کام کرنے کی جگہوں پر جنسی ہراسانی


ہم نے ہمیشہ یہی سنا ہے کہ قانون اندھا ہوتا ہے اور قانون کے لئے سب برابر ہیں۔ کیا یہ بات حقیقت ہے؟ اصولی طور پر تو قانون کو اندھا نہیں، بلکہ منصف ہونا چاہیے کیوں کہ اندھا ہونے کی صورت میں تو وہ استغاثہ اور دفاع دونوں ہی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔

پاکستان میں قانون بہت لیکن استعمال اتنا ہی جتنا آٹے میں نمک!

میشا شفیع کے ساتھ جو ہوا غلط ہوا، لیکن معاشرتی طور پر ایک فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو جنسی ہراسائی کی قانونی سمجھ بوجھ آگئی۔ میشا شفیع ایک مشہور شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ با اثر بھی ہیں جو اپنے حقوق سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے لئے لڑنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہیں۔ اس کیس کے دوران ہم نے دیکھا کے ان کا خاندان، دوست، اور متعدد چاہنے والے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔

بدقسمتی سے ہر کسی کے نصیب میں نہ اتنی ہمّت ہے کہ وہ جنسی طور پر ہراساں ہونے کی شکایات کر سکے یا اس کے خلاف کیس لڑ سکے اور نہ ایسا گھریلو ماحول میسر ہے جو اعتماد بخش سکے۔ آئے دن ہم مدرسے میں ہونے والے گھناونے واقعات کی ویڈیوز دیکھتے ہیں، خبریں سنتے ہیں لیکن کیا کسی والدین نے کیس لڑا؟ جیتا؟ شاید نہیں!

ہمارے ملک میں قانون تو ہے لیکن سجا سجایا۔ جسے ہم گھر میں سب سے بہترین کپڑے میں لپیٹ کرطاق پر رکھ دیتے ہیں اور کبھی کبھی کھول کر دیکھ لیتے ہیں۔

اپریل 2018 میں ڈان اخبار نے ایک آن لائن سروے کیا جو تقریباً 300 عورتوں پر مشتمل تھا۔ اس سروے ک مطابق 83 % عورتوں کا ماننا تھا کہ دفاتر میں عمومی طور پر مرد نامناسب روّیہ اختیار کیے رہتے ہیں کیوں کہ انہیں یقین ہوتا ہے کے کوئی کارروائی یا چارہ جوئی نہیں ہوگی۔

یہ بات قابل غور ہے کہ پاکستان میں دفاتر میں ہونے والی جنسی ہراسائی کے لئے قانون موجود ہے :

Protection against Harassment of Women at the Workplace Act 2010 :

”Harassment as any unwelcome sexual advance، request for sexual favors or other verbal or written communication or physical conduct of a sexual nature or sexually demeaning attitudes، causing interference with work performance or creating an intimidating، hostile or offensive work environment، or the attempt to punish the complainant for refusal to comply with such a request or is made a condition of employment۔ “

پاکستان کا کوئی حصّہ یا طبقہ ایسا نہیں ہے جہاں کام کرنے والی عورتوں کو ہراساں ہونے کا تجربہ نہ ہوا ہو۔ 9 سال گزرنے کے باوجود مندرجہ بالا قانون سے کئی عورتیں ناواقف ہیں یا ڈرتی ہیں کے انصاف کے کٹہرے میں ان کی دھجیاں نہ اڑا دی جایئں۔

وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق 2014 سے 2018 کے درمیان 378 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں ملک بھر سے، جن میں سے 220 شکایات حکومتی اداروں سے آئی تھیں۔

جب بات آتی ہے اداروں کی تو ہمارا پہلا خیال یہ ہوتا ہے کہ شاید تعلیمی ادارے اس سے محفوظ ہوں۔ آخر کو استاد تو روحانی والدین کا درجہ رکھتے ہیں اور پھر تعلیم و تدریس بذات خود ایک انتہائی عزت دار پیشہ ہے۔

ان تمام باتوں کے باوجود، پروٹیکشن ایکٹ 2010 کے تحت موصول ہونے والی شکایات میں قائد اعظم، LUMS، جیسی یونیورسٹیز شامل تھیں۔

2018 میں ایک اور مشہور کیس اخباروں کی زینت بنا تھا جب پاکستان کے جانے مانے اردو کے شاعر پروفیسر سحر انصاری پر جنسی ہراسائی کا کیس ہوا تھا۔ پروفیسر صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں بلکہ اردو کی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان سے ستارہ۔ امتیاز بھی حاصل کر چکے ہیں۔

شکایات درج کرنے والی خاتون خود بھی اسسٹنٹ پروفیسر تھیں اور ان کے ساتھ یہ واقعہ 2016 میں پیش آیا تھا۔ اس شکایت کی بنیاد پر جامعہ کراچی نے ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے ایک ماہ کے اندر پروفیسر صاحب کو کلین چٹ دے دی۔ خاتون برحق تھیں تو انہوں نے سندھ صوبائی محتسب کو اپیل دائر کی جس نے سوا سال بعد اگست 2017 میں جامعہ کراچی کی کمیٹی رپورٹ کو رد کر کے نئی کمیٹی، پروٹیکشن ایکٹ 2010 کے تحت تشکیل کرنے کا حکم دیا۔ جنوری 2018 میں حتمی فیصلہ یہ ہوا کہ پروفیسر سحر انصاری پر ہراسائی کی شکایت ثابت ہوئی جس میں جامعہ کراچی کی جانب سے کئی طالبات کی شکایات بھی شامل تھیں اور جامعہ کے چند ملازمین کی گواہی بھی شامل تھی۔

پھر کیا ہوا؟

کوئی نہیں جانتا!

سندھ محتسب نے ایک بہترین قدم اٹھایا لیکن کیا اس کو مثالی بنا پائے؟ کیا پروفیسر سحر انصاری پر قانونی فیصلہ محفوظ ہوا؟ کیا جامعہ کراچی نے اس سلسلے میں پیش و رفت کی؟ مستقبل میں اساتذہ اور طالبات کو محفوظ بنانے کے لئے کیا اقدام کیے؟

حکومت پاکستان میں وفاق نے ایک پوری وزارت اس پروٹیکشن ایکٹ کے لئے محفوظ کی ہے جس کی وزیر اس وقت کشمالہ طارق ہیں۔ مجھے یقین ہے اگر حکومت چاہے تو اس قانون کو ہرچھوٹے بڑے دفاتر میں عمل میں لا سکتی ہے۔ عورتوں کو اس قانون کے بارے میں آگاہ کیا جائے، ان کو ان کے حقوق کا احساس دلایا جائے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی شکایات اور کیسز کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے گا۔

جب فیصلے ہوا میں معلق ہوں، تو قانون پر سے یقین ڈگمگانے لگتا ہے جو معاشرتی طور پر خطرناک ہے۔ پاکستان میں دفاتر میں ہونے والی ہراسائی کے خلاف ایک مثبت قانون ہے جس کا یقینی استعمال ضروری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).