پاکستان کے سیاسی ڈرامے میں کامیڈی رومانس


پاکستان کی سیاست کسی اچھی جاسوسی کہانی کی طرح ہے کہ اس کا ہر کردار دو چہرے رکھتا ہے اور کہانی کے جتنے پرت کھلتے ہیں اس سے زیادہ گرہیں ڈال دی جاتی ہیں۔ کہانی کے آخر میں قاری پھر سے اسی موڑ پر کھڑا ہوتا ہے کہ اس کا تجسس عروج پر اور کہانی کا اصل ہیرو گمنام رہتا ہے۔

 البتہ جاسوسی کہانی اور پاکستانی سیاست میں ایک بنیادی فرق ہے ۔ کہانی کاہیرو ناکامیوں کے بعد کہیں نہ کہیں کامیاب ہوجاتا ہے۔ کہانی کے اختتام تک ولن یا اس کے ہرکاروں تک پہنچ کر قاری کو کسی نہ کسی حد تک مطمئن اور خوش بھی کردیتا ہے۔ اگرچہ تجسس کا سلسلسہ اگلی سیریز یا ناول تک کے لئے دارز ہو جاتا ہے لیکن کہانی کا قاری اپنے ہیرو کو مکمل طور سے ناکام و نامراد دیکھنے کے کرب سے محفوظ رہتا ہے۔

اس کے برعکس پاکستانی سیاست اینٹی ہیرو منظر نامے پر کھڑی ہوتی ہے۔ یہاں ہیرو کہانی کے دوران بھی پٹتا ہے اور کہانی کا انجام بھی ہیرو کو زیرو ثابت کرنے پر ہوتا ہے۔ البتہ پاکستانی کہانی کے ایسے ہی کسی زیرو کی خاک سے کہانی کے نئے باب کا منظرنامہ لکھا جاتا ہے۔ کہانی کار البتہ بوقت ضرورت نئے ہیرو بھی تراشتا رہتا ہے جبکہ زیرو ہوجانے والے ہیرو بھی پھر سے کہانی کا اہم جزو بننے کے لئے کرتب دکھاتے رہتے ہیں۔ کچھ کامیاب ہوجاتے ہیں ، باقی ناکامی کے ساتھ اپنی حسرتوں پر آنسو بہاتے رہتے ہیں کیوں کہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہانی کے کردا ر سوتے نہیں ہیں۔ جاری سیاسی ڈرامے میں مستقل مایوسی اور گریہ و زاری کا کام عوام یعنی ملک کے عام شہریوں کو سونپا جاتا ہے۔ کہانی کا قاری اگر لطف اندوز نہ ہو تو مایوس ہو کر کتاب بند کرسکتا ہے لیکن سیاسی ڈرامے کے اہم ترین کردار کے طور پر عوام کو کہانی سے علیحدہ ہونے کا آپشن حاصل نہیں ہوتا۔ قوم کی بہبود کا سارا بوجھ انہی کے ناتواں کاندھوں پر لدا رہتا ہے۔

ہمارے عہد کی سیاسی کہانی کا ایک منظر نامہ حکومت وقت آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر لکھنے میں مصروف ہے ۔ تاکہ وہ چند روز کے اندر اپنا پہلا بجٹ پیش کرسکے۔ اس بجٹ کی تیاری سے پہلے پیش آنے والی مشکلات کو سابقہ ہیروز یعنی حکومتوں کی سازشیں اور بے ایمانیاں قرار دے کر ہمدردی حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاچکی ہے۔ لیکن بجٹ پیش کرتے ہوئے تحریک انصاف کی حکومت کو سار بوجھ خود ہی اٹھانا ہوگا۔ اسے بتانا ہوگا کہ وہ ان خوابوں کی تعبیر کیسے تلاش کرپائے گی جو گزشتہ پانچ برس کے دوران عمران خان کی قیادت میں شدت سے اس قوم کو بیچے گئے تھے۔

 کچھ خواب تو یو ٹرن یعنی مؤقف تبدیل کرلینے کو بڑے لیڈر کی شان بتاتے ہوئے پہلے ہی توڑے جاچکے ہیں لیکن کچھ باتیں ایسی ہیں کہ ان میں کسی تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ گھر میں چولہا جلانے کے لئے راشن، روشنی کرنے کے لئے بجلی اور کھانا بنانے کے لئے گیس کی بہر حال ضرورت ہوگی۔ ہر کس و ناکس اس مقصد کے لئے تگ و دو کرے گا لیکن جب بنیادی ضرورت کی یہ چیزیں عام آدمی کی دسترس سے دور ہو جائیں گی تو وہ ہاہا کار کے سوا کیا کرسکتا ہے۔ ایسے میں حکومت اس کے لئے خیرات کے منصوبوں کا اہتمام کرتی ہے یا قومی احیا کے سہانے خواب بیچنے کا بند وبست کیا جاتا ہے جس کا بنیادی نکتہ یہی ہوتا ہے کہ فی الوقت تو تم بھوکے پیٹ سوجاؤ ۔ بچوں کے اسکول اور بیمار کے علاج کو بھول جاؤ لیکن ایک ’عوام دوست‘ حکومت کے ہوتے پریشان ہونے کی ضرورت بہر حال نہیں ہے۔

اس وقت عمران خان اور ان کے قریب ترین معاونین کا بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ وہ بجٹ کی صورت میں ملک کا معاشی کچا چٹھا اور حکومت کی کارکردگی کا اعمال نامہ جب عوام کے سامنے پیش کریں گے تو انہیں بھوکے پیٹ سوئے رہنے کی تاکید کرتے وقت کون سے سہانے خواب دکھائیں گے اور کون سے وعدے کریں گے۔ ایک مسئلہ تو یہ ہے کہ بیشتر خواب عمران خان اقتدار میں آنے کے لئے نعروں کی صورت استعمال کرچکے ہیں ۔ بجٹ پیش کرنے تک ان کی حکومت کو دس ماہ بیت چکے ہوں گے۔ اتنی مدت کے بعد کوئی پاکستانی حکومت صرف یہ کہہ کر آگے نہیں بڑھ سکتی کہ یہ مشکلات تو ماضی کی حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔ ہمیں ابھی کام کرنے کا موقع دیا جائے۔

تحریک انصاف کی دوسری مشکل یہ ہے کہ اس کے سارے ’معاونین اور ماہرین‘ ادھار مانگے ہوئے ہیں۔ کوئی انہیں عالمی اداروں کے گماشتے کہتا ہے اور کوئی قوم کے اصل محافظوں کا انتخاب قرار دیتا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ وزیر اعظم عمران خان کی اقتصادی ٹیم کے یہ نورتن کس کے سامنے جوابدہ ہیں۔ یہ البتہ طے ہے کہ وزیر اعظم ان کے سامنے بے بس ہیں۔

قومی بجٹ کا ایک اہم مقصد آمدنی میں اضافہ کے ذریعے حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنا ہوتا ہے۔ یہ کام ریاستی ادارے مستقل بنیادوں پر کرتے رہتے ہیں۔ ملک کی آبادی اور معیشت کے بڑھتے حجم کے ساتھ قومی آمدنی اور پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ ایک لازمہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر کسی ملک کی انتظامیہ دہائیوں سے اس نالائقی کا مظاہرہ کرتی رہی ہو کہ آمدنی نہیں ہے تو اسے بڑھانے کی بجائے قرض لے کر گزارا کرلو تو بالآخر اس علت کی وجہ سے نوابی شان سر عام نیلام ہونے کی نوبت آجاتی ہے۔ پاکستان پر اس وقت یہی مشکل گھڑی ہے لیکن قوم کی نوابی آن بان کے بارے میں بات کرنا ابھی بھی کسر شان سمجھا جاتا ہے۔ لہذا اب مونچھ کے بال کی قیمت لگوانے کی بپتا پڑی ہے لیکن مونچھوں کی اکڑ باقی ہے۔ شاید اسی لئے مونچھوں کو تاؤ دینا ضروری بھی ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2750 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali