چیئرمین نیب کی رخصتی کا گجر بج چکا!


اگر راقم الحروف مکافاتِ عمل اور جیسی کرنی ویسی بھرنی جیسے مقولوں پر کما حقہ یقین رکھتا ہوتا تو آج ببانگ دہل چئیرمین نیب کے مبینہ سکینڈل پر یہ نعرہ بلند کرتا کہ کارسازِ قضا و قدرت کی طرف سے ن لیگ کو ہر جمعے عدالتوں میں ذلیل و خوار کرنے والے کا اپنا یوم حساب جمعہ ہی مقرر کیا گیا ہے اور جمعہ بھی رمضان البارک کا۔ مخالفین کا سر سے پاؤں تک احتساب کرنے والا ایک خاتون کو سر سے پاؤں تک چومنے کی خواہش کا برملا اظہار کرنے پر آخر کار پکڑ میں آ ہی آگیا۔

تیسرے درجے کے نجی ٹی وی چینل کے کارپردازان میں اتنی جرات کہاں کہ وہ معمول کی نشریات روک کر فوراً چئیرمین نیب کی ”رنگ رلیوں“ کے حوالے سے بریکنگ نیوز نشر کرنا شروع کردے۔ چینل بھی وہ کہ جس کے مالک کو محض ایک دن قبل جناب وزیر اعظم نے آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے حوالے سے اختلافِ رائے رکھنے پر مشیر کے عہدے سے فارغ کر دیا ہے۔ نرم سے نرم لفظوں میں بھی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ثاقب نثار، خادم رضوی کے بعد چئیرمین نیب تیسرے ٹیشو پیپر ہیں جنہیں یوز بلکہ مس یوز کے بعد مکھن سے بال کی طرح نکال باہر کر دیا گیا۔

تخلیق کار کاروبار کے ساتھ ساتھ کاروبارِ حکومت بھی منظم و مربوط انداز سے چلانے لگے ہیں۔ چئیرمین صاحب نے جاوید چودھری کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو کے حوالے سے ابھی حکمران جماعت کا سر سے پاؤں تک احتساب کرنے کا ہلکا سا عندیہ ہی دیا تھا کہ تخلیق کاروں نے اپنے مہروں کے ساتھ مل کر چئیرمین کے خلاف کامیاب چال چلنے میں پہل کر لی۔ ایسے معاملات میں ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ سو چئیرمین صاحب اور ان کے حواری اب سانپ گزرنے کے بعد جتنی مرضی لکیر پیٹیں، تخیلق کاروں نے جو حاصل کرنا تھا لمحے بھر میں حاصل کرلیا۔

ایک شخص راتوں رات ہیرو سے زیرو ہو گیا اور سب دیکھتے رہ گئے۔ چئیرمین صاحب کے اس انجام سے یہ اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں کہ تخلیق کاروں نے نواز شریف کے خلاف کس قدر منظم اور بھرپور انداز سے مہم چلائی ہو گی۔ ایسے چشم کشا واقعات سے یہ غلط فہمی دور ہوتی جا رہی ہے کہ نواز شریف کو ملنے والی سزا ان کے جرائم کا شاخسانہ ہے۔

اس سکینڈل کے بعد چئیرمین صاحب اگر اچھے اور فرمانبردار بچے کی طرح خود ہی کنارہ کشی اختیارکر لیتے ہیں تو ان کے لیے بہتر ہو گا۔ اس کے برعکس اگر وہ نئے پاکستان کے ٹھیکیداروں سے دو بدو جنگ کرنے اور مزاحمت کرنے کے موڈ میں ہیں تو یہ کام ان کے لیے اس لیے مفید نہیں ہوگا کیونکہ لوحِ مقتدرہ پر ان کا جانا ٹھہر چکا ہے۔ باخبر صحافی اور تجزیہ نگار کی یہ پیش گوئی ابھی فضاؤں میں ہی تھی کہ کپتان نے اپنے دوست کو نیب کا ڈپٹی چئیرمین لگوا دیا ہے اور اب بہت جلد چئیرمین صاحب سے جان چھڑانے والے ہیں کہ یہ مبینہ ویڈیو منظر عام پر آ گئی۔

یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ بات بات پر نیب کا دفاع کرنے والے حکومتی برزجمہر آج کسی خفیہ اشارے پر دم سادھے بیٹھے ہیں۔ ویڈیو کے حوالے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہ موسم سرما میں بنائی گئی تھی مگر منظر عام پر اب لائی گئی ہے۔ سیاست اور اقتدار کے کھیل میں بر محل ٹائمنگ سب سے اہم ہوتی ہے۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ امریکی فوج نے صدام حسین کی گرفتاری شو کرنے سے تقریباً چھ ماہ پہلے اسے پکڑ لیا تھا۔ کیونکہ گرفتاری کے وقت صدام کا اعلانِ گرفتاری عالمی سیاسی منظر نامے پر کوئی زیادہ تلاطم برپا نہیں کرسکتا تھا اس لیے یہ اعلان مؤخر کیا گیا تھا۔

بہر حال کچھ لوگوں کے نزدیک بڑے عہدوں پر متمکن افراد کی اس طرح کی حرکات و سکنات معمولی واقعات سمجھے جاتے ہیں کیونکہ ایسے مناصب پر بیٹھنے والے ہوتے تو گوشت پوست کے انسان ہی ہیں جن کے سینے میں بھی ایک حساس اور پیار کرنے والا دل دھڑک رہا ہوتا ہے۔ موقع بھی ہو، صحت بھی اچھی ہو، منصب کا غرور بھی ہو، دستور بھی ہو، رسمِ دنیا کے ساتھ شبِ مہتاب یا روزِ ابر بھی ہو اور کسی سیمیں بدن کافر حسینہ کا ساتھ میسر آ جائے تو بڑے بڑے پارساؤں کے بھٹک جانے کا خطرہ ہوتا ہے کیونکہ انسان کے مزاج میں حسن کا احساس سب سے زیادہ توانا ہوتا ہے اور یہ حسن اگر صنف نازک کی صورت میں ہو تو برف کی قاش میں بھی آگ لگ جاتی ہے یہ تو خیر وجیہہ و شکیل چئیرمین نیب تھے جو سراپا حسن پرست ہیں۔ اکبر الہ آبادی بھی اسی لیے یہ کہہ گئے ہیں کہ

جب یہ صورت تھی توممکن تھا کہ اک برق بلا

دستِ سیمیں کو بڑھاتی اور میں کہتا دور باش

تخلیق کاروں اور بادشاہ گروں نے ایک تیر سے کئی شکار کیے ہیں۔ ایک عورت کو گلے لگانا اگر چئیرمین صاحب کو گلے پڑ گیا ہے تو کٹھ پتلی وزیراعظم کے حوالے سے تو ان کے پاس اس سلسلے کی کئی رنگین اور نمکین مسالے موجود ہیں۔ چئیرمین صاحب جس کتاب کی ایک رنگین سطر پر ہیرو سے زیرو ہو چکے ہیں ہمارے کپتان تو ایسی کئی کتابوں کے بہ نفسِ نفیس منصف ہیں۔ کٹھ پتلی تو وہ پہلے ہی تھے دیکھتے ہیں تخلیق کاروں کے اس نئے وار اور حیرت انگیز چال سے وہ فرماں برداری اور جی حضوری کی کس سطح پر اترتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).