شرم کرو، مسجد میں ایسے گندے سوال کرتے ہیں؟


رمضان میں آنے والا جمعہ تھا تو مسجد بھی نمازیوں سے بھرپور تھی۔ جمعے کے خطبہ کے لئے ایک خطیب صاحب کو خاص طور پر بلایا گیا تھا جو اپنی خطابت کے جوہر سے نمازیوں کو گناہوں سے بچنے کی تلقین کر رہے تھے۔ آخری لمحات پر انہوں نے بات کرتے ہوے کہا، ”اؤ مسلمانوں سنوار لو اپنے آپ کو، اپنے اندر کو، اپنے باہر کو۔ اپنے گناہوں پر شرمندگی محسوس کرتے توبہ کرو۔ جمعہ کے دن سورہ کہف کی تلاوت لازمی کرو۔ اس سے اگلے جمعے کے درمیان ہونے والے تمام صغیرہ گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔“ پھر مولانا صاحب نے ذرا وقفہ لیتے اور طنزیہ لہجہ میں فرمایا کہ مگر آج کل تو کسی کے پتا ہی نہیں گناہوں کے فرق کا۔ ابھی پوچھ لوں کسی سے تو بتا ہی نہیں پائے گا، کہ صغیرہ گناہ کون سے ہیں اور کبیرہ گناہ کون سے۔ بس لگے ہوے سب اپنی دنیا میں۔ او مسلمانوں کچھ حیا کرو، دین کو سیکھو پھر اس پر عمل کرو۔ جو نہیں پتا اس کو علماء کرام سے پوچھو۔ تا کہ آخرت سنور سکے۔

بس پھر اس کے بعد عربی میں خطبہ ہوا، جمعہ نماز ہوئی۔ لمبی سی دعا مانگی گئی۔ پھر آدھے نمازی تو مسجد کو اللہ حافظ کہہ گے اور باقی بقایا سنتوں و نوافل میں مصروف ہو گئے۔ میں بھی بقیہ نماز ادا کر کے اٹھنے لگا تو دیکھا پیچھے ایک صاحب نماز ادا کر رہے تھے، سو پھر بیٹھ کر ان کی نماز ختم ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اسی دوران مسجد میں نظر دُہرائی تو دیکھا کہ بلائے گے خاص مہمان مولانا صاحب کے ارد گرد بہت لوگ ان سے باتوں میں مصروف تھے۔

تبھی ان سے دور ایک نوجوان نے کھڑے ہو کر آواز لگائی کہ مولانا صاحب آج کے خطبے کے حوالہ سے ایک سوال ہے۔ کیا میں پوچھ سکتا ہوں؟ مولانا صاحب نے اجازت دی تو وہ نوجوان بولا کہ ”پورن فلمیں دیکھنا صغیرہ گناہ ہے یا کبیرہ؟“ لو جی یہ کیا پوچھ لیا اس کم بخت نے۔ ۔ میں دل میں ہی سوچ کر حیران ہوا۔ ادھر وہ مولانا صاحب نے بھی ایسے ظاہر کرتے کہ جیسے سوال سمجھ نہ آیا ہی پوچھا، کیا فرمایا آپ نے، ذرا آگے آ کر، ادھر آ کر پوچھ لیں۔ تب اس نوجوان نے تھوڑا آگے بڑھتے ہوے پھر کہا کہ میں نے پوچھا ہے مولانا صاحب کہ گندی فلمیں دیکھنا صغیرہ گناہ ہے یا کبیرہ؟

لو جی پھر کیا، مولانا صاحب تو ایک لمحے کے لئے گنگ رہ گئے، پھر فرمایا بھائی کچھ شرم کرو مسجد میں کھڑے ہو کر کیسے سوال کر رہے ہو۔ پوچھنا ہی ہے تو باہر نکل کر اور اکیلے میں پوچھ لو۔ ایسے سب کے سامنے پوچھنے والا سوال ہے سہی یہ؟ باقی لوگ بھی اسے ملامت کرنا شروع ہو گئے تو وہ نوجوان پھر بولا کہ مسجد صرف عبادت کے لئے ہی تو نہیں بلکہ معاملات بھی ڈسکس کر سکتے۔ آپ نے خطبے میں خود ہی فرمایا کہ جس بات کا علم نہیں اس کو پوچھ لو۔ ویسے بھی یہاں سب مرد ہی موجود ہیں تو پھر کیسی شرم؟

خیر مولانا صاحب نے بھی ذرا موقع کو سمجھتے کہا کہ اس سوال کا تعلق زنا سے ہے۔ چونکہ زنا کبیرہ گناہ ہے تو ایسی واہیات چیزیں دیکھنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔ اچھا اگر میاں اپنی بیوی کے ساتھ مل کر دیکھے تو پھر بھی کبیرہ گناہ۔ نوجوان نے ساتھ ہی اگلا سوال داغ دیا۔ مولانا صاحب نے بڑا ضبط کرتے ہوے کہا، جی ہاں تب بھی۔ ساتھ ہی انہوں نے مسجد کے متولی صاحب کو اس نوجوان کو چپ کروانے کا اشارہ کیا، مگر تب تک نوجوان پھر بول پڑا کہ میں یہ سب اس لئے پوچھ رہا کہ اگر یہ صغیرہ گناہ ہے تو چلو سورہ کہف پڑھنے سے ہی اس ہفتہ میں معاف ہو جائیں لیکن اگر کبیرہ ہیں تو اس کی توبہ کے لئے میں کیا عمل کروں؟

مگر اس سوال کے جواب ملنے تک باقی لوگوں نے اس نوجوان کو چپ کرواتے، ملامت کرتے مسجد کے ہال سے باہر لے کر چلتے بنے۔ مولانا صاحب بھی غصے میں کہ آج کل کے نوجوانوں کو کوئی شرم حیا نہیں رہی، پتا نہیں کیسی تربیت کر رہے والدین، سب آزاد میڈیا، دنیاوی تعلیم کا قصور۔ یہ، وہ اور پتا نہیں کیا کیا وہ فرماتے رہے۔ باقی لوگ بھی ان کی ہاں میں ہاں ملانے پر مصروف ہو گئے کہ یہ فلاں فرقے کا لگتا ہے، جان بوجھ کر ایسے سوال کرتا وغیرہ۔

میں بھی مسجد سے نکل کر گھر کی طرف چل پڑا مگر یہ سب سوچتے ہوئے کہ ہو سکتا ہے وہ نوجوان واقعی میں جان بوجھ کر سب کے سامنے مولانا صاحب کی ٹرولنگ کرنا چاہ رہا ہو مگر پھر بھی ایسے سوالات کا پیدا ہونا کوئی بری بات نہیں۔ ایسے سوالات کا جواب ملنا چاہیے نوجوانوں کو۔ منبر پر بیٹھنے والے کو خود کو ایسے سوالات کے لئے تیار ہونا چاہیے۔ تسلی بخش اور اچھے لہجے سے جواب دینا چاہیے نا کہ ایسے سوالات کو فحش سوال سمجھ کر ملامت کرنی چاہیے۔ پوچھنے کا انداز غلط ہو سکتا ہے مگر آج کل کے ماحول کے حوالے سے ایسے سوالات حقیقت پسندانہ ہیں۔

کیا ایسے جنسی بے راہ روی والے کاموں کے حوالہ سے مساجد میں رہنمائی کے لئے سوال و جواب کرنا یا ایسے موضوعات پر اصلاحی خطبات دینا بھی گناہ ہے؟ کیا خطبات میں آج کل کے نوجوانوں کے ذہنوں میں اٹھنے والے بولڈ سوالات کو ڈسکس نہیں کیا جا سکتا؟ نوجوان جنسی معاملات کو شرم کے مارے نہ والدین سے پوچھیں نہ کسی استاد یا مولانا صاحب سے تو پھر کس سے پوچھیں؟ گوگل سے یا کسی دوست سے جو اس کو مزید الجھا کر رکھ دے؟ زیادہ نہیں تو بندہ ذرا لائٹ موڈ رکھتے قولِ رئیسانی (ڈگری، ڈگری ہی ہوتی ہے چاہے اصلی ہو یا جعلی) کی طرح یہ جواب تو دے سکتا ہے کہ نوجوان کچھ گناہ، گناہ ہی ہوتے ہیں، چاہے صغیرہ ہوں یا کبیرہ۔ اور توبہ کا ریموور سب کو مٹا سکتا ہے۔ اس کے لئے کسی مشکل وظیفے کی ضرورت نہیں ہوتی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).