پاکستان: جمہوریت کرپشن اور خاندانی سیاست سے گلے ملتی ہے


جمہوریت کے ابھی پر نہیں نکلے تھے۔ پانچ برسوں میں ایک مرتبہ ہی ووٹ ڈالیں جائیں یا ہر بڑے حکومتی فیصلے سے قبل عوامی ریفرنڈم کا انعقاد کروایا جائے کی بحث جاری تھی۔ سن انیس سو بتیس میں صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی ’دا نیو ڈیل تھیوری‘ کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن ان کے مقابلے میں اس وقت کے سرمایہ دارانہ نظام اور کیپٹیلزم کے نمائندے ایڈورڈ برنیز نے کہا تھا کہ آپ جمہوریت کو کیپٹلزم سے الگ نہیں کر سکتے۔ ان کی شادی ضروری ہے ورنہ جمہوریت ناکام ہو جائے گی۔ وہ کہتے تھے ترقی کے پیچھے حکومتوں کا نہیں بلکہ کاروباری اداروں کا ہاتھ ہوتا ہے۔

جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کو ایک ساتھ نتھی کرنے کا ایک منفی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کی دولت سمٹ کر چند ملٹی نیشنل کمپنیوں، چند خاندانوں اور ایک مخصوص طبقے کے ہاتھ میں آتی جا رہی ہے۔ سن دو ہزار آٹھ کا معاشی بحران اسی ضمن میں پہلا جھٹکا تھا۔ یہ جوڑ کب تک چل پاتا ہے، مزید دس برس، بیس برس یا پچاس برس یا کئی صدیاں فی الحال کچھ کہنا مشکل ہے۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کو فوج کے علاوہ بھی ایک شدید بحران کا سامنا ہے۔ یہاں جمہوریت کیپٹلزم کے علاوہ کرپشن اور خاندانی سیاست سے بھی گلے مل چکی ہے۔ یہ مرکب جمہوریت کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ہے۔

پاکستان کا زیادہ تر پڑھا لکھا طبقہ، لکھاری، صحافی یا عوام یہ جان ہی نہیں پا رہے کہ جمہوریت کے نام پر کرپشن اور خاندانی سیاست کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ ان دونوں عوامل کا جمہوریت سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ پاکستان میں دیکھا جائے تو جمہوریت صرف چند خاندانوں کی لونڈی بن کر رہ گئی ہے اور یہ خاندان کرپشن کے الزامات کی دلدل میں گردن تک پھنسے ہوئے ہیں۔ محترم زرداری صاحب فرماتے ہیں کہ اگر کسی ریڑھی والے کے بنک اکاؤنٹس سے کروڑوں روپے نکلے ہیں تو میرا تعلق ثابت کر کے دکھائیں، میں قانونی پیچیدگیوں سے واقف ہوں۔ پیپلزپارٹی ان اکاؤنٹس سے اپنے تعلق سے انکاری نہیں ہے بلکہ یہ کہتی ہے کہ ثابت کر کے دکھائیں۔ اب یہی آصف علی زرداری ہیں جو پاکستان میں جمہوریت کی علامت بھی ہیں اور ان کے رفقاء، ایم پی ایز اور ایم این ایز تک بدعنوان بھی ہیں۔

دوسری طرف پنجاب میں اس وقت جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار خاندان شریف خاندان ہے۔ ان کی آف شور کمپنیاں ہیں۔ ان پر بھی کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ ان کے جماعت کے ایم پی ایز اور ایم این ایز بھی بری طرح کرپشن، سفارشی کلچر اور ٹھیکوں میں حصہ لینے میں ملوث ہیں۔

پاکستان کے بڑے سیاسی خاندانوں میں آ کر کرپشن اور جمہوریت اس قدر ایک دوسرے سے مل گئے ہیں کہ اگر زرداری صاحب یا مسلم لیگ نون کے حق میں لکھا جائے تو تاثر یہ جاتا ہے کہ آپ بے نامی اکاؤنٹس، آف شور کمپنیوں اور منی لانڈرنگ کی حمایت کر رہے ہیں اور اگر ان کی کرپشن کے خلاف لکھا جائے تو تاثر یہ جاتا ہے کہ آپ جمہوریت کے خلاف لکھ رہے ہیں۔

محترم مونس الہی کی بھی آف شور کمپنیاں نکلی تھیں لیکن وہ خاندان عمران خان کے ساتھ حکومت میں ہے۔ وہ خاندان اسٹیبلشمنٹ کے قریب سمجھا جاتا ہے اور شاید اسی وجہ سے وہ ابھی تک نیب کی دلدل سے محفوظ ہیں۔ فردوس عاشق اعوان صاحبہ کو حکومتی ترجمان کا عہدہ ملتے ہی ان کے خلاف تمام کیس اور انکوائریاں بند ہو گئی ہیں۔ اگر یہی فردوس عاشق پیپلز پارٹی یا نون لیگ میں ہوتیں تو ان کے خلاف مقدمات جاری بھی رہتے اور اس کارروائی کو شاید جمہوریت پر حملہ بھی قرار دیا جاتا۔ لیکن اب یہی فردوس عاشق حکومت میں ہیں تو انہیں سب کچھ کرنے کی اجازت ہے، سفارشیں کرنے کی اجازت ہے، اپنے من پسند لوگ بھرتی کروانے کی اجازت ہے، ٹھیکے اپنے دوستوں کو دلوانے کی اجازت ہے وغیرہ وغیرہ۔ میری رائے میں عمران خان کی تبدیلی اُسی دن دم توڑ گئی تھی، جس دن انہیں گجرات کی لاٹھیوں کے سہارے کی ضرورت پڑی تھی۔

ہمارے بڑے سیاسی خاندان جمہوریت پسند تو اس قدر ہیں کہ ان کی اپنی سیاسی جماعتوں میں عشروں سے خاندان سے باہر کوئی لیڈر نہیں آ سکا۔ کبھی کبھار میں سوچتا ہوں کہ ان خاندانی جاگیرداروں کی جمہوریت میں کتنے ایسے ایم پی ایز ہیں، جو پروفیسر ہیں؟ جو مڈل کلاس یا پھر غریب طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، یا جن کی زمینیں مربعوں یا ایکڑوں میں نہیں ہیں؟

پاکستان میں جمہوریت کو چند خاندانوں، کرپٹ جاگیروں اور بدعنوان وڈیروں کے چنگل سے چھڑانے کی ضرورت ہے ورنہ یہ اپنی موت آپ مر جائے گی اور کافی حد تک مر بھی چکی ہے۔ اب ان خاندانوں سے میں سے جب بھی کوئی جمہوریت کی بات کرتا ہے تو مجھے ہنسی ضرور آتی ہے۔ پہلا خیال یہ آتا ہے کہ انہوں نے شاید اپنے اقتدار اور اپنے مفادات کا نام جمہوریت سمجھا ہے۔ انہیں ہمیشہ اسی وقت جمہوریت، قاعدے، قوانین، عوام کی حکمرانی اور ووٹ کو عزت دو کے نعرے یاد آتے ہیں، جب جیل سامنے دکھائی دے رہی ہوتی ہے۔ انہیں پتا نہیں کب سمجھ آئے گا کہ ووٹ کو عزت دینے کا ایک مطلب یہ بھی تھا کہ آپ کرپشن کے خلاف جنگ کرتے، آپ اپنے ایم پی ایز کو من مانیاں اور کرپشن کرنے سے روکتے، انہیں ٹھیکوں میں حصہ لینے سے منع کرتے، ایک مثالی طرز حکومت قائم کرتے لیکن اس وقت آپ کے ذہن میں ووٹ کو عزت دینے کا خیال نہیں آیا۔ عوام کے حالات بد سے بدتر ہی ہوئے لیکن اسمبلی تک پہنچنے والوں کی جائیدادوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ کیا یہ ووٹ کو عزت دی تھی آپ نے؟

پاکستان جس حالیہ ’جمہوری تجربے‘ سے گزر رہا ہے، وہ فی الحال بری طرح ناکام ہوتا نظر آ رہا ہے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت ختم ہوتی ہے تو پھر کیا ہو گا؟ جواب بہت آسان ہے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے پنچھی تحریک انصاف چھوڑ کر واپس اپنی جماعتوں میں آ جائیں گے اور دوبارہ مسلم لیگ یا پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آ جائے گی۔ یہ دونوں جماعتیں پاکستان کی سیاسی حقیقتیں ہیں اور ان کو پاکستان کے سیاسی میدان سے نکالنا ناممکن ہے۔

اگر یہ جماعتیں جمہوریت کو بچانا چاہتی ہیں، اسے طاقتور بنانا چاہتی ہیں تو انہیں اپنے اندر تبدیلی لانا ہو گی۔ ان دو بڑی جماعتوں کو اپنے اندر کرپشن کے خلاف جنگ کرنا ہو گی، ان دونوں سیاسی پارٹیوں کو خاندانی سیاست سے باہر نکلنا ہو گا ورنہ جمہوریت اسی طرح کمزور ہی رہے گی۔ اس ملک میں جمہوریت کرپشن اور خاندانی سیاست سے گلے مل ہی چکی ہے اور اس سے جمہوریت کبھی بھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).