لالہ موسیٰ کا قمر زمان کائرہ


بڑے انسان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ جو بھی شخص اس سے ملاقات کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ وہ شخص سب سے زیادہ انہی کے قریب ہے۔ قمر زمان کائرہ کا شمار بھی انہی لوگو ں میں ہوتا ہے کہ وہ جن کے سامنے آجاتے ہیں وہ شخص قمر زمان کائرہ کو دیکھتے ہی منہ سے مسکراہٹ لئے ایسے کھڑا ہوجاتا ہے کہ جیسے وہ صرف اور صرف انہی کے دوست ہوں۔ مجھے بھی اسلام آباد میں دس سال صحافت کرتے ہوئے گزرے ہیں، انہی دس برسوں میں قمر زمان کائرہ کبھی حکومتی بینچز کا حصہ رہے، وفاقی وزیر بھی رہے تو کبھی بہت ہی متحرک اپوزیشن کا حصہ رہے، کبھی اپنی اپوزیشن کو فرینڈلی اپوزیشن بناتے ہوئے بھی دیکھے گئے۔

کائرہ صاحب کے اقتدار اور اختلاف کے انہی دنوں میں وہ کئی مرتبہ میر ے اسٹوڈیو میں ٹاک شو کا حصہ بننے آئے تو جیسے اس بے وفائی اور بداعتمادی کے دور میں بھی سیاست کا مقصد واقعی بھی عبادت محسوس ہونے لگا۔ وہ جب وفاقی وزیر تھے، تب میری طرف سے قمر الزمان کائرہ لکھنے پر میرے ہاتھ سے پین پکڑ کر قمر زمان کائرہ لکھ کر مجھے میری غلطی دکھاتے ہوئے میری پروف کی غلطی ایسے بیان کی، جیسے بچپن میں استاد اسکول کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔

ایک مرتبہ جب اسٹوڈیو کا دروازہ کھلا تو سامنے قمر زمان کائرہ تھے، تاہم اس وقت وہ سیاستدان سے زیادہ اسپورٹس مین کے روپ میں دکھائی دیے اور آتے ہی کہا واک کرتے کرتے آپ کا فون آیا تو چلا آیا۔ قمر زمان کائرہ کی خاصیت جہاں تک اقتدار کے نشے کا ان پہ اثر نہ ہونا ہے، وہاں ان کے چہرے پہ ہمیشہ قائم ودائم رہتی وہ مسکراہٹ ہے جو کائرہ کو مسکراتے چہرے کا تعارف فراہم کرتی ہے۔ وہ مسکراتا چہرہ اب اداس اداس ہے۔ حیران اور پریشان زندگی کا ایک نیا زوایہ ان کی طرف ایسے کھلا ہے، جیسے کبھی ان کی قائد محترمہ بے نظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی اس خبر نے کھول دیا تھا جو فرانس سے ان کے جواں سالہ بھائی اور بیٹے شاہنواز بھٹو کی موت کی خبر نے کھول دیا تھا۔ سندھ کے معروف شاعر شیخ ایاز نے ایسی خبر سنتے ہی لکھا تھا کہ :

زخمی تیتر کی طرح ایک خبر

پھڑپھڑاتی چپ ہو گئی ہے

فرزند آپ کا فرانس میں مارا گیا ہے

اور اپنے باپ کے راستے پہ ڈالا گیا ہے

تم ایک ماں ہو

اور میں اس سوچ میں حیراں ہوں

کہ تم سے پوچھوں بھی تو کیسے پوچھوں

پوچھوں بھی تو کیسے پوچھوں؟

شیخ ایاز کیونکہ شاعر تھا اور شاعر کے سامنے وہ بیگم نصرت بھٹو کا اداس چہرہ تھا جو ضیاءکی آمریت کی لہولہان دلیل تھی۔ جن دنوں میں شیخ ایاز خود پابند سلاسل تھا اور ساہیوال جیل سے ایسے بھی سوالات اٹھاتا تھاکہ ایک ماں اور ایک باپ کے جواں سال بیٹے کی موت کی خبر دینا تو دور کی بات لیکن ایسے حادثے پہ تعزیت کی بھی جائے تو کیسے کی جائے۔ زرداری ہا ؤس کے سامنے کھڑے قمر زمان کائرہ کے سامنے شاعر نہیں، صحافی حضرات تھے، جو خبر کے متلاشی تھے جو ہمیشہ اندر کی خبر کیا ہے جیسے سوال کے دائرے کے اردگرد گھومتے رہتے ہیں۔

ان صحافی حضرات کو اس مرتبہ اندر کی نہیں بلکہ باہر کی خبر نے ایسا متاثر کیا کہ خبر دینے آئے ہوئے قمر زمان کائرہ کو خبر ایسے موصول کروائی گئی کہ ان کے پاس Thank you کہنے کے سوا کوئی چارا ہی نہیں تھا۔ وہ قمر زمان کائرہ جو کچھ دیر پہلے زرداری ہا ؤس سے ایک مدبر سیاستدان کے روپ میں اپنے سینئر ساتھیوں کے ساتھ آئے تھے، وہ اپنے جواں سال بیٹے اسامہ کی موت کی خبر موصول کر کے ایک باپ کی حیثیت میں زرداری ہا ؤس کے بجائے سیدھا لالہ موسیٰ روانہ ہو گیا۔

نیئر بخاری جیسے سینئر سیاستدان کچھ دیر پہلے ہی زرداری ہا ؤس سے پیپلزپارٹی کے رہنما کی حیثیت سے قمر زمان کائرہ کے ساتھ نکلے تھے وہ بھی سیاست دان کے بجائے ایک باپ کے روپ میں ایسے ڈھل گئے کہ کائرہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ان کو ایسے گلے لگایا کہ جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کوگلے لگاتا ہے۔ قمر زمان کائرہ جو پہلے پیپلزپارٹی کے رہنما کا تعارف رکھتا تھا، اس خبر نے اس تعارف کے دائرے کو ایسے وسیع کیا کہ سارے محمود ایاز ایک ہی صف میں نظر آنے لگے۔

۔ قمر زمان کائرہ کے نیئر بخاری، چوہدری منظور کے ساتھ لالہ موسیٰ روانگی کے بعد زرداری ہا ؤس کے سامنے کا منظر ایک ایسی خاموشی کی لپیٹ میں آچکا تھا، جیسے انسانوں کی آواز نہیں بلکہ درختوں سے ٹکرا کر واپس آتی ہواؤں نے آ کر کچھ کہا ہو۔ قمر زمان کائرہ نے زرداری ہاؤس اسلام آباد سے لالہ موسیٰ تک سفر کیسے طے کیا ہوگا۔ یہ تو صرف وہی جانتے ہیں۔ لیکن لالہ موسیٰ پہنچنے کے بعد اپنے رشتہ داروں سے لپٹ کے رونے کے مناظر بتا رہے تھے کہ ”بڑا ہے درد کا رشتہ، یہ دل غریب سہی“ یہی وجہ ہے کہ قمر زمان کائرہ اور میاں افتخار حسین کی تصویرنے سوشل میڈیا پر ایسی توجہ حاصل کی جیسے میاں افتخار کا بیٹا بھی کل ہی بچھڑا ہو۔

جس تصویر کا کیپشن اگر ہوتا توبس اتنا ہوتا کہ ”دو باپ جنہوں نے بیٹے کھوئے“ باپ کے درد سے ناآشنا سوشل میڈیا کی مخلوق نے جہاں قمر زمان کائرہ کو تنقید کا نشانہ بنایا وہاں قمر زمان کائرہ کو میر مرتضیٰ بھٹو کی شہادت پر محترمہ بے نظیر بھٹو کے ”مسلمانو چالیس دن تو صبر کرو“ والے الفاظ تو ضرور یاد آئے ہوں گے۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ لالا موسیٰ میں ایک باپ جو درد اور تکلیف بیان کر رہا تھا، وہی تکلیف عالمی میڈیا پہ کار حادثے میں لیڈی ڈیانا کی ہلاکت پر بنتی ڈاکیومنٹری کے دوران اسی رات ان کے بچے بیان کر رہے تھے۔

میں سوچ رہا ہوں، انگلینڈ میں کرکٹ کھیلتے ہوئے آصف کو اپنے کپتان سرفراز احمد اور ساتھیوں نے امریکہ میں کینسر میں مبتلا ان کی بیٹی کی موت کی خبر گراؤنڈ میں جا کر دی ہو گی؟ میں یہ بیٹھ کے سوچوں یا آصف کے جلدی آؤٹ ہونے پہ غصہ کرنے کی اپنی طبیعت پہ شرمندگی محسوس کرتے ہوئے یہ سوچوں کہ وہ شخص جس کی پھولوں جیسی بیٹی امریکہ میں کینسر میں مبتلا ہسپتال کے بستر پہ پڑی تھی وہ باپ پھر بھی جیت کی لگن کے ساتھ میدان میں موجود تھا۔ بالکل ایسے ہی لالہ موسیٰ کا کائرہ پھر جیت کے میدان میں مسکراتے چہرے کے ساتھ واپس آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).