فاروق ستار اور ایم کیو ایم کا مستقبل


\"farnood\"

معاملے کو اپنی بنیاد میں درست کرلیں تو گفتگو ممکن ہے ورنہ دھول تو اڑ ہی رہی ہے، سو اڑتی رہے گی۔ کیا یہ کل کا معرکہ رینجرز اور ایم کیو ایم کے بیچ تھا ؟ نہیں، یہ معرکہ دو رابطہ کمیٹیوں کے بیچ تھا۔ اس پورے معرکے میں کراچی رابطہ کمیٹی فاروق ستار کی سر کردگی میں ایک درست مقام پر کھڑی تھی۔ لندن قیادت اسمبلیوں سے مستعفی ہونے پہ بضد رہی اور کراچی قیادت سیاسی داؤ پیج پہ مصر۔ پرویز رشید صاحب کو سرگرم ہونے پی مجبور کیا جا چکا تھا، وزیر اعظم سے ملاقات بھی طے تھی مگر لندن قیادت نے کسی ضدی بچے کی طرح بساط الٹ دی۔ معرکہ ایک تلخ ترین انجام کو پہنچنے کے بعد کراچی رابطہ کمیٹی پابند سلاسل ہے اور لندن رابطہ کمیٹی خاموش۔ فون کی اگلی گھنٹی اب بجتی بھی ہے کہ نہیں، جوبھی ہو یہ جنگ لندن رابطہ کمیٹی ہارچکی۔

ہمیں اس پاکستان میں قطعاً کوئی دلچسپی نہیں جس کے خدوخال غیر جمہوری عناصر نے تراش رکھے ہیں، مگر اس پاکستان میں گہری دلچسپی ہے جسے رات الطاف حسین نے گالی دی ہے۔ منظرنامہ تشکیل پانے کے لیے ایسے ہاتھوں میں جا چکا ہے جہاں دانشمندی کی کم ہی کوئی توقع کی جاسکتی ہے۔ جیل کا پھاٹک گرایا جا چکا ہے، سرگوشیاں جاری ہیں۔ رات کے آخری پہر کیا ہوا، کوئی نہیں جانتا، مگر کچھ ہونے کو ہے یہ تو سبھی جان چکے ہیں۔ بٹوارے کے امکان بڑھ گئے ہیں تو ورثا بھی بڑھے چلے آئے ہیں۔ یہی دن دیکھنے کی آس میں آفاق احمد نے تئیس برس سے پہلو نہیں بدلا۔ مصطفی کمال اورانیس قائم خانی ایسے ہی کس وقت کی آرزو میں رزق حلال پہ لات مار کے کے کراچی پہنچے تھے۔ یہاں رضا ہارون اور صغیراحمد بھی تو آخر کسی عظیم مقصد کی خاطر سب کچھ تیاگ کر پناہ گزینوں کی بستی میں پہنچے ہیں۔ پیغمبراسلام کی حرمت کی خاطر روٹھے ہوئے عامر لیاقت حسین بھی بہار کی امید میں راتوں رات شجر سے پیوستہ ہوگئے۔ گزشتہ رات جہاں عامر لیاقت حسین کو میک اپ آرٹسٹ کے بغیر مہمان کیا گیا وہیں فاروق ستار بھی موجود ہیں۔

\"farooq-sattar-rangers\"

ان سارے چہروں میں قابل اعتبار پختہ سیاسی چہرہ فاروق ستار ہی کا ہے۔ رات جب انہیں کراچی پریس کلب کے دروازے سے گرفتار کیا گیا تو یار لوگوں کے تبصروں سے لاعلمی کا ایک اظہار سا جھلک پڑا۔ کم ہی لوگ جانتے ہوں گے کہ نوے کے اوائل میں جب ضمیر جگاؤ مہم شروع ہوئی تو پہلا حملہ اٹھائیس برس کے فاروق ستار پر ہی ہوا تھا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ ستاسی سے لیکر انیس سو بیانوے تک وہ کراچی کے ناظم رہ کر مصطفی کمال کی طرح پورے منظر میں آچکے تھے۔ اس عرصے میں بڑے بڑوں کے ضمیر جاگ اٹھے تھے، مگر فاروق ستار کا ضمیر پورے اطمینان سے سویا رہا۔ نوے کی دہائی میں ایم کیو ایم کے خلاف دو بڑے فوجی آپریشن ہوئے۔ دونوں مواقع پرایم کیوایم کی نصف قیادت جیل پہنچا دی گئی اور نصف پاکستان چھوڑ گئی۔ نوے کی اس پوری دہائی میں جو ایک جماعت کے لیے قیامت کی دہائی تھی، فاروق ستار کراچی میں بیٹھ کرآپریشن بھگتتے رہے۔

فلم کے ایسے کئی فیتے آپ کو مل جائیں گے جن پر فاروق ستار کی گرفتاری کے مناظر محفوظ ہیں۔ ایک منظر وہ ہے جس میں پی آئی ڈی سی کے عقبی علاقے میں بے لباس فاروق ستار کو منہ اندھیرے سڑک پر گھسیٹ کر کسی بوسیدہ گھٹڑی کی طرح فوجی ٹرک میں پھینکا جار ہا ہے۔ یعنی جس کڑے وقت میں حیدر عباس رضوی اور انور بھائی جیسے مہان دیار فرنگ میں ٹیکسیاں چلا رہے تھے تب فاروق ستار کوئے یار اور سوئے دار کے بیچ پا بجولاں ٹھہل رہے تھے۔ پرویز مشرف نے اقتدار پہ شب خون مارا تو سال دو ہزار دو تک ایم کیو ایم کے سینگوں میں سینگیں پھنسا کے رکھیں۔ اس دروان ایک موقع پر کچھ ایسی افواہیں گردش میں آئیں کہ یونٹ اور سیکٹروں میں سناٹا ہوگیا۔ قیادت رفتہ رفتہ لندن کینیڈا اور امریکہ کی طرف نکل گئی۔ اس موقع پر بھی تنہا فاروق ستار ہی تھے جو اخبار نویس اور انتظامیہ سے ایک فون کال کی دوری پہ کھڑے تھے۔ ایسے ہی دو مواقع زرداری دور حکومت میں آئے، جب ایک پختہ سیاسی کارکن ہونے کا ثبوت فاروق ستار صاحب نے دیا۔ ضمیر جاگ وبا تو ابھی کل کی بات ہے۔ آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ فاروق ستار کے ضمیر کو کیسے کیسے جھٹکے نہیں دیئے گئے ہوں گے۔ یہاں بھی انہوں نے قابل بھروسہ سیاسی کارکن ہونے کا پوراثبوت دیا۔ لمحہ موجود میں وہ زندانوں کے پیچھے بیرون ملک قیادت کے اس جرم کو بھگت رہے ہیں جسے اپنی تئیں وہ اپنی شاطر دماغی کا شاخسانہ سمجھ رہے ہیں۔

کسی معاملے میں دشمن کو نامزد کرنا اہم نہیں ہوتا، اسباب و عوامل پہ غور کرنا اہم ہوتا ہے۔ نائن زیرو پر آپریشن ہوا، جدید اسلحہ برامد ہوا، بھارتی کرنسی ظاہر کی گئی، کارکن دھرے گئے، انہی حالات میں عزیز آباد کے ضمنی انتخابات طبل بج گیا۔ حالات ناموافق ہوتے ہوئے بھی ایم کیوایم نے مخالف اتحاد کو ہرادیا۔ سوچنا چاہیے کہ آخر کیسے؟ کچھ ماہ بعد بلدیاتی انتخابات آئے۔ اس دوران کئی کارکن گرفتار ہوچکے تھے، بے شمارلاپتہ ہوگئے تھے، مگر ایم کیوایم نے تمام مخالف جماعتوں کو شکست دی۔ سوچنا چاہیئے کہ کیسے؟ کل شام الطاف حسین کی نفرت انگیز گفتگو کے بعد بھی کارکن کی صحت پہ کوئی اثر نہیں پڑا۔ سوچنا چاہیئے کہ کیوں ؟ کچھ تو ایسی سچائی ہے کہ جو یا تو اوجھل ہے یا ہم دانستہ نظر انداز کررہے ہیں۔ کیا یہ توقع کرلی جائے کہ سوچا جائے گا ؟ گوکہ دانش مندی کے امکانات بہت کم ہیں، مگر معاملہ تب واضح ہوگا جب جیل کا پھاٹک اٹھے گا۔ اگر پیر تسمہ پا نے باضمیر مہروں پہ تکیہ کیا تو ڈھاک کے وہی تین پات۔ اگر فاروق ستار کی خفتہ ضمیری کا احترام کرلیا گیا، تو سو باتوں کی ایک بات۔ ایک وہی ہیں جن کی معاملہ فہم اور پختہ سیاسی حیثیت پر اس کثیر الجہت انتشار میں اطمینان کا رستہ ڈھونڈ نکالنے کے لیے بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments