قصور وار بکری کے بچے ہیں یا بھیڑیے


بچپن میں اماں ہم بہن بھائیوں کو بکری کے بچوں کی حکایت سناتیں۔ جس میں ایک بکری بازار جانے سے قبل، بھیڑیے کے خوف سے، اپنے بچوں کو دروازہ نہ کھولنے کی بار ہا نصیحت کرتی اور اس کے جاتے ہی بھیڑیا دروازے پر وارد ہو جاتا۔ وہ بچوں کو حیلے بہانے سے دروازہ کھولنے پر اُکساتا۔ کبھی ان کی ماں کی نقل اتارتا تو کبھی کوئی چال چلتا، پر سمجھ دار بچے فوراً ہی تاڑ جاتے اور دروازہ کھولنے سے انکاری ہو جاتے۔ کہانی کا سب سے دکھی کر دینے والا حصہ وہ ہوتا، جب بکری کے بچے بھیڑیے کے مکر و فریب میں گرفتار ہو جاتے اور اپنی ماں کی سی مماثلت رکھنے والی آواز پر دروازہ کھول بیٹھتے اور بھڑئیے کا نوالہ ٔ شکم بن جاتے۔

ہم سب منہ بسور کر کہانی کے اختتام پر ایک دوسرے سے کہتے ؛ سارا قصور بکری کے بچوں کا ہے جو نہ دروازہ کھولتے اور نہ مارے جاتے، تب اماں پیچھے سے چپت لگاتیں اور پوچھتیں : اور بھیڑیا؟ اُس کا کوئی دوش نہیں؟ ہم عذر تراشتے : ’ہے نا! پر بکری کے بچوں کا دوش زیادہ ہے! انھوں نے دروازہ کھولا ہی کیوں؟ ‘

آج اتنے سالوں بعد اس حکایت کو یاد کر کے دو باتیں سمجھ آتی ہیں۔ ایک اماں کا وہ خوف جو معاشرے کے نازیبا حالات و واقعات پر، لاشعوری طور پر ان کے دل میں پیدا ہوتا ہوگا۔ دوسری ہماری وہ عمومی رائے، جس میں تب سے اب تک ہر قسم کی ستم ظریفی پر قصور وار مظلوم کو ہی ٹھہرایا جاتا ہے۔ میں سوچتی ہوں ظالم کیسی دیدہ دلیری سے کہانی سے نکل جاتا ہے کہ جیسے حق تلفی کا حق بھی اسے پورا حاصل ہوا ہو۔

بات کو زینب سے ہی کیوں شروع کریں؟ ان بہت سے معصوم بچوں سے شروع کیوں نہ کریں، جن کا قصور ایک جنسی گھٹن زدہ معاشرے میں پیدا ہونا ہے۔ جہاں لوگ اپنے بچوں کے چہرے دیکھ کر خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان پر کسی درندے کی نگاہ نہ پڑ جائے۔ جہاں بچوں کو گھر سے باہر بھی اتنا ہی خطرہ رہتا ہے جتنا گھر کے اندر۔ کس کا اعتبا ر کریں اور کس سے بچائیں؟ کون فرشتہ اور کون شیطان؟ ایک ایسی ریاست جہاں بچے غیر محفوظ اور بھیڑیے آزاد ہوں وہاں ایسے ایک سانحے سے دوسرے سانحے تک کا وقفہ، محض دو تصاویر ہیں۔ ایک وہ جس میں وہ بچہ اپنی من موہنی صورت سے، زندگی کی بھرپور خوشیوں اورمسکراتی آنکھوں سے دل میں اترتاجاتا ہے جبکہ دوسری وہ جس میں اس کا نوچا ہوا پائمال جسم ایک سوختہ و بریدہ لاش کی صورت اور حسرت سے ادھ کھلی شکوہ کناں آنکھیں، ذہن سے مٹائے نہیں مٹتیں، تو پھر آپ ہی بتائیں کہ بات کو ننھی فرشتہ پر ہی کیسے ختم کیا جا سکتا ہے؟ کہ یاں توسنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد۔

ناصحین آپ کو کوچۂ عدل کی راہ دکھاتے ہیں پر جب ایوانِ عدل کی زنجیر ہلائیں تو سانحہ ساہیوال کے بلکتے بچوں کی تصاویر، تاخیرِ عدل پر سوال اٹھاتی ہیں۔ اس سے نظریں چرا بھی لیں تو ملکی سالمیت کو درپیش خطرات، معیشیت کا عدم استحکام اور قرضہ جات کی کہانیوں سے لے کر نیب کے قصوں تک سوائے دھول کے کچھ نہیں ملتا، اور یہ وہ دھول ہے جو ایسے کئی دردناک سانحات پر چھا کر، ہمیں اندھیر نگری کے معنی سمجھاتی ہے۔ صالحین ایسے واقعات پرآپ کو حیاء کا درس دیتے ہیں تو کوئی ان سے یہ نہیں پوچھتا کہ حیاء ان ننھے بچوں کے لیے ہو یا ان درندوں کے لیے کہ جن کے قبیح افعال کا ایسے نادر موضوعات سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ کچھ ایسے کج فہم ناقدین اور ان کے مقلدین بھی ہیں جو بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے ایسے اندوہناک واقعات میں دوش، خود انہی کا قرار دیتے ہیں کہ جیسے وہ اسی سلوک کے رودار تھے۔

خواتین اوربچے کسی بھی ریاست کی اولین ترجیح ہوتے ہیں۔ ان کی عزت، حفاظت اور فلاح ہر چیز پر مقدم ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس تواتر سے ہم نے، ان دردناک سانحات میں، کچرے کے ڈھیروں سے اپنے بچوں کی بوسیدہ لاشیں اٹھائی ہیں، انھیں کاندھا دیا ہے اور ان کے دکھوں سے اپنے زخمی دل کو چھلنی کیا ہے، تواس ضمن میں وہ کون سے اقدامات یا قوانین ہیں جو ریاست نے ہمارے ان ننھے فرشتوں کی فلاح اور حفاظت کے لیے تشکیل دیے؟ آیا کہ دنیا بھر میں سبھی بچے، کیا اتنے ہی غیر محفوظ ہیں کہ جتنا کہ وطنِ عزیز میں؟ کیا سبھی ماں باپ اتنا ہی بڑا ظرف رکھتے ہیں کہ اپنے نازوں پلے ننھے فرشتوں کو، یوں ان بھیڑیوں کے ہاتھوں گنوا سکیں؟ اگر نہیں تو پھر ہمیں اس اذیت نا سلسلے کو، اب اور مزید کہاں تک برداشت کرنا ہے؟

یاد رکھیں! غیر مہذب اور جنسی گھٹن زدہ قومیں، جن میں سماجی اور معاشرتی تربیت کا شدید فقدان ہو، جن کے شر سے نہ ان کے اپنے بچے محفوظ ہوں نہ خواتین، وہاں بکری کے بچوں اور بھیڑیے کی حکایت میں، ہمیشہ غلطی بکری کے بچوں کے سر ہی ہوا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).