ثقافت، تہذیب، کلچر میں سے کوئی دائمی نہیں


یہ دنیا کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ زمین کا یہ گولہ جس تیزی کے ساتھ دو تین مداروں میں گھوم رہا ہے اسی تیزی سے تغیر کا پہیہ بھی حرکت میں ہے۔ یہاں رواج بدلتے ہیں رسمیں ختم ہوتی ہیں، نئی جنم لیتی ہیں۔ ہر آنے والی تبدیلی پچھلی صورتحال پر اثرانداز ہوتی ہے اور اس تبدیلی کے خلاف مزاحمت بھی ہوتی ہے جو ظاہری سی بات ہے، ایک مخصوص دورانیے کے بعد ختم ہونا ہی ہوتی ہے۔ کیونکہ تغیر نے اپنا جھنڈا سربلند رکھنا ہی ہوتا ہے۔

اب دیکھیے جب صنعتی انقلاب آیا تو قوموں نے مزاحمتی ادب تخلیق کرنا شروع کر دیا کیونکہ اس انقلاب کو بہ زورِ بازو تو کوئی رد نہیں کر سکتا تھا۔ مختلف رسوم و رواج عام ہوتے گئے اور معدوم بھی ہوئے۔ ہر دفعہ جب نئی رسم یا نیا کلچر پنپنے لگا تو پہلے سے موجود لوگوں نے اس کے خلاف مزاحمت کی مگر اس دور میں آنکھ کھولنے والوں نے اپنی زندگی کے لیے انہیں رسوم کو ثقافت تسلیم کیا۔ ہر دور میں ثقافت کے معیارات و منفردات بدلتے رہتے ہیں۔

ہر دور میں مخدوش ہوتے ثقافتی پہلوؤں کے خلاف تحریکیں، مزاحمتی ادب و رویے جنم لیتے ہیں۔ میرے دور میں بھی بہت زبردست کلچر شفٹ کا سامنا ہے، ایسے میں کئی لوگ ہیں جو ان ناپید ہوتی روایات و اقدار پر واویلا کرتے ہیں، کچھ صرف تذکرے کرتے ہیں۔ جبکہ باقی باقاعدہ ادب تخلیق کر رہے ہیں۔ اس معاملہ میں میں فطرت کا ہم راہی ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہر دن تغیر کے ساتھ ہماری اقدار و روایات کے نئے پیمانے وضع ہوتے رہنے چاہییں۔

ایسی حدود و قیود جو شدت پسندی، انا پسندی اور دائمیت جیسے تعصبات کا شکار ہیں، انہیں ماننے سے انکار کر دینا چاہیے۔ ثقافت، تہذیب، کلچر میں سے کوئی دائمی نہیں، یہ سب کسی معاشرے کے لیے رنگ بدلتے اجزائے ترکیبی ہیں۔ میں یہ دعوی کرتا ہوں کہ انسان اس دور میں جینیٹکیلی جن ہوش رُبا تبدیلیوں اور جدتوں کا شکار ہے، بعید نہیں کہ یہ ایک نئی سپیشی کا روپ دھار لے، جس کے بعد کچھ فرقے یہ مانیں کہ وہ لوگ انسانوں سے مسلسل ارتقا سے وجود میں آئے ہیں اور کچھ سپیشل کری ایشن کے نظریے پہ بضد رہیں۔ میرا شمار ہمیشہ ان جنم لیتی تبدیلیوں اور جدتوں کے پرچارک کرنے والوں میں ہی ہو گا، میں بہت کم کسی ثقافتی تبدیلی کی خلاف مزاحمت کروں گا، ہاں مگر شاید بعض دفعہ ذاتی تعصب پہ کسی قدر کے خاتمے پر نوحہ و گریہ بھی کروں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).