انتظار کیجیے اور اطمینان رکھیے


کچھ لوگ اپنی تعلیم 22 سال کی عمر میں مکمل کر لیتے ہیں۔ مگر ان کو پانچ پانچ سال تک کوئی اچھی نوکری نہیں ملتی۔ کچھ لوگ 25 سال کی عمر میں کسی کمپنی کے سی ای او بن جاتے ہیں اور 50 سال کی عمر میں ہمیں پتا چلتا ہے، ان کا انتقال ہو گیا ہے۔ جبکہ کچھ لوگ 50 سال کی عمر میں سی ای او بنتے ہیں اور نوے سال تک حیات رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ایک ہی سیٹ سے چمٹ جاتے ہیں اور پھر پتا چلتا ہے کہ 20 سال کی سروس کر کے مرا ہے اور نام بھی نہیں کما پایا، اور بعض لوگ 2، 2 سال کام کر کے اگلی منزل کی طرف نکل جاتے ہیں اور آخر ایک نام کما کر ساری عمر زندہ رہتا ہے۔

بہترین روزگار ہونے کے باوجود کچھ لوگ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں اور کچھ لوگ بغیر روزگار کے بھی شادی کر چکے ہیں اور روزگار والوں سے زیادہ خوش ہیں۔ اوبامہ 55 سال کی عمر میں ریٹائرڈ ہو جاتا ہے جبکہ ٹرمپ 70 سال کی عمر میں شروعات کرتا ہے۔ کوئی عبد الستار ایدھی بن کر 23 توپوں کی سلامی لیتا ہے، تو کوئی احسان اللہ احسان بن کر ہزاروں توپوں کے منہ اپنی طرف کھلوا لیتا ہے۔

کچھ لیجنڈ امتحان میں فیل ہونے پر بھی مسکرا دیتے ہیں اور کچھ لوگ ایک نمبر کم آنے پر بھی رو دیتے ہیں۔ کسی کو بغیر کوشش کے بھی بہت کچھ مل گیا اور کچھ ساری زندگی بس ایڑیاں ہی رگڑتے رہے۔ کچھ تعلیم حاصل کر کے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو گئے اور کچھ اعلیٰ عہدوں کے نیچے لگ گئے۔ کوئی نائب قاصد بن کے خوش ہے تو کوئی ڈائریکٹر بن کر بھی ناخوش۔

بہت سارے لوگ حسد، بغض اور نفرت کی وجہ سے اپنی بنیاد نہیں بنا پاتے اور بننے والے سی ای او کو نیچا دکھانے کے لئے خود بہت نیچے گر جاتے ہیں۔ اور کچھ لوگ سی ای او کی خوشامد کر کے اپنے آپ کو اونچا دکھانے کے لئے اپنے آپ کو بہت نیچے گرا لیتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر شخص کی قدر و قیمت ہے۔ کوئی اپنی قدر و قیمت کھو دیتے ہیں اور کوئی پا لیتے ہیں۔ اپنی قدر و قیمت وہی پاتا ہے جو اپنے ٹائم زون میں رہ کر محنت کرے اور اپنی اہمیت کو اجاگر کرے۔

ہم لوگ اپنی قیمت ان لوگوں کے ہاتھوں لگاتے ہیں، جن کی اپنی کوئی قدرو قیمت نہیں ہوتی بلکہ وراثتی قدر ان کو ملی ہوتی ہے۔ حقیقتاً ان کی کوئی اپنی قدر و قیمت، محنت، لگن، جذبہ اور پیار نہیں ہوتا۔ لوگ لاکھوں روپے لگا کر ڈگریاں لیتے ہیں اور وہی ڈگری آگے کچھ پیسوں کے عوض بیچ ڈالتے ہیں، ماہانہ تنخواہ کے عوض اپنی ڈگریوں کو سولی پر چڑھا دیتے ہیں۔ اور کچھ لوگ تو اپنا جینا مرنا اسی نوکری کو سمجھتے ہیں جس کے عوض ان کو کچھ ہزار معاوضہ ملتا ہے۔ اور وہ ایسے سمجھتے ہیں کہ اگر مجھے یہاں سے نکال دیا تو میری زندگی ختم ہو جائے گی۔ یہ ہے ان لوگوں کی چھوٹی سوچ۔ ہمیشہ بڑا سوچنے سے، بڑی خواہش رکھنے سے بڑی منزل ملتی ہے۔ اور بڑی منزل پانے کے لئے بڑی سوچ کا ہونا لازمی ہے۔ اور اس سوچ میں مخلصی ہو نہ کہ فتنہ، فساد اور دوسروں کو نقصان پہنچانا۔

ہمارے معاشرے میں ایسے افراد بھی پائے جاتے ہیں جن کو دوسروں کی خوشی، دوسروں کی محنت دیکھی نہیں جاتی اور ان کو مختلف ذرائع سے نقصان پہنچانے کا سوچتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ہمیشہ محنت کرنے والا آگے اور فتنے کرنے والے کئی صدیاں پیچھے چلا جاتا ہے۔ مشکلات ہر جگہ پر، ہر کام میں، ہر منزل میں آتی ہیں لیکن ان مشکلات کا سامنا صبر سے کرنا یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

اس دنیا میں ہر شخص اپنے ٹائم زون کی بنیاد پر کام کر رہا ہے۔ ظاہری طور پر ہمیں ایسا لگتا ہے کچھ لوگ ہم سے بہت آگے نکل چکے ہیں اور شاید ایسا بھی لگتا ہو کچھ ہم سے ابھی تک پیچھے ہیں، لیکن ہر شخص اپنی اپنی جگہ ٹھیک ہے۔ ان سے حسد مت کیجیے۔ اپنے اپنے ٹائم زون میں رہیں۔ جب کوئی ٹائم زون سے باہر کوئی نکلتا ہے تو وہ اپنے اوپر ایک آفت کھینچ لاتا ہے۔ جب آپ کا ایک ٹائم مقرر ہے، اسی وقت پے آپ کی قسمت بدلے گی۔

اور ہاں جب آپ مایوس ہو کر منہ پھیر لو گے تو پھر آپ نے سنا ہی ہے کہ ”مایوسی کفر ہے“ تو اس کے لئے ضروری ہے کہ حسد اور دوسروں کی ٹانگیں کھینچنا چھوڑ دو، تو آپ کا وہ وقت قریب آ جائے گا جس کا آپ کو انتظار ہے۔ ٹانگیں کھنچنے کے ساتھ ساتھ کسی کی ٹانگیں پکڑ کر سہارا لے کر بھی آپ کسی بلندی پر نہیں پہنچ سکتے بلکہ ساری زندگی پھر ٹانگوں میں ہی رہتے ہیں۔

انتظار کیجیے اور اطمینان رکھیے۔ نا ہی آپ کو دیر ہوئی ہے اور نہ ہی جلدی۔ خدا تعالیٰ جو کائنات کا سب سے عظیم الشان انجنیئر ہے، اس نے ہم سب کو اپنے حساب سے ڈیزائن کیا ہے۔ وہ جانتا ہے کون کتنا بوجھ اٹھا سکتا ہے۔ کس کو کس وقت کیا دینا ہے۔ اپنے آپ کو رب کی رضا کے ساتھ باندھ دیجیے اور یقین رکھیے کہ اللہ کی طرف سے آسمان سے ہمارے لیے جو فیصلہ اتارا جاتا ہے، وہی بہترین ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).