وادی بابو سر کے گھر میں دیواروں پر لٹکتی بندوقیں اور محفلِ شعر و سخن


آوارگی تو جسم کے ہر خلیے میں رچی ہوئی تھی۔ شادی کے پہلے سات سال دانتوں تلے زبان دے کرگزار لئے تھے۔ تو اب جی رائیڈر ہیگرڈ کے میکو میزن اور ہنسیں کا روپ دھارنے کو چاہنے لگا۔ شمالی علاقہ جات کے پھلوں، سوغاتوں اور پر اسرار دنیا ؤں کی نمک خوار تھی۔ گرمائی تعطیلات میں بچوں کی انگلی پکڑی اور چھوٹی خالہ کے پاس اسلام آباد جا دھمکی۔

”چھوٹی خالہ میرے بچے تیرے حوالے۔ بس پریوں کے دیس لکھنے کے لیے جانے کی اجازت دے دو۔ میاں کو ہوا نہیں لگنے دینی۔“
”کم بخت اتنے دشوار گزار راستے اور تو اکیلی عورت۔“
’’اللہ میرے ساتھ۔‘‘
چچا ماموں کے واقف کاروں کے پتے سب دکھا دیے۔ نیٹکو بس مقامی مردوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی، عورتیں صرف دو اور وہ بھی میدانی علاقوں کی۔

شاہراہ ریشم کا بشام سے سازین تک کا علاقہ فطرت کا شاہکار تھا۔ گاڑی خراب ہونے کی وجہ سے کہیں جلکوٹ، کہیں داسو میں گھنٹوں رکتے رُکاتے پو پھٹے چلاس پہلا پڑاؤ ہوا۔ نانگا پربت دیکھی، پریوں کے رہنے کی جگہ ہے، یہ جانا۔ چلاس بازار آیا۔ اونچے نیچے موڑ آئے۔ ٹیڑھی میڑی گلیاں، پھر میزبان کا گھر اور وہ خود آنکھوں میں حیرت و استعجاب کے رنگ لئے۔ مجھے یوں محسوس ہوا تھا جیسے ڈاکٹر ناموس کی کتاب کا ایک خالص شین چہرہ کتابی صفحات سے نکل کر سامنے آ گیا ہو۔ تعارف چچا کے حوالے سے ہوا۔ بہت خوش ہوئے۔ اندر آنے پر پتہ چلا کہ ٹبر تو گرما گزارنے بابو سر کی وادی میں جانے کے لیے تیار بیٹھا ہے۔ میری پریشانی پر بشاشت سے بولے۔ ساتھ چلیں۔ وادی اور ٹاپ دیکھیں۔ چلاس کو بعد پر رکھیے۔ خوشی ہوئی اندھے کو دو آنکھیں مل رہی تھیں۔

تقریباً تیس کلومیٹر کے اس سفر میں سڑک کی حالت زار، راستے کی دشواری اور وادیوں کا حسن و جمال حیرت زدہ کرتے تھے۔ آدھ فرلانگ چوڑی اور ڈیڑھ فرلانگ لمبی وادی کا حسن اس حسین دوشیزہ کے مانند تھا جس پر نگاہ ڈالنے سے اپنی آنکھوں کی غلاظت کا احساس ہونے لگتا ہے۔

بڑے سے چوبی دروازے پر دو عورتوں نے استقبال کیا۔ ایک جوان اور دوسری بوڑھی۔ نوجوان عورت کے سر پر رکھی ٹوپی نظر نہیں آتی تھی۔ لیکن خلافِ رواج اُس کا صاف ستھرا لباس دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہ تھا کہ ٹوپی خوبصورت کڑھت سے مزین ہو گی۔ گرم سرخ چادر کو یوں اوڑھا گیا تھا کہ دائیں اور بائیں پلو سر پر جا کر جھالریں سی بن گئے تھے۔ اس کی سرخی مائل رنگت چادر کے عکس سے کچھ اور بھی سرخ ہو گئی تھی۔

تعارف پر محبت بھری مسکراہٹ ہونٹوں اور آنکھوں میں پھیل گئی۔ کمرے میں اونی دری بچھی تھی۔ دری کا رنگ روپ سب مٹ مٹا چکا تھا۔ گھر سر سے پیر تک چوبی پیرہن پہنے ہوئے تھا۔ دیواریں چھت فرش سبھی بتا رہے تھے کہ لکڑی یہاں کتنی ارزاں ہے۔ انگنائی کی دیواریں بھی پتھروں کی بجائے لکڑی کے بڑے بڑے شہتیروں کو اوپر نیچے رکھ کر بنائی گئی تھیں۔

چائے نمکین اس پر تیرتا مکھن اور ساتھ میں میٹھے بسکٹ تھے۔ ظہر کی نماز سے فارغ ہو کر میں صادق گلباز خان کے بھتیجے کے ہمراہ بابو سر کا چکر لگانے کے لیے تیار تھی۔ وادی میں کھڑے ہو کر اوپر دیکھا جائے تو بابو سر ٹاپ نظر آتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ دید کی اس کشمکش میں سر چکرانے لگتا ہے۔ پہاڑ مٹی کے ہیں اور ان پر گھنے جنگلات جن میں صنوبر دیودار، پڑتل اور کائل کے درختوں کی بہتات ہے۔

وادی میں جا بجا کاغذی اخروٹوں کے درخت تو نظر آتے تھے لیکن سیب اور خوبانی کے پیڑ نہیں تھے۔ گندم کے کھیتوں میں پودوں کی اونچائی ڈھائی تین بالشت سے زیادہ نہ تھی۔ کٹائی ستمبر میں جا کر ہونا تھی۔ تھک نالے کا شور کانوں کے پردے پھاڑ رہا تھا اور راستہ زگ زیگ کی طرح بل کھاتا تھا۔

13694 فٹ بلندی پر صادق مجھے گٹی داس کا میدان بھی دکھانا چاہتا تھا جو ٹاپ سے تقریباً تین فرلانگ اترائی پر تھا۔ ایسا خوفناک راستہ سچی بات تھی میں دم سادھے بیٹھی تھی۔ تیسرے کلمے کے ورد نے میری زبان خشک کر دی تھی۔ گل جان ہنستی تھی۔ پہاڑوں کی بیٹی جس کے لئے یہ سب ایک معمول کی طرح تھا۔

ٹاپ پر جیب رک گئی۔ ہمارے سامنے کوئی ڈیڑھ پونے دو سو گز لمبا گلیشیئر تھا۔ برف کا پہاڑ۔ میں اس پہاڑ پر کھڑی تھی۔ میں اسے چھو سکتی تھی۔ اسے دونوں ہاتھوں سے تھام سکتی تھی۔ عجیب سا تحیر، ایک انوکھی اور نرالی چیز دیکھنے کی خوشی کے احساس نے مل جل کر مجھے ایک ایسی مسرت سے ہم کنار کیا تھا جو کسی چھوٹے بچے کو پہلی بار کھلونا ہاتھ میں پکڑنے سے ہوتی ہے۔ چوٹی کے پہاڑ شکل و صورت میں انڈے کے مانند تھے۔ اب اترائی شروع ہوئی۔ اترائی چڑھائی سے زیادہ خطرناک تھی۔ راستہ ڈھلانی تھا۔ لیکن صادق ماہر ڈرائیور اس کا بس چلتا تو کاغان کی وادیوں تک جا پہنچتا۔

” گٹی داس کا میدان۔ بہار کے اوائل میں اس گھاس سے خوشبو نکلتی ہے۔ سبزہ زاروں پر دوڑتے پھرتے خوبصورت جانور توشون کو دوربین کی مدد سے دیکھا۔ اور جانا کہ یہ صرف صبح اور شام اپنا پیٹ بھرنے کے لیے نکلتا ہے۔ واپسی میں زیرے کے پودے دیکھے۔ یہ شکل صورت میں ہمارے ہاں کے برسین یا چٹالے کے پودوں جیسے ہیں۔ سفید یا کالے تلوں کے بوٹوں سے جس طرح تل گرتے ہیں بعینٰہ اس میں سے زیرہ گرتا ہے۔

ڈھلانی پہاڑوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ جیپ پھر رک گئی۔ صادق نے چلغوزے کے درختوں کے جھنڈ دکھائے۔ پھل کو توڑنا بڑا دلچسپ عمل ہے۔ لوگ ٹولیوں کی صورت پہاڑوں پر آتے ہیں۔ دنوں یہاں رہتے ہیں۔ توڑتے وقت بہت احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہاتھوں کو سریش جیسا مادہ لگ جاتاہے۔ جو چھٹائے نہیں چھٹتا۔ آگ کے الاؤ دہکائے جاتے ہیں۔ توڑے ہوئے خول اس میں ڈالنے سے ان کے منہ کھل جاتے ہیں اور وہ چھن چھن کرتے ہوئے چادروں پر گرتے ہیں۔ تب بہت لطف آتا ہے۔ ساری رات رقص اور گیت چلتے ہیں۔

اس وقت شام گہری ہو رہی تھی۔ گھنے جنگلات کا سلسلہ اندر ہی اندر پھیلتا چلا جاتا تھا۔ شیر، برفانی چیتوں، ریچھوں اور مارخوروں کا احساس رگ و پے میں خوف کی بجلیاں سی دوڑا رہا تھا۔ وادی کے پولو گراؤنڈ میں لڑکے والی بال کھیل کر اب گھروں کو واپس جا رہے تھے۔

گھر کے بڑے کمرے کے بیچوں بیچ آگ جلتی تھی۔ اردگرد تین فٹ چوڑے گدے بچھے ہوئے تھے۔ چولھے پر روٹیاں پکتی تھیں اور اودے اودے دھوئیں کے بادلوں نے چھت پر قبضہ جما رکھا تھا۔ میں نے آگ کے پاس بیٹھتے ہی اپنے دونوں ہاتھ جلتی لکڑیوں پر یوں پھیلائے جیسے میں انہیں بھی آگ میں جھونک دینا چاہتی ہوں۔ بڑی سی ہنڈیا چولھے کے پاس پڑی تھی۔ ڈھکنے پر رکھی ڈوئی کو جو آمیزہ چمٹا ہوا تھا وہ ہنڈیا کے اندر پکے ہوئے سالن کی کچھ کچھ نشاندہی کر رہا تھا۔ یہ بجھیا تھی۔ لکڑی کے چوکور ڈبے میں گندھے آٹے سے معمر عورت پیڑے بناتی تھی۔

روغنی ہنڈیا کے پاس پڑی پتیلی کا ڈھکن اٹھا کر گل جان نے اندر جھانکا۔ ناگواری سے نتھنے پھلائے اور بولی۔
”چنی ماں نے کیا ہند (پالک جیسی سبزی جو ذائقے میں قدرے کڑوی ہوتی ہے) پکا لیا ہے کون کھائے گا اسے۔“


دو مرد اندر آئے۔ ایک نے گرم شوقہ (چوغہ) پہن رکھا تھا۔ دوسرے نے چادر کی بکل ماری ہوئی تھی۔ ان کی شلواروں کے پائنچے کھلے کھلے اور پاؤں میں بوٹ تھے۔ میں گل جان کے کہنے پر وہاں آ کر بیٹھ گئی تھی۔ جہاں رضائیاں تہ در تہ رکھی ہوئی تھیں۔ گل جان کھانا لے کر آئی۔ دو پلیٹیں ایک میں آلو گوشت کا شوربہ اور دوسری میں ہند کی بھجیا۔ روٹیاں موٹی موٹی تھیں۔ آلو نہایت لذیذ تھے۔ بابو سر کے آلو اپنے ذائقے کے اعتبار سے بہت لذت رکھتے ہیں۔

گل جان کی سب سے چھوٹی چچی پشمہ بیگم جو قریب ہی رہتی تھیں ملنے آئیں۔ اس نے فرن (پٹو کی لمبی قمیص) پہن رکھی تھی۔ جس کے دامن اور گلے پر رنگا رنگ دھاگوں کی کڑھائی خوبصورت تھی۔ اس کی چمک دار نیلگوں غلافی آنکھوں میں عجیب سا سحر تھا۔ گھر کے مرد کھانا کھا رہے تھے۔ بڑی سی پرات کے گرد بیٹھے تھے۔ بوٹیاں ہاتھوں میں تھیں اور روٹی چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کی صورت میں شوربے میں ڈوبی ہوئی تھی۔ کھانے کا یہ عمل ایک طرح اخوت و محبت کی بہترین مثال تھی۔

گل جان کی چھوٹی بہن کو بخار تھا۔ چولھے پر جوشاندہ سا پک رہا تھا۔ معلوم ہوا تھا کہ یہاں ڈاکٹری دوائیوں کا رواج نہیں۔ بس جڑی بوٹیوں سے کام چلتا ہے۔ آرٹی میشا ایک بوٹی موسمی بخار کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔ گل جان نے چائے کا پیالہ میرے ہاتھوں میں پکڑایا اور بتایا کہ ابھی گھر کے اور چند قریبی رشتہ دار مردوں نے یہاں محفلِ شعر و سخن برپا کرنی ہے۔ حیرت سے میں نے کمرے کا جائزہ لیا۔ قیمتی بندوقیں دیواروں پر لٹکتی ضلع دیا مر کے لوگوں کی جنگجو ذہنیت کی عکاس تھیں۔ شمشیر و سناں اول یاد آیا۔ شعری نشست شنا زبان میں تھی۔ تاہم نیچے سے آنے والی مہمان کی عزت کے لیے اردو میں بھی دو غزلیں سنائیں۔

مختلف وادیوں کے شاعروں کی خوبصورت شاعری شنا زبان کا قیمتی اثاثہ ہے۔ چونکہ زبان تحریری نہیں اس لیے کلام سینہ بہ سینہ چلتا ہے اور بہت سا ضائع بھی ہوجاتا ہے۔ تاہم تخیل کی بلندی حیران کن تھی۔ تشبیہوں اور استعاروں کا جواب نہ تھا۔ بہت خوبصورت اور اعلیٰ معیار کی نظمیں، غزلیں سننے کو ملیں۔

اے میری اردو زبان شکریہ، پھلو پھولو کہ سکولوں میں پڑھنے والے بچوں اور مردوں نے قومی زبان سے اس ماحول کو میرے لیے پر لطف ہی نہیں بنایا بلکہ اپنایت سے بھی بھرا۔ وگرنہ میں تو اپنے ہی دیس میں اجنبی ہو جاتی۔ اِنہی لمحوں میں یہ بھی جانا کہ خداتخلیق کی بانٹ میں بڑا فیاض ہے۔ وہ ان پڑھ اور پس ماندہ ماحول میں بھی ہیرے پیدا کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).