کیا تنہائی آپ کی سہیلی ہے؟


میرے بعض دوستوں کو یہ جان کر حیرانی ہوتی ہے کہ میں زندگی کے بیس سال اکیلے رہا ہوں۔ وہ بھی اپنی مرضی سے رہا ہوں اور خوش رہا ہوں۔ میری نگاہ میں اکیلے رہنا انسانی آزادی کا ایک بھرپور استعارہ ہے۔ اکیلے رہنے سے انسان اپنی ذات اور شخصیت کے ان گوشوں سے آگاہ ہوتا ہے جن تک رسائی دوسرے انسانوں کے ساتھ رہنے کے دوران ممکن نہیں۔

جودوست میرے ساتھ ایک شام گزارنے درویش کی کٹیا میں آ چکے ہیں وہ جانتے ہیں

میرا ایک چھوٹا سا کمرہ ہے۔

چاروں طرف کتابوں کی پہاڑیاں ہیں۔

درمیان میں ایک بستر ہے۔

بستر کے قریب ایک چھوٹا سے میز ہے جس پر ایک لیمپ اور بہت سے سادہ کاغذ اور قلم ہیں۔

اس کمرے میں میں

جب جی چاہے آرام کرتا ہوں

جب جی چاہے پڑھتا ہوں اور

جب جی چاہے لکھتا ہوں

وہ کمرہ میری خواب گاہ بھی ہے اور CREATIVE LABOUR ROOM بھی۔

ورجینیا وولف نے آج سے نصف صدی پہلے خواتین کو مشورہ دیا تھا کہ اگر انہوں نے ادیب ’شاعر اور دانشور بننا ہے تو وہ اپنے گھر میں

A ROOM OF HER OWN کا انتظام کریں۔

میں دن کے وقت اپنے کلینک جا کر مریضوں کی خدمت کرتا ہوں

شام کو اپنی فیملی آف دی ہارٹ کے ادیب ’شاعر اور دانشور دوستوں سے ڈنر اور ڈائلاگ کرتا ہوں اور پھر رات کو اپنے گھر لوٹ آتا ہوں۔ کچھ پڑھتا ہوں۔ کچھ لکھتا ہوں۔ اور پھر نیند مجھے ایک محبوبہ کی طرح اپنی آغوش میں لے کر خوابوں کی دنیا تک پہنچا آتی ہے۔

میرا ایک شعر ہے۔

عجب سکون ہے میں جس فضا میں رہتا ہوں

میں اپنی ذات کے غارِ حرا میں رہتا ہوں

درویش کی کٹیا میں اس کی سہیلی تنہائی اس سے ملنے آتی ہے۔ تنہائی کو بہت حیرانی ہے کہ وہ مجھے بہت مرغوب ہے۔ وہ مجھے بتاتی ہے کہ بہت سے لوگ اس سے ڈرتے ہیں۔ گھبراتے ہیں۔ اسے دیکھ کر حیران و پریشان ہوتے ہیں کیونکہ وہ احساسِ تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

بعض ماہرینِ نفسیات کا خیال ہے کہ جدید انسان کا سب سے بڑا نفسیاتی مسئلہ۔ اینزائٹی اور ڈیپریشن سے بھی بڑا۔ احساسِ تنہائی ہے۔ آج کا انسان محفل میں بھی تنہا ہے۔ وہ اپنے آپ سے بھاگتا ہے۔ بعض لوگ احساسِ تنہائی سے بچنے کے لیے مصروف رہتے ہیں۔ بعض منشیات میں پناہ لیتے ہیں۔ بعض ایلکوہولکalcoholic ہو جاتے ہیں اور بعضworkoholic ورکوہولک۔ بعض اپنی ذات سے فرار کے نت نئے راستے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ ایک انگریزی کہاوت ہے

WHERE EVER YOU GO THERE YOU ARE

کیونکہ دانا لوگ جانتے ہیں کہ اپنی ذات اور اپنے سچ سے زیادہ دیر تک فرار ممکن نہیں۔

مجھے اپنی دیرینہ دوست اور سہیلی تنہائی اس لیے پسند ہے کہ وہ میرے لیے خاموشی اور دانائی کے تحفے لے کر آتی ہے۔ مجھے تخلیے میں سوچنے کا موقع ملتا ہے۔ تخلیے میں ہی میری میوس میرے لیے غزلوں ’نظموں‘ افسانوں ’مقالوں اور کالموں کے تحفے لے کر آتی ہے جیسے اس وقت وہ مجھے ایک نئے کالم کا تحفہ دے رہی ہے اور میں اسے‘ ہم سب ’کے قارئین کے لیے وصول کر رہا ہوں۔

میں جب ساری دنیا کے ادیبوں ’شاعروں اور دنشوروں کی سوانح عمریاں پڑھتا ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی مصروف زندگی سے تنہائی اور خاموشی کے لمحے چراتے رہتے ہیں کیونکہ اس تنہائی اور خاموشی میں انہیں وہ یکسوئی میسر آتی ہے جو ان کے تخلیقی کام کے لیے بہت ضروری ہے۔

اسی تنہائی ’خاموشی اور یکسوئی کے لیے

سائنسدان اپنی لیبارٹری میں پناہ ڈھونڈتے ہیں

شاعر کسی دریا کے کنارے لمبی سیر کے لیے نکل جاتے ہیں

سادھو کسی درخت کے نیچے بیٹھ جاتے ہیں

صوفی اعتکاف کر لیتے ہیں

اور سنت چلہ کاٹ لیتے ہیں

چاہے وہ جینون سائنسدان ہویا سکالر۔ شاعر ہو یا دانشور۔ سادھو ہو یا صوفی

وہ سب تنہائی اور خاموشی کے رسیا ہوتے ہیں

اس خاموشی میں وہ خود سے ہمکلام ہوتے ہیں

اس خاموشی میں ان پر اپنی ذات کے راز کھلتے ہیں

اس تنہائی میں وہ شعور کی سیڑھیوں سے لاشعور کی گہرائیوں میں اترتے ہیں

اس یکسوئی میں ان پر چاروں طرف پھیلی کائنات کے راز بھی فاش ہوتے ہیں اور وہ خود پر بھی منکشف ہوتے ہیں۔

جب کوئی بھی انسان اپنی ذات کی تاریک گہرائیوں میں بلا خوف و خطر اترنے کے قابل ہو جاتا ہے تو اس پر اپنی ذات سے پردے اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں۔ وہ اپنے ذہن کے بلیک باکس کا راز پا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کی اپنی ذات اس کے لیے نہ معمہ رہتی ہے ’نہ پہیلی‘ نہ بجھارت۔ میرا ایک شعر ہے

؎ میں اپنی ذات کی گہرائیوں میں جب اترتا ہوں

اندھیروں کے سفر میں روشنی محسوس کرتا ہوں

کسی نے enlightenment کے لیے تین قدموں کی نشاندہی کی ہے

FIRST YOU GO TOWARDS THE LIGHT

THEN YOU ARE IN THE LIGHT

THEN YOU ARE THE LIGHT

یہ روشنی کسی کو شاعر بنا دیتی ہے کسی کو دانشور۔ کسی کو سائنسدان کسی کو سکالر۔ ہر دور کے شاعر اور دانشور۔ سائنسدان اور سکالر انسانیت کے رہبر اورخضرِ راہ ہیں۔ ان کی تخلیقات اور ان کے تحفوں نے انسانیت کے ارتقا میں سنگِ میل کا کام کیاہے۔ یہی تحفے ان کتابوں میں موجود ہیں جن کی پہاڑیاں درویش کی کٹیا میں چاروں طرف موجود ہیں اور وہ جب چاہتا ہے ان دانشوروں سے ہمکلام ہو جاتا ہے اور ان کی دانائی سے فیض حاصل کرتا ہے۔

چاہے وہ مشرق کے ہوں یا مغرب کے۔ شمال کے ہوں یا جنوب کے۔ ساری دنیا کے دانشور ہمارے بزرگ ہیں اور ان کا علم اور دانائی ساری انسانیت کی مشترکہ وراثت ہے۔

بعض لوگ تنہائی سے گھبراتے ہیں اور بعض اس کا انتظار کرتے ہیں اور جب تنہائی اور خاموشی کے لمحات میسر آ جائیں تو اس کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ آپ کس گروہ سے تعلق رکھتے ہیں؟

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 683 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail