مودی کی جیت پر ایک ہندوستانی کے جذبات



کون جیتا اور کون ہارا ایسے بھی ہم کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہونے والا ہے۔ پہلے بھی ہم جیسے جیتے تھے۔ ہمارے پہلے والے جیسے جیتے تھے، آگے بھی جیتتے رہیں گے۔ ہم جیسے لاکھوں نوجوان سماج میں اپنی جگہ بنانے کی جدوجہد سے ہر روز نبردآزما ہوتے ہیں۔ اگر آج تک جتنے بھی امتحانات دیے ہیں، اس کے مطابق خود کو پڑھا لکھا تسلیم کرلیا جائے، تب ہمیں یہ سوال کس سے کرنا چاہیے؟ کس سے اس  ضمن میں عام و خاص کی زبان میں دریافت کرنا چاہیے کہ اگر حکومت نے بچپن سے ہم پر کئی ہزار روپے پھونک دیے، اس کے بعد بھی ہم کیوں خود کو کہیں کھڑا نہیں کر پا رہے ہیں؟

ملک کی راجدھانی کی اس یونیورسٹی سے اچھے نمبروں سے کامیابی حاصل کرنے کے باوجود۔ ہم پس منظر میں کہیں نہیں ہیں۔ یہاں سے پڑھنے کا خواب کم سے کم جنوبی ہند میں تو دیکھے ہی جاتے ہیں۔ اگر اس طرح انسانی وسائل کی فراہمی میں ہم لوگوں پر عام لوگوں کا سرمایہ ضائع ہوتا رہا، تب ہمیں ایسے ان فٹ، بے کار اور نکما بنائے رکھنے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟ یہ ذمے داری ہم خود ڈھوئیں یا ہمیں کم نوکریوں والے ملک میں نوکری نہ ملنے کے لیے ہی گھڑا گیا ہے؟ لگتا تھا ہم اس لیے پڑھ لکھ رہے ہیں کیوں کہ تعلیم یافتہ ہو جانے کے بعد نوکری لگے گی۔ نہیں پتا تھا کہ پڑھنا اور ملازمت حاصل کر لینا ایک ہی سکے کے دو رُخ کبھی نہیں رہے۔ شاید یہ نکتہ نظر غلط تھا۔

اقتصاد کی دلیل اتنی ہی بے کار ہیں اور ان کا مطلب صرف کچھ ہی خاص اداروں میں آمدنی، نقصان اور پورے سال میں کامیاب گھریلو اشیا کی شرح سے زیادہ نہیں ہے۔ ہم تو ا س نظریے میں کہیں سے بھی فِٹ نہیں ہو پائے۔ ہمیں باہر پھینکا نہیں گیا، اس کی سبک رفتاری نے خود ہی ہمیں باہر کر دیا۔ ایسے ہوتے جانے میں خود ہماری حصے داری ہے۔ ہمیں نہیں معلوم، پھر بھی اس صورت احوال کا الزام، ہم اپنے اوپر سب سے زیادہ لیتے ہیں۔ لینا پڑتا ہے۔ ہماری ان سالوں میں لگاتار ایسے ہونے کی ایک قیمت قائم ہو چکی ہے، مگر اس حقیقت کو مان لینا اور بھی زیادہ خطرناک ہے۔

اٹھائیس سال کی عمر میں کسی بھی امتحان کے ہو جانے کے بعد نتیجوں کا انتظار کرنا، لاٹری کا ٹکٹ خریدنے کے بعد انعامی نمبر لگ جانے والے جوئے کی طرح ہے۔ یہ بالکل کسی فلم کی ابتدا میں دکھائی جانے والے ڈس کلیمر کی طرح ہو گیا ہے، جس کا ہماری ضرورت یا کام کی نوعیت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ بس ان سب کو صرف اعتماد بناتے رہنا ہے۔ ان سب کے درمیان ہم لگاتار ”مس فِٹ“ ہوتے جا رہے ہیں۔ کسی ایسی مشین کے پرزے کی طرح جو کسی کاریگر نے غلط اوزار اٹھا کر غلطی سے بنا دیے۔ اب بن گئے ہیں تو آلے پر رکھے پڑے ہیں۔ کنارے۔ ہم شاید وہ پہلے پرزے ہیں جو اس مشین میں لگیں گے جو کبھی نہیں چلنے والی ہے۔

اس نکتے پر آکر بار بار اپنے بے حس ہونے کا احساس گھیرے تو اس میں ہم کہاں سے غلط ہیں؟ یہ سارے عوامل ہمیں باہر کھدیڑ رہے ہیں۔ جب کہ مجھے نہیں معلوم یہ ساری بحث اپنے اندر سارے سوالوں کے جواب تلاش کر پائے گی۔ اس کے ممکنات دور دور کہیں نظرنہیں آتے، لگتا ان سوالوں کی فہرست کو بس یوں ہی کوئی آرکائیو میں، اہم سوال مان کر اس کے مسودے کو ابھی سے محفوظ کرنے کے طریقہ کار پر، بڑے بڑے پروگرام منعقد کیے جائیں گے۔ دوسری طرف ہم اور ہمارے جیسے ان گنت نوجوان چھوٹی موٹی ملازمت میں کھپنے کے خیال سے بھر جائیں گے۔

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد علم اللہ جامعہ ملیہ، دہلی

محمد علم اللہ نوجوان قلم کار اور صحافی ہیں۔ ان کا تعلق رانچی جھارکھنڈ بھارت سے ہے۔ انہوں نے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے تاریخ اور ثقافت میں گریجویشن اور ماس کمیونیکیشن میں پوسٹ گریجویشن کیا ہے۔ فی الحال وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ’ڈاکٹر کے آر نارائنن سینٹر فار دلت اینڈ مائنارٹیز اسٹڈیز‘ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا دونوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے دلچسپ کالم لکھے اور عمدہ تراجم بھی کیے۔ الیکٹرانک میڈیا میں انھوں نے آل انڈیا ریڈیو کے علاوہ راموجی فلم سٹی (حیدرآباد ای ٹی وی اردو) میں سینئر کاپی ایڈیٹر کے طور پر کام کیا، وہ دستاویزی فلموں کا بھی تجربہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے نظمیں، سفرنامے اور کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ کئی سالوں تک جامعہ ملیہ اسلامیہ میں میڈیا کنسلٹنٹ کے طور پر بھی اپنی خدمات دے چکے ہیں۔ ان کی دو کتابیں ”مسلم مجلس مشاورت ایک مختصر تاریخ“ اور ”کچھ دن ایران میں“ منظر عام پر آ چکی ہیں۔

muhammad-alamullah has 168 posts and counting.See all posts by muhammad-alamullah