فرشتہ ہو یا مریم، احترام سب کا


خالق کائنات کے بعد نسل انسانی کی بقا کے لیے عورت کا کردار نا قابل فراموش ہے۔ عورت نہ صرف ماں کے روپ میں بے پناہ تکالیف سہہ کر نئے انسانوں کو جہان رنگ و بو میں لاتی ہے بلکہ ہر روپ میں انسانوں بشمول مردوں کے لیے آسانیاں پیدا کرتی ہے۔ لیکن ستم ظریفی دیکھیے کہ انسانوں اور خصوصا مردوں میں جب بھی مناقشہ اک حد سے بڑھتا ہے تو فریق مخالف کو نیچا دکھانے کے لئے ماں، بہن، بیٹی، بیوی یا کسی بھی ایسے رشتے کو گالی اور دشنام کا حصہ بنایا جاتا ہے جو کسی خاتون سے منسوب ہوتا ہے۔

خواتین سے معنون گالیوں کا فعل قبیح تقریبا تمام معاشروں میں پایا جاتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں خواتین کے احترام اور تکریم کی درخشاں روایات بھی پائی جاتی رہی ہیں۔ جہاں بیٹیاں سب کی سانجھی سمجھی جاتی رہی ہیں۔ قبیلوں، برادریوں کے مابین قتل تک معاف کر دیے جاتے ہیں اگر قصوروار فریق کی کوئی خاتون مقتول کے گھر معافی مانگنے آ جائے۔ اک طرف تکریم و تقدیس میں حوا کا یہ عالم ہے تو دوسری طرف کچھ عرصہ سے میدان سیاست کے نوواردوں نے تمام اخلاقی حدود پار کرتے ہوئے خواتین بارے میں نازیبا کمنٹس اور ان کے کردار پر رقیق حملوں کی رسم بد کو راہ دی ہے۔

اور ان کی دیکھا دیکھی دیگر جماعتوں کے حامی بھی جوابی حملوں میں اسی بدعت کا شکار ہو گئے۔ یوں معاشرہ عمومی طور پر اور سوشل میڈیا خصوصی طور پر تعفن زدہ ہوا۔ سیاست میں اک دوسرے کو غدار، کرپٹ ثابت کرنے اور ذاتی حملے کرنے کی روایت ہمارے ہاں پرانی ہے اور مادر ملت جیسی ہستی بھی ان بد زبانوں کی دریدہ دہنی سے محفوظ نہیں رہیں۔ لیکن آج اور تب میں فرق یہ ہے کہ تب ایسے دریدہ دہنوں کو لیڈر شپ اور عوام کی طرف سے قابل تحسین نہیں گردانا جاتا تھا۔

سماج ایسے افراد کو پذیرائی نہیں بخشتا تھا۔ لیکن باعث صد افسوس امر ہے کہ ایک نووارد سیاسی جماعت کی طرف سے شروع کی گئی اس برائی کا جواب دینے کے چکر میں دیگر جماعتیں بھی سطحیت کا شکار ہوگئیں اور ان میں بھی سوشل میڈیا سیل بن گئے جو اس بد تہذیبی میں اضافے کا باعث بنے ہیں۔ باعث تشویش امر یہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کی لیڈر شپ نے اس کا سنجیدگی سے نوٹس لے کر قلع قمع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نتیجتہََ اب کسی بھی پارٹی کی کوئی بھی لیڈر اور کارکن خواتین ان بد زبانوں سے محفوظ نہیں رہی۔

اور ذرا ذرا سی بات پر پاک باز خواتین پر تہمتیں لگائی جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو زرداری کی افطار پارٹی کے موقع پر مریم نواز کی بلاول اور حمزہ شہباز کے ساتھ تصویر پر اس بیدردی سے طنز اور طعن و تشنیع کے تیر چلایے گئے کہ وہ انداز تکلم نقل نہیں کیا جاسکتا۔ ان کے کپڑوں سے لے کرمیک اپ اور نشست و برخاست تک کا پوسٹ مارٹم کیا گیا اور بے پردگی تک کے فتوے مفتیان سوشل میڈیا نے جاری کیے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ اس مہم جوئی میں صرف مرد شامل نہ تھے تھے بلکہ خواتین بھی اس کار بد میں بڑھ چڑھ کر شریک تھیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہم نے اس بد تہذیبی سے اس افطار ڈنر کی سیاسی اہمیت کو کم کر لیا ہو لیکن اس طرح سے کیا ہم اپنی نصف ابادی کو قومی منظرنامہ سے نکال باہر تو نہیں کر رہے؟ کیا اک وقتی سیاسی فائدے کے لیے ہم قومی نقصان تو نہیں کر رہے؟

خواتین بارے اس دریدہ دہنی اور بد تہذیبی کے معاشرے پر اثرات دیکھنے ہوں تو راولپنڈی کے اس سانحے کو یاد کر لیجیے جس میں پولیس کے چار جوانوں نے اک طالبہ کی زبردستی بے حرمتی کی اور بقول سی ٹی او صاحب ملزمان کے چہرے پر ندامت کا شائبہ تک نہیں تھا۔ پرسوں پرلے روز ننھی جان پرعذاب جھیل کر دار الحکومت کے جنگل میں بے کسی کی موت مرنے والی فرشتہ بھی خواتین کی تکریم سے عاری شیطانوں کی ہوس کا شکار ہوئی۔ خواتین بارے ہماری اسی بے حسی کی وجہ سے روز بنت حوا پا مال ہوتی ہے۔

سفاکی کی حد تو یہ ہے کہ سیاسی مخالف کی بیماری پر بھی طنز کے نشتر چلائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ مرحومہ کلثوم نواز کے معاملے میں کیا گیا اور میاں نواز شریف کی بیماری کو لے کر کیا جا رہا ہے۔ بحیثیت قوم سر شرم سے اس وقت جھک گیا جب گزشتہ دنوں قمر زمان کائرہ صاحب کے جواں سال لخت جگر کی ٹریفک حادثے میں رحلت پر کچھ ذہنی مریضوں نے اپنی اخلاقی و ذہنی پسماندگی کا ثبوت دیتے ہوئے سوشل میڈیا پر ایسے کمنٹس دیے جو کم ازکم الفاظ میں غیر انسانی حرکت تھی۔

لیکن مجال ہے کہ اس جماعت کی لیڈر شپ کی طرف سے اس فعل قبیح کی مذمت کی گئی ہو۔ یا کسی کارکن کی گو شمالی کی گئی ہو۔ ویسے جس جماعت کا وزیر اعظم اور وزرا کرام مخالفین کو چور ڈاکو سے کم الفاظ سے یاد نہ کرتے ہوں ان کے کارکن تو پھر گالی ہی دیں گے۔ ہمارے اخلاقی وجود میں سرایت کر ٹی ہوئی یہ بیماری کوئی نیک شگون نہیں اور ہمارا مین سڑیم میڈیا بھی اس اندھے اور عقل و خرد سے عاری بے رحم پروپیگنڈے کے لیے استعمال ہوا ہے۔

اگر ہم نے اس بد زبانی کے سیلاب کے سامنے بند نہ باندھا تو اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے آج اگر کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی تو کل ہم ایک دوسرے کا گریبان چاک کریں گے۔ کیونکہ سیاسی اور نظریاتی اختلاف تو انسانی جبلت کا خاصہ ہے اور سماج میں موجود رہے گا۔ اگر ہم اختلاف رائے کو ذاتی اختلاف سے جدا نہ کر سکے اور اظہار اختلاف کو تہذیب کے پیرائے میں نہ ڈھال سکے تو خاکم بدہن ہم سول وار کی طرف بھی جا سکتے ہیں جہاں ہر سیاسی گروہ اپنے موقف کی ترویج کے لیے قوت بازو کو بروئے کار لانا شروع کردے۔

حالات کے اس نہج تک پہنچنے سے پہلے ہی تمام سیاسی اور سماجی قوتوں کو یکجا ہوکر اختلافی اخلاقیات کا ایک کم ازکم معیار متعین کر کے اس پر سختی سے کار بند ہو جانا چاہیے۔ یہی پرامن بقائے باہمی کا واحد راستہ ہے۔ اور اس سماج کی فرشتہ مہمند اور مریم نواز کی تکریم بحال کرنے کی واحد سبیل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).