مودی کو سپرسٹار بنانے والے امت شاہ کون ہیں؟


‘مجھے وہ دن یاد ہے جب میں ایک نوجوان کارکن کے طور پر نارنپورہ علاقے میں بی جے پی کے سینیئر لیڈروں کے لیے پوسٹر لگایا کرتا تھا۔ برسوں گزر گئے ہیں اور میں بہت بڑا ہو گیا ہوں لیکن یادیں اب بھی تازہ ہیں اور مجھے پتہ ہے کہ میرا سفر یہاں سے شروع ہوا تھا۔’

30 مارچ کو، بی جے پی کے صدر امت شاہ نے اپنی انتخابی نامزدگی داخل کرنے سے قبل منعقدہ روڈ شو میں یہ باتیں کہی تھیں۔

گجرات کے گاندھی نگر انتخابی حلقے سے لوک سبھا کے انتخابات لڑنے والے امت شاہ اس وقت کی بات کر رہے تھے جب وہ سنہ 1982 میں اے بی وی پی (بی جے پی کی طلبہ ونگ) کے نوجوان کارکن تھے۔

کئی سال گزر چکے ہیں اور وہ لڑکا جو کبھی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی اور بی جے پی کے دوسرے لیڈروں کے لیے پوسٹر لگایا کرتا تھا، آج خود پارٹی کا ‘پوسٹر بوائے’ بن چکا ہے۔

سنہ 2014 میں بی جے پی کو شاندار فتح سے ہمکنار کرانے کے بعد امت شاہ رکے نہیں، انھوں نے پارٹی صدر کے طور پر بی جے پی کو سنہ 2019 میں 2014 سے بھی بڑی جیت دلانے کا کرشمہ کر دکھایا ہے۔

سفر کی ابتدا

امت شاہ نے اپنی زندگی میں ہر قسم کے اچھے برے وقت دیکھے۔ اے بی وی پی کے کارکن کے طور پر اپنے سیاسی سفر کا آغاز کرنے والے امت شاہ آج اس مقام پر پہنچ گئے ہیں جہاں وہ پارٹی کی کارکردگی کے لیے مکمل طور پر ذمہ دار ہیں، خواہ پارٹی نے انتخابات جیتے ہوں یا شکست سے دوچار ہوئی ہو۔ بہر حال حزب اختلاف امت شاہ کے خلاف مجرمانہ الزامات کی یاد بی جے پی کو دلاتا رہتا ہے۔

امت شاہ 22 اکتوبر، سنہ 1964 کو ممبئی کے جین بنیا خاندان میں پیدا ہوئے۔ 14 سال کی عمر میں انھوں نے آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی اور سمجھا جاتا ہے کہ یہیں سے ان کے سیاسی سفر کی شروعات ہوئی۔

گاندھی نگر کے ایک چھوٹے سے شہر مانسا میں انھوں نے اپنی ابتدا ‘نوجوان سویم سیوک’ کے روپ میں کی تھی۔ پھر کالج کی تعلیم کے لیے احمد آباد گئے جہاں اے بی وی پی میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ 1982 میں بائیو کیمسٹری کے طالب علم کے طور پر اے بی وی پی کے سیکریٹری بنے۔

اس کے بعد، وہ بی جے پی کے احمد آباد یونٹ کے سیکریٹری بن گئے۔ اور پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سنہ1997 میں بھارتی جنتا یووا مورچہ کے قومی سیکریٹری خزانہ بنے۔ اس کے بعد بی جے پی کی ریاستی یونٹ کے نائب صدر بنے۔

امت شاہ

مایوسی کا دور

ان کی زندگی کا مایوس کن دور اس وقت شروع ہوا جب گینگسٹر سہراب الدین شیخ اور ان کی بیوی کوثر بی کے مبینہ انکاؤنٹر میں ان کا نام آیا۔ سہراب الدین اور ان کی بیوی کو سنہ 2005 میں ایک تصادم میں قتل کر دیا گیا تھا، اس وقت امت شاہ گجرات کے مرکزی وزیر داخلہ تھے۔

اس کے علاوہ امت شاہ کا نام سہراب الدین کے ساتھی تلسی رام پرجاپتی کے مبینہ فرضی انکاؤنٹر میں بھی آیا۔ امت شاہ کے لیے یہ معاملے نشیب و فراز سے بھرے تھے۔

سہراب الدین کے خاندان نے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو اس معاملے کی تقصیلی تحقیق شروع ہوئی۔ اور امت شاہ کے ساتھ گلاب چند کٹاریا پر ان مبینہ فرضی انکاؤنٹرز میں شامل ہونے کے الزامات لگے۔

گجرات اور راجستھان کے سپاہی سے لے کر آئی پی ایس سطح کے پولیس افسران پر اس میں ملوث ہونے کے الزامات لگے۔ اس معاملے میں ایم این دینیش، راجکمار پانڈین، ڈی جی وانجار اور امت شاہ سمیت کئی ملزمان کو گرفتار کیا گیا۔

25 جولائی 2010 کو امت شاہ کو گرفتار کیا گیا اور 29 اکتوبر سنہ 2010 کو ضمانت ملی۔ ان پر اکتوبر 2010 سے ستمبر 2012 تک گجرات میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی۔ آخرکار، قانونی جنگ کے بعد، سی بی آئی عدالت نے اس کیس میں 30 دسمبر 2014 کو ان کو بری کر دیا۔

جئے شاہ

امت شاہ کا بیٹا جئے شاہ

امت شاہ کے بیٹے جئے شاہ کا معاملہ

اس کے بعد اکتوبر سنہ 2017 میں ویب سائٹ ‘دی وائر’ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں یہ دعویٰ کیا گیا کہ نریندر مودی کے وزیر اعظم بننے اور امت شاہ کے بی جے پی کا صدر بننے کے بعد ان کے بیٹے جئے شاہ کی کمپنی کا ٹرن اوور 16 ہزار گنا بڑھ گیا ہے۔

دی وائر نے یہ دعویٰ کمپنیوں کے رجسٹرار میں دائر کردہ دستاویزات کی بنیاد پر کیا تھا۔

ویب سائٹ کا کہنا تھا کہ سنہ 2014-15 میں، جے شاہ کے ملکیت والے ٹمپل انٹرپرائزز لمیٹڈ کی کل آمدن 50 ہزار روپے تھی، جس میں سنہ 2015-16 میں 80۔5 کروڑ تک اضافہ ہوا۔ بہر حال اکتوبر سنہ 2016 میں ایک سال بعد، جئے شاہ کی کمپنی نے اپنی کاروباری سرگرمیوں کو مکمل طور پر بند کردیا۔

رپورٹ شائع ہونے کے بعد جئے شاہ نے دی وائر کی رپورٹر روہنی سنگھ اور بانی سدھارتھ وردھراجن سمیت سات افراد پر احمد آباد کے میٹروپولیٹن کورٹ میں ہتک عزت کا کیس کیا۔ اس وقت معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔

مودی کو سپرسٹار بنانے والے شاہ

امت شاہ کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنے پورے دم خم کے ساتھ گاندھی نگر سیٹ پر کام کرنا شروع کیا اور اس سے اٹل بہاری واجپئی اور لال کرشن اڈوانی جیسے بڑے لیڈروں کو فائدہ پہنچا۔

سیاسی امور پر نظر رکھنے والے اور پارٹی کے ساتھ منسلک افراد کا کہنا ہے کہ واجپئی اور اڈوانی کی طرح انھوں نے نریندر مودی کو سیاست کی قومی منظر پر لانے میں مدد کی۔

دونوں رہنماؤں کے قریب رہنے والے بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر کہتے ہیں ‘مودی اور شاہ ایک ہی سکے کے دو پہلو ہیں۔ وہ دہائیوں سے ایک ساتھ رہے ہیں۔ وہ ایک جیسا سوچتے ہیں۔ وہ ایک مکمل ٹیم کی طرح کام کرتے ہیں۔

‘وہ زندگی اور سیاسی زندگی کے متعلق مختلف نظریہ رکھتے ہیں، لیکن وہ دونوں ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔’

ان کے مطابق سنہ 2014 کی فتح کے لیے مودی انھیں ‘مین آف دی میچ’ کا اعزاز دیتے ہیں۔

سینئر رہنما نے مزید کہا کہ شاہ کیمرے کے پیچھے کام کرنے والی فلم ڈائریکٹر کی طرح ہیں اور اداکاروں کو سٹار بناتے ہیں۔ شاہ نے بہت سے سیاسی ستارے بنائے ہیں لیکن سپرسٹار نریندر مودی رہے۔

تنظیمی صلاحیتیں

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ امت شاہ ایک عظیم منتظم ہیں۔ ان کا نظم و نسق فوج کی طرح ہے جو بی جے پی کارکنوں میں نظر آتا ہے۔

وہ اپنے کیڈر کو نظم و ضبط کے سبق دیتے ہیں۔ انھوں نے کئی دہائیوں تک بوتھ مینجمنٹ پر زور دیا ہے جو گجرات میں اور پھر سنہ 2014 کے لوک سبھا کے انتخابات میں نظر آيا۔

ان کی حکمت عملی اور انتظامی مہارتوں کی وجہ سے، پارٹی نے انھیں سنہ 2010 میں جنرل سکریٹری کا عہدہ دیا اور پھر اترپردیش کی ذمہ داری سونپی۔

امت شاہ نے اترپردیش میں بی جے پی کے انتخابی مقدر کو بدل دیا اور پارٹی نے شاندار کامیابی حاصل کی۔ لوک سبھا کی 80 نشستوں میں سے پارٹی نے 73 پر جیت حاصل کیں۔

انچارج کے طور پر دو سال کے اندر، پارٹی کا ووٹ ریاست میں تقریباً دھائی گنا بڑھا دیا۔ سنہ 2014 کے انتخابات میں، شاہ بی جے پی کی انتخاباتی کمیٹی کے رکن تھے اور انھیں عوام تک پہنچنے کی ذمہ داری دی گئی تھی، اور بہت سے لوگوں تک پہنچنے اور نئے ووٹروں کو شامل کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

2014 لوک سبھا کے انتخابات میں بی جے پی کی کامیابیوں پر مبنی حکمت عملی بنانے کے لیے ان کی مہارت کی تعریف کی جاتی ہے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انھوں نے سیاست میں پولرائزیشن کو فروغ دیا ہے۔

یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے پارلیمان اور ایم ایل ایز کو توڑنے اور انھیں اپنی پارٹی میں شامل کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جب بھی ان کی پارٹی کو ضرورت ہوتی ہے تو وہ ایسا کرتے ہیں۔ وہ اکثر ایسی پیشکش دیتے ہیں جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔

امت شاہ

حزب اختلاف کی جماعتوں کے رہنما بھی امت شاہ کی سوشل انجینئرنگ کے قائل ہیں۔ ایک سینئر بی جے پی لیڈر کہتے ہیں ‘امت جی کی طرح کوئی اور لیڈر ذات کے دھاگوں کو نہیں پرو سکتا ہے۔ وہ ذات کی سیاست کو اندر اور باہر دونوں طرف سے پوری طرح جانتے ہیں۔ ان کی ذاتی مہارت کانگریس کے تمام پالیسی سازوں پر بھاری پڑتی ہے۔’

آگے کیا راستہ ہے؟

امت شاہ اپنی پارٹی کے لیے نہ صرف گلدستے بلکہ تنقید بھی قبول کرتے ہیں۔ کیونکہ کئی بار انھوں نے سیاسی طور پر قبول کیا ہے کہ بی جے پی کے بغیر وہ عوامی سطح پر کچھ نہیں ہیں۔

نارنپورہ کے روڈ شو میں کارکنوں اور حامیوں کے مجمے سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے پارٹی کو اپنے آپ سے اوپر بتایا۔ شاہ نے کہا تھا ‘اگر بی جے پی کو میری زندگی سے نکال لیا جائے تو صرف زیرو ہی بچے گا۔ میں نے جو کچھ بھی سیکھا اور ملک کو جو کچھ دیا سب کا سب بی جے پی کا ہی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32192 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp