ڈاکٹر مسیحا ہیں یا قصائی، فیصلہ آپ خود کریں


ڈاکٹروں کی زندگی درحقیقت کیا ہے۔ یہ صرف ایک ڈاکٹر ہی سمجھ سکتا ہے۔ جوانی کے کئی سال پڑھائی میں گزر جاتے ہیں۔ ہر سال تقریباً ایک لاکھ افراد میڈیکل کالج کے انٹری ٹیسٹ میں شامل ہوتے ہیں لیکن بمشکل چند ہزار کو داخلہ نصیب ہوتا ہے۔ پھر میڈیکل کالج کے پانچ سال اور اس کے امتحانات کی وجہ سے زندگی عذاب بنی ہوتی ہے۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد لگتا ہے کہ بس اب زندگی کی پریشانیاں ختم ہو گئی ہیں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔

ہسپتال میں لوگوں کو لگتا ہے کہ ڈاکٹروں کے دل سخت ہیں۔ ان کو ان کو کسی کے مرنے کا، کسی کے بیمار ہونے کا دکھ نہیں ہوتا۔ دکھ جتنا باقی انسانوں کو ہوتا ہے ڈاکٹروں کو شاید ان سے کہیں زیادہ ہو لیکن ڈاکٹر ادھر مریضوں کے سامنے رونا شروع نہیں کر سکتے۔ کسی جوان اولاد کی موت کی خبر والدین کو دیتے وقت اکثر یوں محسوس ہوتا ہے کہ شاید اب دل باہر کو آ جائے گا۔ ان بوڑھے ماں باپ کے ساتھ خود بھی رونے کو دل کرتا ہے۔

ہمارے ملک میں کام کرنا بہت مشکل ہے۔ یہاں لوگ غریب ہیں۔ ایک شخص ہسپتال آتا ہے۔ اس کے گود میں چھوٹی بچی ہے۔ اس کو خون کی بیماری ہے اور ناک سے بہت زیادہ خون بہہ رہا ہے۔ ڈاکٹر اس کو دوائی لکھتا ہے۔ وہ دوائی لینے جاتا ہے اور واپس آ کر کہتا ہے ڈاکٹر صاحب میں نے کچھ پیسے قرض پہ لے کر ادھر آیا کچھ رکشہ ڈرائیور کو کرایہ دیا اور باقی جو مرے پاس ہے دوائی اس سے زیادہ مہنگی ہے۔ دوائی ضروری تھی۔ بچی کی زندگی کا سوال تھا۔ ادھر ڈاکٹروں اور نرسوں نے مل کر چندہ کیا۔ اس کے لیے دوائی کا بندوبست کیا اور بچی بچائی۔

ایک مریض وارڈ میں داخل تھا۔ اس کے دیکھ بھال کے لئے اس کے ساتھ ایک بچی بھی آئی تھی۔ بچی کو گردے میں درد ہوا۔ پتا چلا کہ کوئی بڑا مسئلہ ہے اور اس کے لئے جتنا جلدی ممکن ہو سی ٹی سکین کی ضرورت ہے ورنہ گردہ خراب ہو سکتا ہے لیکن اس کے باپ کے پاس دو مریضوں کے لیے پیسے نہیں تھے۔ بس انہوں نے اللہ کی مرضی پہ چھوڑ دیا اور کیا کرتا۔ تھوڑی دیر بعد اس کا ابو باہر گیا تو ایک خاتون ڈاکٹر نے بچی کے سی ٹی سکین کا خرچ اور باقی جتنا ممکن تھا اس کے لیے علاج کا بندوبست کیا اور وہ ٹھیک ہو گئی۔

رات کو کوئی ایک بجے کے بعد بابا جی ایک مریض کے ساتھ آیا۔ مریض کو ہسپتال میں داخل کیا اور بابا جی کو ٹیسٹ کرنے کا کہا۔ بابا جی کہنے لگا بیٹا میرے پاس جتنا کچھ تھا وہ گاڑی والے کو دیا۔ میں بہت دور سے آیا ہوں۔ اس کے ساتھ ایک چھوٹا بچہ بھی تھا۔ کہتا ہے اس کو کچھ کھانے کے لیے بھی کچھ نہیں دوائی تو بعد کی بات ہے لیکن وہ اس وارڈ میں جتنے دن رہا اس کا علاج بھی ہوا، کھانا بھی ملا حتی کہ جو ٹیسٹ ہسپتال میں دستیاب نہیں تھے وہ بھی باہر سے اس کے ہو گئے۔ کس نے کیے؟ وہی ادھر کے ڈاکٹروں اور نرسوں نے مل کر اس کی مدد کی۔

ایک بابا جی کی بیٹی جل گئی تھی۔ آپریشن ضروری تھا۔ وہ آپریشن کے لئے سامان لے کر آیا۔ پھر کہنے لگا کہ گھر میں دو پنکھے تھے۔ وہ فروخت کر کے ادھر آیا۔ میرے پاس اللہ اور اس کے رسول کے نام کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ پھر ایک پروفیسر نے ان کو علاج، کھانے پینے اور گھر جانے کے لئے کرایے تک میں اس کی مدد کی۔ ہم جس ماحول میں کام کرتے ہیں اس کا لوگوں کو پتا ہی نہیں۔ ان گنت کہانیاں ہیں۔ دکھوں اور مجبوریوں کا ماحول ہے۔ میڈیا اور فیس بک پر جو کچھ نظر آتا ہے وہ تو شاید دس فیصد بھی نہیں۔

بڑی آسانی سے ڈاکٹروں کو قصائی کہا جاتا ہے۔ میڈیا پہ خبر چلتی ہے کہ ڈاکٹروں کی مبینہ غفلت کی وجہ سے یہ کام ہو گیا۔ کبھی ان چیزوں کا سوچا ہے جو یہ ڈاکٹر لوگوں کی بھلائی کے لیے کرتے ہیں۔ جو دن رات اللہ ان کو ہزاروں زندگیاں بچانے کا ذریعہ بناتے ہیں کبھی ان کو میڈیا پہ خبر بنایا ہے؟ جب تک ہم کسی دوسرے کی جگہ پر کھڑے ہو کر نہیں سوچتے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے دوسروں کی زندگی کو، ان کی قربانیوں کو۔

ڈاکٹروں کو اللہ نے جو عزت دی ہے وہ شاید صرف ان غریب لوگوں کی دعائیں ہیں جو دنیا والوں کو نہیں پتا، بس اللہ جانتا ہے۔ لوگ اچھا کہے یا برا بس اپنے ضمیر اور اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا چاہیے۔ اس ملک اور اس کے لوگوں کے لیے کام کرنا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).