوں میں ’بولے تو‘ مسلمان ہے جسے پاکستان چلے جانا چاہیے۔ اس بائیکاٹ کا نتیجہ یہ نکلا کہ لال سنگھ چڈھا انڈیا میں بمشکل چھ ملین ڈالر اور دیگر ممالک سے ساڑھے سات ملین ڈالر اکٹھے کر سکی اور یوں یہ فلم بری طرح ناکام ہو گئی۔

عامر خان کی فلم کا یہ حشر ہونا معمولی واقعہ نہیں، نیوز ویک اور فوربز میگزین عامر خان کو دنیا کا سب سے بڑا فلمی اداکار قرار دے چکے ہیں، اس کی فلمیں سو سے ڈیڑھ سو ملین ڈالر آسانی سے کما لیتی ہیں، دنگل نے تو تین سو ڈالر سے بھی اوپر کمائے تھے۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ دوسری طرف ’کشمیر فائلز‘ جیسی پروپیگنڈا فلم ہے جس نے بیالیس ملین ڈالر کمائے کیونکہ اس فلم کی کہانی 1990 میں کشمیر سے ہندوؤں کی ہجرت کے گرد گھومتی ہے اور یوں بھارت کے ریاستی بیانیے سے ہم آہنگ ہے، اسی لیے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ اجیت شاہ نے لوگوں کو یہ فلم دیکھنے کے لیے کہا اور انڈیا کی سات ریاستوں میں سرکار نے اس کا ٹیکس بھی معاف کر دیا۔

مضمون نگار مزید لکھتا ہے کہ قوم پرست ہندوؤں کی مخالفت اور بائیکاٹ سے شاہ رخ خان اور سلمان خان کی فلمیں بھی بہت متاثر ہوئی ہیں، شاہ رخ کی آنے والی فلم ’پٹھان‘ کا ابھی سے بائیکاٹ شروع ہو گیا ہے، یو ٹیوب پر اس کے خلاف ویڈیوز اپ لوڈ کی جا رہی ہیں جہاں لاکھوں لوگ شاہ رخ، سلمان اور عامر کو گالیاں دے رہے ہیں اور ان کی فلموں کا بائیکاٹ کرنے کی مہم چلا رہے ہیں۔ یہ تینوں خان جو بالی وڈ پر راج کرتے تھے، اب بی جے پی سرکار میں انتہا پسند ہندوؤں کی نفرت کا شکار ہیں اور ان کا مستقبل خطرے میں ہے۔

جب بی جے پی کی سرکار آئی تو دیگر فلمی ستاروں کے ہمراہ عامر خان اور شاہ رخ خان بھی نریندر مودی سے ملے، ان کے ساتھ سیلفیاں لیں، ان کی مدح سرائی کی اور عندیہ دیا کہ ’انہیں منزل نہیں رہنما چاہیے‘ اور مودی کی صورت میں انہیں وہ رہنما مل گیا ہے۔ عامر خان ویسے تو پیدایشی مسلمان ہیں مگر ذاتی معاملات میں بالکل سیکولر ہیں، انہوں نے کرن راؤ سے شادی کی جو ایک پیدایشی ہندو خاتون تھیں، بعد میں ان دونوں کی طلاق ہو گئی۔ پیدایشی مسلمان یا ہندو لکھنا اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں علم نہیں کہ اب وہ کس قسم کے مذہبی رجحانات رکھتے ہیں، شاعر اور لکھاری جاوید اختر کے برعکس عامر خان نے خود کو علانیہ ’ملحد‘ نہیں کہا جبکہ جاوید اختر اپنے ملحد ہونے کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔ اسی طرح عامر خان کی بیٹی آرا خان نے بھی پچھلے دنوں ایک ہندو نوجوان نوپور شکارے سے منگنی کی، نوپور بھی ہندو گھرانے میں پیدا ہوا، وہ عامر خان اور سشمتا سین کا ذاتی فٹنس ٹرینر (فارسی میں بولے تو ’مربی تناسب اندام‘ ) ہے۔ شاہ رخ خان کی بیوی گوری خان بھی ہندو ہے، شاہ رخ خان خود کو مسلمان کہتے ہیں، ان کے بچے البتہ دونوں مذاہب کو مانتے ہیں، شاہ رخ خان کی زندگی پر جو فلم بنی اس میں دکھایا گیا کہ ان کے گھر میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں ہیں جن کے آگے بچے ماتھا ٹیکتے ہیں۔

سلمان خان کے بارے میں زیادہ تحقیق نہیں کی لیکن ان کا حال بھی مختلف نہیں، اپنے طرز زندگی سے وہ کبھی بھی عملی مسلمان نہیں لگے۔ ان تمام باتوں کے باوجود ’مرے کچھ کام نہ آیا یہ کمال نے نوازی‘ والی بات بالی وڈ کے تینوں خانز پر صادق آتی ہے۔ اس کے برعکس ہمارے پاس ایک مثال دلیپ کمار کی ہے۔ دلیپ صاحب کبھی شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار نہیں بنے اور نہ ہی انہوں نے اپنی مسلمانیت پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، اپنے عقیدے کے ضمن میں انہوں نے کبھی معذرت خواہانہ طرز عمل اختیار نہیں کیا اور نہ ہی اپنے ہم عصر ہندو اداکاروں سے زیادہ محب وطن انڈین بننے کی کوشش کی۔ وہ ڈنکے کی چوٹ پر پاکستان آتے تھے اور پاکستان سے اپنی جذباتی وابستگی کا بھی اظہار کرتے تھے۔ ہاں، اس وقت بی جے پی کی حکومت نہیں تھی اور نہ ہی مسلمانوں کے خلاف نفرت اپنے عروج پر تھی مگر بہرحال بمبئی میں بال ٹھاکرے کا راج تو تھا۔ جبکہ دوسری طرف ہمارے یہ کنگ خان ہیں جو نہ صرف اپنی مسلمانیت کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اپنی حب الوطنی کا ثبوت بھی بڑھ چڑھ کر دیتے ہیں لیکن بہرحال آخری تجزیے میں وہ مسلمان ہیں اور یہ بات انہیں، آر ایس ایس کے انتہا پسند ہندؤں کی نظر میں، قابل نفرت بنانے کے لیے کافی ہے۔

بٹوارے کے وقت جب فسادات اپنے عروج پر تھے تو منٹو نے بھی بمبئی سے لاہور آنے کا فیصلہ کیا، اس کے ہندو دوست نے شراب کی بوتل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تمہیں کیا فکر ہے، سالے ویسے بھی تم کون سے مسلمان ہو؟‘ اس پر منٹو نے تاریخٰ جملہ کہا کہ ’اتنا مسلمان ضرور ہوں کہ کسی ہندو کے ہاتھوں مارا جا سکوں۔ ‘ شاہ رخ، عامر اور سلمان خان چاہے ہندو عورتوں سے شادی کریں، اپنے گھروں میں مورتیاں سجائیں یا بھارت ماتا کی جے ہو کے نعرے لگائیں، وہ بہرحال اتنے مسلمان ضرور رہیں گے کہ کسی قوم پرست ہندو کی نفرت کا نشانہ بن سکیں۔ ہم یہاں پاکستان میں بیٹھ کر بٹوارے کے حق میں اتنا مضبوط مقدمہ نہیں بنا سکتے جتنا مضبوط مقدمہ آر ایس ایس کے غنڈے پاکستان کے حق میں بنا دیتے ہیں۔ ہمیں آر ایس ایس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔

کالم کی دم: اس کالم سے اگر کسی ہندو کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں، مقصد ہندو مذہب پر تنقید کرنا نہیں بلکہ بے جے پی کی انتہا پسند پالیسیوں کو بے نقاب کرنا ہے۔ اسی طرح یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ میں ان تینوں اداکاروں کا مداح ہوں، ان کی ذاتی زندگی پر مجھے اعتراض کا کوئی حق نہیں، یہ ان کا اور ان کے رب کا معاملہ ہے، بے شک وہ دلوں کے حال ہم سب سے بہتر جانتا ہے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments