آپ کوئی حل تو ڈھونڈ لیں


بغداد جہاں ملک بھر کے علما، دجلہ کے کنارے اس بحث میں الجھے ہوئے تھے کہ کون سا فرقہ اللہ کی خوشنودی حاصل کرسکتا ہے، یقیناً اسی طرح ہی مسائل میں گرا ہوا تھا، جس طرح آج ہم گرے ہوئے ہیں۔ میں ٹھیک تو غلط کی فلاسفی میں الجھے علما، اچانک گھتم گھتا ہو کر ایک دوسرے کی داڑھیاں تک نوچ ڈالتے۔ علما کی پگڑیوں نے اتنی بے عزتی شاید پوری تاریخ میں نہیں دیکھی، جتنی رات کی تاریکیوں میں لپٹے دجلہ کی یخ بستہ ہواؤں میں دیکھنے کو ملی۔ کتنے فرقے تھے علما کے لیکن وہ ایک نہ ہو سکے مسلمانوں کی خاطر اور بغداد کی خاطر۔

علما سے ہٹ کر دنیائے سیاست کے عقاب تھے، جو اپنی دنیا بنانے کے چکر میں اقتدار کے ایوانوں میں بغداد والوں کو چکمہ دینے کا سوچ رہے تھے۔ اقتدار کی غلام گردشوں میں اس وقت کے سیاستدان بھی سازشوں ہی میں مفادات کا کھیل کھیل رہے تھے۔ سنجیدہ لوگ چپ کا طویل روزہ رکھنے میں مصروف تھے اور قریب ہی خوارزم میں بھیڑیاں لگی ہوئی تھیں مسلمانوں کا خون چوسنے میں۔ پوری منظر نامے پر بصارت و بصیرت والا ملنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔ وزیر اعظم کو فرصت نہیں مل رہی تھی خلیفہ کی خوشنودی سے اور جو لگے تھے خارجہ اُمور نمٹانے میں ان کے بیچوں بیچ غدار ٹولہ اپنے مفادات کا گنا چوسنے میں مصروف تھا۔

خوارزم میں موت کا رقص طویل ہو گیا۔ سمر قند اور بخارا کی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی اور خلیفہ بغداد سیاسی بصیرتوں سے نالاں سیاستدانوں کے نرغے میں مسائل کے حل سے کوسوں دور لمحہ بہ لمحہ آرام پسند بن گیا۔ پھر ہوا کیا۔ وہی جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے۔ مفادات کی دنیا کو خوب صورت بنانے والے، دین کو بیچنے والے اور خود کودور انحطاط کا ارسطو ثابت کرنے والے سب کے سر کاٹ دیے گئے۔ بیس لاکھ کی آبادی میں چند لاکھ ہی بچ گئے لیکن پھر بھی سمجھنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہوئی۔

کیا تباہی اور بربادی نسل دیکھ کر منہ موڑتی ہے؟ ایسا اگر ہوتا تو مسلمانوں کا اندلس کیا آج یوں داغ رہتا ہمارے اوپر؟ خلافت بنو امیّہ پر بنو عباس والوں کا طوفان آیا تو وجہ کیا تھی صرف اقتدار اور پھر کیا ملا ان کو کچھ بھی تو نہیں۔ اس کے بعد ایسے ہی ہزار مسائل میں مسلمان الجھے تو صدیوں سے جاری اقتدار کا خاتمہ کیا سازشی تھیوریوں سے نہیں ہوا؟ بالکل ہوا اور وجہ جس کی یہ تھی کہ سب کو پتا تھا کہ مسائل کیا ہیں اور ان کا ممکنہ حل کیا ہے لیکن کریڈٹ کے گرداب نے سب کو ڈبودیا۔

ہمارے تہتر سال کے مسائل بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے لیکن جو سب سے بنیادی اور بڑا مسئلہ ہے وہ سیاستدانوں کی سوچ اور ان کا اپروچ ہے۔ یہ منطق اگر مانی جائے کہ یہ سارے مسائل پچھلی حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں، تو کیا کسی نے آج تک ان سے پوچھا اور اگر بالفرض یہ منطق بھی مانی جائے کہ موجودہ حکومت ناکام ہو چکی ہے اور ان کو حکومت چلانے کا کوئی طریقہ سمجھ میں ہی نہیں آرہا تو گنہگار کون ٹھہرا؟

اندرونی مسائل اگر حل نہ ہوں تو بیرونی دنیا اسی طرح تاک میں بیٹھ جاتی ہے اور پھر سستا ہوجاتا ہے وہ خون جس کی رکھوالی والا کوئی نہ ہو۔ آئی ایم ایف سے قرضہ اور اس کے بعد ملک کے اندر بے تحاشا مہنگائی، ڈالر کی اونچی اڑان، سٹاک مارکیٹ میں اربوں روپوں کا ڈوب جانا، ٹیکس کلیکشن میں مسائل، خسارے میں اضافہ، امن امان کی دگرگوں صورتحال، سٹیٹ بنک جیسے اہم ادارے پر سوالیہ نشان، حکومت اور اپوزیشن میں رابطوں اور اعتماد کا شدید فقدان کیا ایسے مسائل ہیں جن کا کوئی حل نہیں؟ لگ تو یہی رہا ہے کہ یہاں بھی کریڈٹ کا گرداب آڑے آرہا ہے ورنہ تو مل بیٹھ کر مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔

اپوزیشن کی طرف سے افطار ڈنر میں مشاورت کی گئی ہے کہ عید کے بعد سڑکوں اور چوراہوں پر احتجاج ہوں گے لیکن احتجاج کس بات پر؟ کوئی یہ تو سمجھائے کہ کیا احتجاج سے مسائل حل ہوسکتے ہیں؟ کیا مل بیٹھ کر مسائل کا حل نہیں ڈھونڈا جا سکتا۔ آپ یہ بات پلے باندھ لیں کہ اسی طرح ایک دفعہ پوری اپوزیشن سٹرائیک پر نکلی تھی اور ہوا کیا تھا پھر سب کچھ ملیامیٹ ہو گیا تھا۔ یہ بات مانی جا سکتی ہے کہ حکومت کے پاس کوئی ٹیکنیک نہیں لیکن ان کو جو وقت ملا ہے یہ جمہوری روایات کے اس چھتری کے اندر ملا ہے۔ جس کی بنیاد اس وقت رکھ دی گئی تھی جب پاکستان بنا تھا۔ سڑکوں اور چوراہوں پر ملکوں کے مقّدر نہیں بدلتے۔ اگر آپ کے پاس مسائل کا کوئی حل موجود ہے تو پاکستان کی خاطر اگر حل پیش کیا جائے اور پھر اس پر کام کیا جائے تو تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔

کراچی کے سمندر سے تیل نکالنے کی کوشش پچھلی حکومتوں میں شروع ہوئی اور موجودہ حکومت نے اس پر کام کیا۔ تیل نہ نکلا تو یہ قرار واقعی پریشانی کی بات تھی لیکن پوری قوم نے اس پر حکومت وقت کا مذاق اڑایا جو کہ اس بات کی نشاندہی ہے کہ ہم اجتماعی طور پر غیر سنجیدہ ہو چکے ہیں اور جس کا خمیازہ ہم بھگت بھی رہے ہیں اور آگے بھی ایسے ہی بھگتیں گے۔

احتجاج کے لئے سیاسی کارکنوں کا ایک ساتھ بیٹھنا بالکل غلط نہیں لیکن ہمارا المیہ رہا ہے یہ کہ ہم احتجاج حکومت ختم کرنے کے لئے کرتے ہیں نہ کہ مسائل کے حل کے لئے۔ کوئی تو بہت بڑی وجہ ہو سکتی ہے کہ سیاست کے داؤ پیچ میں یہ بات بالکل نہیں سکھائی جاتی کہ غلطی کا اعتراف انسانی کی عظمت کو اور بھی نکھار بخشتی ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی بد قسمتی ہے کہ حکومت وقت میں بیٹھے وزیر اور دوسرے امور چلانے والے غلطیاں ہزار کرتے ہیں، لیکن اعتراف اور معذرت کوئی نہیں کرتا۔ ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ہزار احتجاجوں سے لیکن نتائج کیا نکلے ہیں اور مقاصد کیا تھے ابھی تک معلوم نہ ہو سکا۔

حکومت وقت کے پاس ہزار مسائل کے ساتھ کسی نہ کسی طرح یہ اعتراف موجود ہے کہ حکومت کے لئے ان کے پاس ان کے دعوؤں کی طرح کوئی بھی ہوم ورک موجود نہیں تھا اور یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا مسائل دن بہ دن بڑھ رہے ہیں لیکن اپوزیشن کا کردار ملک کی خاطر کیسا ہونا چاہیے یہ طے کرنا اگر ہمارے نصیب میں ہوتا تو یقیناً آج ہماری کایا پلٹ چکی ہوتی۔

آپ احتجاج سے پہلے حل پیش کرنے کی ایک بار کوشش کر کے دیکھ لیں اگر حکومت آپ کا حل قبول کر لیتی ہے تو اس میں عوام کا اور پاکستان کا فائدہ ہو گا۔ ملک ہم سب کا ہے یہ کسی ایک پارٹی کو نہیں دیا جا سکتا اور نہ کسی ایک کی ہار میں ملک کی جیت ہو سکتی ہے۔

باتوں اور بے لگام دعوؤں سے اگر حالات ٹھیک ہو سکتے تو ہم پوری دنیا میں یوں پیچھے نہ رہتے۔ مسائل مل بیٹھ کر حل ہو سکتے ہیں اور جس دن حکومت اور اپوزیشن ملک کی خاطر ایک پیج پر موجود پائے گئے اس دن سے پاکستان کی تاریخ بدلنا شروع ہو جائے گی۔

ہم زیادہ دور نہیں نوّے کی دہائی ہی کا اگر جائزہ لیں تو یہی اختلافات اور ذاتی مفادات کی جنگ ہی تھی جس نے ملک کو تباہ و برباد کیا۔ نو سال میں چار دفعہ انتخابات اور اس میں بھی سیاستدانوں کا ایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کے رجحان نے کتنی دباہی دی کیا اندازہ لگانا مشکل ہے؟

یہ بات ضروری ہے کہ ہم مان لیں کہ ایک کروڑ نوکریوں کا دعوٰی اور پچاس لاکھ گھر کسی بھی سنجیدہ فکر کے لوگوں کا دعوٰی نہیں ہو سکتا لیکن پاکستان کی خاطر مل بیٹھ کر کسی کی عزت کم نہیں ہو سکتی۔ آپ حل ڈھونڈ لیں یقین ہے ہمیں اس دن جس دن سے آپ حل اور تحقیق کے ساتھ مل بیٹھ کر ملک کی بات کریں گے۔ ہماری تقدیر بدلنا شروع ہو جائے گی لیکن اگر احتجاج صرف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ہوں تو پھر کوئی شک نہیں کہ ہم یوں ہی صدموں سے دوچار تباہی کی طرف گام زن رہیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).