مودی کی کامیابی۔ خدا کرے وہ کچھ نہ ہو


یرا یہ کالم چھپنے تک بھارتی انتخابات کے حتمی نتائج آچکے ہوں گے۔ ان کے باقاعدہ اعلان سے قبل ’’تجزیاتی کالم‘‘ لکھنا حماقت ہو گی۔ ذہنی طور پر اگرچہ میں مودی کا وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر لوٹنا کئی ہفتوں سے یقینی سمجھ رہا ہوں۔ اب سوال فقط یہ ہے کہ وہ کس نوعیت کی اکثریت حاصل کرے گا۔ اگر یہ اکثریت 2014کے مقابلے میں خاطر خواہ انداز میں بڑھی تو مودی کا رویہ مزید انتہاپسندانہ ہوجائے گا۔

ممکنہ انتہاء پسندی کا فوری اظہار ہمیں پاک-بھارت تعلقات کے حوالے سے شاید نظر نہ آئے۔ بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے لئے مگر یہ ناقابل برداشت ہونا شروع ہوجائے گا۔ ایسا ہوا تو کئی علاقوں میں ہندومسلم فسادات پھوٹ سکتے ہیں۔یوپی کی نیچی ذاتوں کی نمائندہ جماعتیں بھی شاید اسے ہضم نہ کر پائیں گی۔ان کی جانب سے مزاحمتی تحریک مودی سرکار کے دوسرے دور کے آغاز ہی میں شروع ہوسکتی ہے۔

بنگال کی ممتابنیر جی بھی مزید طاقت ور ہوئے مودی کو برداشت نہیں کر پائے گی۔ بھارتی انتخابات کے آخری مراحل میں اس کے صوبے میں BJPاور ممتا کی بنائی کانگریس کے درمیان جھگڑے ہوئے۔اپنے کارکنوں کی حمایت میں ممتا سرکاری تام جھام کے بغیر سڑکوں اور محلوں میں پیدل چلتی نظر آئی۔ مزید فسادات کے خوف سے بھارتی الیکشن کمیشن نے آخری دو دنوں میں جلسے جلوسوں پر پابندی عائد کردی۔ اگرچہ اس سے ایک روز قبل ہی بھارتی وزیر اعظم وہاں ہوئے جلسوں میں آتش بیانی میں مصروف رہا تھا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے لگائی پابندی کی جارحانہ مذمت کے بعد ممتا بنیرجی نے ممکنہ دھاندلی کی فضا بنانا شروع کردی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ ووٹ ڈالنے کے لئے مہیا ہوئی مشینیں EVMمستند نہیں ہیں۔ ان سے ’’چھیڑچھاڑ‘‘ ہوئی ہے۔ راہول گاندھی کی جماعت بھی یہ الزام لگانا شروع ہوگئی ہے۔

مجھے خدشہ ہے کہ مکمل انتخابی نتائج کا اعلان ہونے کے بعد اگر مودی کی جماعت 2014کے انتخابات سے کہیں بڑھ کر کامیابی حاصل کرتی نظر آئی تو مودی مخالف جماعتیں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے احتجاجی تحریک کی جانب مائل ہوسکتی ہے۔ ایسا ہوا تو جیت کے زعم سے سرشارBJPکے کارکن گلی محلوں میں اپنے مخالفین کو طاقت کے بل پر دبانے کی کوشش کریں گے۔ آبادی کے اعتبار سے ’’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت‘‘ کے انتخابی نظام کی ساکھ اس صورت برقرار نہ رہ پائے گی۔بھارت کے مختلف صوبوں میں سیاسی عدم استحکام نمایاں ہونا شروع ہوجائے گا۔

ایک عام پاکستانی ہوتے ہوئے میں پورے خلوص سے اس خواہش کا اظہار کررہا ہوں کہ وہ نہ ہو جس کا مجھے خدشہ ہے۔بھارتی انتخابات کی ساکھ پر سنگین سوالات اُٹھ کھڑے ہوئے اور ان کی وجہ سے احتجاجی تحریکوں کی لہربھڑک اُٹھی تو مودی ’’قومی یکجہتی‘‘ کا تقاضہ کرنے کے لئے پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھانے کو مجبور ہوگا۔ یہ کشیدگی پلوامہ واقعہ کے بعد ہوئی کشیدگی سے بھی سنگین ترہوسکتی ہے۔

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ بھارتی امور پر نگاہ رکھنے والے پاکستانی ادارے انتخابی نتائج آجانے کے بعد کس منظر کی توقع کررہے ہیں۔چند متحرک رپورٹروں سے گفتگو کے بعد اگرچہ یہ سوچنے کو مائل ہوا کہ ہمارے ریاستی ادارے اور وزیر اعظم باہم مل کر یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ واضح اکثریت سے بھارتی وزیراعظم کے دفتر لوٹ آنے کے بعد نریندرمودی پاکستان کے ساتھ اپنے رویے میں کچھ نرمی لائے گا۔

چند بھارتی صحافیوں سے Whatsapp کی بدولت معلوم ہوا ہے کہ نریندر مودی کو اپنی فتح کا اتنا یقین ہے کہ نجومیوں سے رجوع کرنے کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ وہ 26مئی 2019کے روز اپنے عہدے کا حلف اٹھالے۔ اس روز اگرچہ اتوار کی چٹھی ہو گی۔ نجومیوں نے مگر بتایا ہے کہ 8 کا عدد مودی کے لئے بہت ’’شبھ‘‘ ہوتا ہے اور 26 مئی غالباََ 8 بناتا ہے۔

علم الاعداد کی مجھے ککھ خبر نہیں۔ بھارت سے 26مئی کی اطلاع سن کر فقط مسکرا دیا۔ ویسے بھی اہم بات یہ نہیں کہ وہ کس روز اپنے عہدے کا حلف اٹھائے گا۔اہم ترین وہ تقریر ہوگی جو عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد وہ کر سکتا ہے۔

26 مئی کی تاریخ پر غور کرنے کو مگر اس لئے مجبور ہوا کیونکہ گزشتہ انتخاب جیتنے کے بعد مودی نے سارک کانفرنس کے سربراہان کو اپنی حلف برادری کی تقریب میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ سابق وزیراعظم نواز شریف تمام تر مخالفت کے باوجود اس تقریب میں شریک ہوئے۔ ان کے بھارت میں مختصر قیام کے دوران کچھ ایسی کہانیاں بھی پھیلیں جنہوں نے تاثر دیا کہ بجائے ’’سرکاری امور‘‘ پر توجہ دینے کے وہ شریف خاندان کے ممکنہ ’’کاروباری شراکت داروں‘‘ سے ملاقاتیں کرتے رہے۔

ایک ریٹائرڈ رپورٹر کے طورپر میں یہ جاننا چاہ رہا ہوں کہ نریندرمودی اس بار بھی سارک ممالک کے سربراہان کو اپنی تقریبِ حلف برادری میں شرکت کی دعوت دے گا یا نہیں۔ بھارت سے ’’ہاں‘‘ کے اشارے نہیں ملے۔ سفارت کاری میں لیکن بہت کچھ خاموشی سے بھی ہوتا ہے۔

مودی کو اگر اپنی جیت کا یقین ہے اور اس نے حلف برادری کی تقریب 26مئی کے لئے طے کردی ہے تو کسی نہ کسی بیک ڈور چینل سے پاکستان سے اب تک یہ ضرور معلوم کرلیا جاتا کہ ہمارے وزیراعظم مودی کی تقریبِ حلف برادری میں شرکت کے لئے آمادہ ہیں یا نہیں۔ جو رپورٹر دوست پاکستانی وزیراعظم کے دفتر سے اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کی وجہ سے رابطے میں رہتے ہیں وہ جمعرات کی صبح تک ایسے کسی رابطے کے بارے میں آگاہ نہیں تھے۔میرے اصرار پر ایک نوجوان رپورٹر نے وزارتِ خارجہ میں موجود اپنے ’’ذرائع‘‘ سے رابطے کے بعد بھی اس ضمن میں ’’ہاں‘‘کی رپورٹ نہیں دی۔

وزیراعظم کے منصب پر لوٹنے کے بعد اگر مودی نے پاکستان کے ساتھ کچھ نرم روی اپنانی ہے تو آئندہ مہینے کی تیرہ اور چودہ تاریخ کو کرغزستان کے شہر بشکیک میں شنگھائی کواپریشن آرگنائزیشن(SCO) کی Summit بہت اہم ہوجائے گی۔ پاکستان اور بھارت اس تنظیم کے باقاعدہ رکن ہیں۔ان دو ممالک کے وزرائے اعظم کی موجودگی اس Summit میں یقینی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے مابین معاملات کو بہتر بنانے کیلئے بشکیک میں مودی-عمران ملاقات ضروری تصور ہوگی۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).