’’غم نہ کر، زندگی پڑی ہے ابھی‘‘


فقط ٹی وی سکرینوں کے ذریعے ملکی سیاست کو سمجھنا چاہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اتوار کے روز بلاول بھٹو زرداری کے دئیے افطار ڈنر نے حکومت کو ہرگز پریشان نہیں کیا۔اینکر خواتین وحضرات ان کلپوں کو دکھاتے ہوئے چسکہ لے رہے ہیں جن میں آصف علی زرداری نواز شریف کو ’’قومی ناسور‘‘ پکاررہے تھے۔ محترمہ مریم نواز’’زرداری-عمران بھائی بھائی‘‘کے نعرے لگوارہی تھیں۔

ان کے شوز میں پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) کی جانب سے آئے مہمان ان کلپس کے جواب میں یاد دلارہے ہیں کہ چودھری پرویز الٰہی کو بھی ایک زمانے میں ’’پنجاب کا سب سے بڑا ڈاکو‘‘ ٹھہرایا گیا تھا۔راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراطِ عصر کو عمران خان صاحب اپنا ’’چپڑاسی‘‘ رکھنے کو بھی آمادہ نہیں تھے۔’’اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں‘‘وغیرہ وغیرہ۔

اتوار کے روز ہوئے افطار ڈنر کی بدولت حکومتی ترجمانوں کو کئی بار دہرائی وہ کہانی نئی توانائی کے ساتھ بیچنے میں آسانی ہورہی ہے کہ’’باریاں لینے والے‘‘ سیاست دانوں نے غیر ملکی قرضوں کے ذریعے پاکستان کے عام لوگوں کی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کی بجائے ذاتی کاروبار بڑھانے پر توجہ دی۔میگا پراجیکٹس کے ٹھیکے داروں سے بھاری بھرکم کمیشن لئے۔ ’’رشوت‘‘ سے کمائی رقوم کو جعلی بینک اکائونٹس کے ذریعے غیر ملکوں میں منتقل کرکے وہاں بھاری جائیدادیں خریدیں۔

’’باریاں لینے والوں‘‘ کی وجہ سے عمران حکومت کو قومی خزانہ خالی ملا۔وہ غیر ملکی قرضوں کی اقساط ادا کرنے کے لئے مزید قرض لینے کو مجبور ہوئی۔ دوست ممالک کی مہربانیوں سے مشکلات آسان نہ ہوئیں تو بالآخر IMFسے رجوع کرنا پڑا۔آئی ایم ایف کے پاس کسی بھی ملک کی معیشت کو تباہ حالی سے بچانے کے لئے لگے بندھے نسخے ہوتے ہیں۔ان نسخوں کا اطلاق ہو تو بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا ضروری ہوجاتا ہے۔بازار میں کسادبازاری کئی برسوں کے لئے نازل ہوجاتی ہے۔

عمران حکومت موجودہ کساد بازاری کی ذمہ دار نہیں۔اس نے جرأت وبہادری سے مگر سخت اور نامقبول نسخے کا اعلان تسلیم کرلیا۔ یہ حکومت پانچ سال کے لئے منتخب ہوئی ہے۔ IMFکا پروگرام 39مہینوں کا ہے۔اس کے بعد بازار میں رونق لگ جائے گی۔ ’’غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی‘‘۔اتوار کے روز ہوئے افطار ڈنر کی وجہ سے ٹی وی سکرینوں پر رچائے تماشوں نے لوگوں کی توجہ اس حقیقت پر غور کرنے سے ہٹادی کہ پیر کے دن بھی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مزید گری ہے۔

اس سے بھی اہم ترین بات سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافہ تھا۔میرے اور آپ جیسے تنخواہ دار اور چھوٹے کاروبار کے ذریعے زندگی گزارنے والے بدنصیب ان اصطلاحات (Terms) کو ہرگز نہیں سمجھتے جو معاشی حقائق سمجھانے کے لئے ’’ماہرین‘‘ کی جانب سے استعمال ہوتی ہیں۔ مجھے سو فیصد یقین ہے کہ میری طرح یہ کالم پڑھنے والوں کی اکثریت کو بھی ہرگز سمجھ نہیں آئے گی کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے پیر کے روز بڑھائی شرح سود ہماری روزمرہّ زندگی کی اذیتوں میں کیسے یقینی طورپر اضافہ کر ے گی۔

بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہم سب فوری طورپر نوٹس کرلیتے ہیں۔شرح سود میں اضافے کا اثرہم میں سے فوری طورپر ان لوگوں پر ہوگا جنہوں نے بینکوں سے قرض لے کر مکان بنایا یا ذرا بہتر کارخریدلی۔ ان کی مشکلات سامنے آئیں گی تو ہم میں سے اکثر یہ سوچ کر ربّ کا شکرادا کرنے کو مجبور ہوجائیں گے کہ اپنا مکان تعمیر کرنے کے لئے ہم نے اپنے اکائونٹس میں میسر رقوم کو خرچ کیا۔ اس سے بھی کام نہ چلا تو گھر کے زیور بیچ دئیے۔ کسی قریبی عزیز سے قرضہ لیا۔

مسئلہ مگر اتنا سادہ نہیں ہے۔ مجھے اور آپ کو سرکار کے بجائے کسی اور سے ملازمت صرف اسی صورت مل سکتی ہے اگر کاروباری حضرات اپنے دھندے کو وسعت دیں یا نئے کاروبار متعارف کروائیں۔ سرمایہ کار مگر نئی صنعتیں لگانے یا اپنا کاروبار پھیلانے کے لئے اپنی جیب سے رقوم خرچ کرنے کے عادی نہیں ہوتے۔ دُنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی طرح وہ اس ضمن میں بینکوں سے قرض لیتے ہیں۔بینک شرح سود بڑھادیں تو کاروباری حضرات اپنے دھندے کو وسعت دینے سے گھبراتے ہیں۔ فقط ’’موجود‘‘ پر تکیہ کرتے ہوئے ’’اچھے دنوں‘‘ کا انتظار کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔

پیر کے روز شرح سود میں ہوئے اضافے کے بعد آنے والے کئی مہینوں تک نئی سرمایہ کاری ہوتی نظر نہیں آئے گی۔یہ سرمایہ کاری نہ ہوئی تو بے روزگاری میں اضافہ ہوگا۔ اس کی وجہ سے حال ہی میں بالغ ہوئے نوجوانوں میں مایوسی پھیلے گی۔ چوری چکاری کی واراتوں میں اضافہ ہوگا۔ سٹریٹ کرائمز کی شدت تقریباََ روزمرہّ کا معمول ہوجائے گی۔حکومت ایسے حالات میں ’’ترقیاتی کاموں‘‘ کے ذریعے روزگار فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے لئے بھی مگر رقم درکار ہے۔ یہ رقم ٹیکس کے ذریعے جمع ہوئی رقوم میں سے نکالنے کی گنجائش نہ ہوتو وہ بینکوں سے قرض لیتی ہے۔

پیر کے روز ہوئے اضافے کے بعد وہ بینکوں سے ’’نئے ترقیاتی منصوبوں‘‘ کے لئے قرض حاصل کرنے سے قبل سو بار سوچے گی۔نئے نوٹ چھاپنا بھی ممکن نہیں رہا کیونکہ IMFنے اس کی پیش بندی کے لئے سٹیٹ بینک میں ڈاکٹر رضاباقر کو تعینات کروادیا ہے۔ وہ ’’خودمختار‘‘ رہیں گے۔انہیں اس بات سے غرض نہیں ہوگی کہ نام نہاد Monetary Disciplineکی وجہ سے عوامی مشکلات میں ہوئے اضافے کی ’’سیاسی‘‘ قیمت عمران حکومت کو ادا کرنا ہوگی جس نے ایک کروڑ نئی نوکریاں مہیا کرنے کا وعدہ کررکھا ہے۔

غریب اور متوسط طبقے کے لئے پچاس لاکھ نئے گھر بنانا ہے۔آج سے تقریباََ تین ماہ قبل سٹیٹ بینک کے سابق گورنر طارق باجوہ نے معیشت کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی ۔اس رپورٹ نے متنبہ کرنا چاہا کہ افراطِ زر میں گرانقدر اضافہ ہورہا ہے۔ عمران حکومت کے چند وزراء اس رپورٹ سے بہت ناراض ہوئے۔وزیر اعظم کو جانفشانی سے قائل کردیا کہ ’’اسحاق ڈارکے لگائے ‘‘گورنر نے عمران حکومت کو ’’بدنام‘‘ کرنے کے لئے ایسی رپورٹ تیار کی جو منڈی میں موجود حقائق کے برخلاف ہے۔

’’اسحاق ڈار کے لگائے‘‘ گورنر کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا گیا۔ان کی جگہ ’’اس حکومت کے لگائے‘‘ گورنر نے لیکن پیر کے روز جو رپورٹ جاری کی ہے وہ اس حقیقت کو واضح الفاظ میں دہرارہی ہے کہ 2018 سے افراطِ زر میں گراںقدر اضافہ ہوا ہے۔ آئندہ برس کے لئے بھی Considerable اضافے کا ذکر ہے۔ اسے ٹھوس اعدادوشمار کے ذریعے ’’ناقابلِ برداشت‘‘ نہیں بتایا گیا۔

مجھے اور آپ کو مگر Considerable کا ترجمہ ’’ناقابل برداشت‘‘ ہی کرنا ہوگا۔ یہ ترکیب استعمال کرنے کے ’’جرم‘‘ میں لیکن ڈاکٹررضاباقر سے استعفیٰ طلب نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں ہٹایاگیا تو IMF سے ایک سینٹ بھی نہیں ملے گا۔آئندہ 39 مہینوں تک ڈاکٹر رضاباقر کو ہر صورت برداشت کرنا ہوگا۔ سوال اٹھتا ہے کہ خلقِ خدا کی اکثریت ایسا صبردکھاپائے گی یا نہیں۔ بظاہر مشکل نظر آرہا ہے۔ اتوار کے افطار ڈنر کے بارے میں حکومتی ترجمانوں کی اپنے مخالفین کا تمسخراُڑاتی خوشی لہذا عارضی ہے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).