ریپ کی نفسیات


کس کس کا نوحہ لکھا جائے۔ کس کس کا ماتم کیا جائے۔ پھول جیسی زینب کا یا معصوم اور فرشتہ جیسی فرشتہ کا۔ ایبٹ آباد کی تین سالہ فریال کا جس کا ریپ کے بعد بہیمانہ قتل کردیا گیا یا لاہور کی شاہدہ کا جسے ریپ کے بعد سوئمنگ پول میں ڈبو کر مار دیا گیا۔ آسلام آباد اور کراچی کی ان بد نصیب بچیوں کا جو اپنے ہی گھر میں اپنے بھائیوں کے ہاتھوں ریپ کا شکار ہوئی یا سیالکوٹ کی اس بیٹی کا جو اپنے ہی سگے باپ کے ہاتھوں بے آبرو ہوئی۔ واقعات گنوانا شروع کر دوں تو دن ختم ہوجائے گا مگر کردار باقی رہ جائیں گے کیونکہ پاکستان میں ہر 40 منٹ بعد ابک بچی، ایک عورت یا ایک بچہ جنسی زیادتی یعنی ریپ کا شکار ہوتے ہیں۔

ان واقعات بلکہ سانحات پر نوحہ بھی فرض اور ماتم بھی واجب مگر یہ جان لیا جائے اور مان لیا جائے کہ ان سانحات کا سدباب ان نوحوں اور ماتموں کے بس کی بات نہیں۔ اس طرح کے جرائم پر نہ میڈیا میں سرکس لگانے سے ان میں کوئی کمی آئے گی نہ ہی اربابِ اختیار کے ”مجرموں کو سخت سے سخت سزا دی جائے گی“ جیسے جذباتی نعرے ان جرائم کو روک پائیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ سخت سے سخت سزا حتیٰ کے سزائے موت بھی اس جرم کا راستہ روکنے میں ناکام رہی ہے۔

اگرچہ ریپ امریکہ و یورپ جیسے ترقی یافتہ ممالک کے لئے بھی ایک گھمبیر مسئلہ ہے لیکن اس کے باوجود ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ پاکستان، انڈیا اور افریقی ممالک میں اس جرم کی شرح خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے۔ اس بھیانک صورتحال میں ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ یہ ریپ جیسا جرم آخر کیا کیوں جاتا ہے۔ کون اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور کون اس جرم کا شکار بنتا ہے۔ وہ کون سے سماجی عوامل ہیں جو اس جرم کو پروان چڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔ اگر ہم اس شرمناک معاشرتی مسئلہ سے نمٹنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے روایتی مسخرے پن سے آگے نکل کر ان سوالوں کے جواب کھوجنے ہوں گے۔

ریپ کے سفاک عمل اور ریپ کرنے والے کی نفسیاتی اور ذہنی حالت کے بارے میں جانے بغیر اس جرم کو روکنا قطعاً ممکن نہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابق ریپ کو محض ایک جنسی ہوس کی کیفیت میں کی جانے والی مجرمانہ حرکت سمجھنا درست نہیں بلکہ ریپ ایک جنسی عمل کے ساتھ کسی شخص یا گروہ کی جانب سے کسی کمزور کے خلاف اپنی طاقت کے اظہار کا مجرمانہ اور بھیانک طریقہ ہے۔

بحیثیت قوم ریپ جیسے جرم کا سامنا کرتے ہوئے ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ معاشرے میں موجود جرائم اچانک درختوں پر نہیں اگا کرتے نہ ہی کوئی شخص پیدائشی مجرم ہوتا ہے۔ وبا کی مانند پھیلتے جرائم کا تعلق معاشرے کے مجموعی خدو خال اور رویوں سے ہوتا ہے۔

ریپ جیسے واقعات کی مختلف معاشرتی اور شخصی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جس میں غربت، احساسِ محرومی، احساسِ کمتری، معاشرتی و جنسی گھٹن، سیکس ایجوکیشن کی کمی، عزت و غیرت کے بے ہودہ پیمانے شامل ہیں۔ تاہم ریپ جیسے جرم کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم جس معاشرے میں سانس لیتے ہیں وہاں بدقسمتی سے ”مائٹ اِز رائٹ“ ایک مروجہ قانون ہے۔ یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں جہالت راج کرتی ہے۔ جہاں جاگیردارانہ اقدار کسی آسیب کی طرح معاشرے سے چمٹی ہوئی ہیں۔ جہاں لاقانونیت فخر کا باعث بنتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں اپنے سے کمزور پر حکمرانی کی خواہش اور طاقت کا استعمال ایک معمولی واقع ہے۔ اور یہ بھی ایک شرمناک حقیقت ہے کہ ہماری ریاست اور معاشرہ مجموعی طور پر بچوں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ مجرموں کو عموماً بچے اس جرم وجارحیت کے ارتکاب کے لئے کمزور اور آسان ہدف نظر آتے ہیں۔

بچوں کے بعد مجرموں کے لئے دوسرا آسان ہدف عورتیں ہوتی ہیں جو کہ ہمارے جاگیردارانہ و نیم سرمایہ دارانہ معاشرے میں ایک کمزور سماجی رتبہ لے کر پیدا ہوتی ہیں اور پرورش پاتی ہیں۔ یہاں کسی بھی طبقے کا مرد اسی طبقے کی عورت سے بہتر اور طاقتور حیثیت رکھتا ہے۔

یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جہاں عورتوں پر جبر اور تشدد کے حق میں معاشرتی و مذہبی جواز گھڑے جاتے ہیں۔ عورتوں کو یہاں حق وانصاف کے لئے ایک مخصوص ظالم سے ہی نہیں بلکہ رائج انسان کش رویوں سے بھی لڑنا پڑتا ہے۔ اور یہی وہ معاشرتی سوچ اور رویے ہیں جو مظلوم کے بجائے ظالم کو مضبوط کرتے ہیں۔ اور معاشرے کے یہی مجموعی رویے ریپ کرنے والی ذہنیت اور مجرم پیدا کرتے ییں اور پھر جب ریپ کی ذہنیت اور مجرم پیدا ہو جائیں تو پھر وہ یہ کہاں دیکھتے ہیں کے سامنے چھے ماہ کی معصوم بچی ہے یا دس سال کا اپنا ہی بھائی۔ سامنے بیس سالہ نوجوان لڑکی ہے یا پچاسی سال کی کوئی ضعیف بزرگ خاتون۔ وہ تو بس موقع ملتے ہی معاشرے کے ہاتھوں اپنے لاشعور میں پرورش پانے والے بھیڑیے کی تسکین کے لئے وہ کچھ کر جاتے ہیں جو کسی بھی باضمیر انسان کی روح تک ہلا دیتی ہے۔

لہٰذا ہم ریپ کے جرم کو معاشرے میں موجود متشدد اور منفی پہلؤں سے الگ کر کے اور خاص طور پر بچوں اور عورتوں کے خلاف دیگر جرائم سے الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے۔ ریپ کی بنیادی نفسیات کا محرک کمزور پر طاقت کا وحشیانہ اور مجرمانہ اظہار ہے اور اگر آپ واقعی اس جرم کے خلاف کھڑے ہونے کا فیصلہ کرچکے ہیں تو آپ کو اپنے معاشرے میں ”مائٹ از رائٹ“ کے مروج اصول کے خلاف کھڑا ہونا پڑے گا۔ جاگیردارانہ اقدار اور لا قانونیت کے آگے فل اسٹاپ لگانا ہی پڑے گا۔

بچوں کی حفاظت کے لئے ریاست اور معاشرے کی ذمہ داریاں اپنی جگہ مگر ہمیں معاشرے میں عورتوں کو تعلیم، روزگار اور عزت سمیت تمام جائز حقوق دینے ہوں گے جو اس معاشرے کے مردوں کو حاصل ہیں۔ انہیں گھر سے لے کر پارلیمان تک میں فیصلہ سازی پر برابر حصہ دینا ہو گا۔ کیونکہ طاقت کا توازن ہی کمزور اور طاقتور کے درمیان فرق کو ختم کرسکتا ہے۔ اور جب کبھی ہم یہ مشکل مرحلہ طے کرنے میں کامیاب ہو گئے تو جہاں طاقت کے اظہار کے دیگر وحشیانہ جرائم میں کمی آئے گی وہیں ریپ جیسے سانحات بھی قابو میں آجائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).