یہ محمد پاک روڈ ہے


لاہور میں گرمیوں کا موسم ہو، تپتی دھوپ میں لو چل رہی ہو اور شدت حرارت سے چرند و پرند و انسان نڈھال ہوں تو ان سب کی پہلی پناہ گاہ، لاہور کی مشہور ”نہر“ ہی ہوتی ہے۔ تا حد نگاہ بلند و بالا سایہ دار درختوں کی قطاریں، نہر کے دونوں اطراف مخملیں سبزے کے تختے اور درمیان میں بہتا نہر کا یخ بستہ پانی، قابل دید مناظر پیش کرتے ہیں۔

یہ نہر، بمبا والی راوی بیدیاں (بی آر بی) کینال کی ایک شاخ ہے جسے برطانوی راج نے انیسویں صدی کے اختتام سے پہلے تعمیر کیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ، نہر کے دونوں طرف سڑک بھی تعمیر کی گئی جسے ہم سب ”کینال بینک روڈ“ کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ سڑک، بلاشبہ آج لاہور کی شہ رگ حیات تصور کی جا سکتی ہے۔ نہر والی سڑک پر تعمیر شدہ متعدد انڈر پاسز کی وجہ سے یہ سڑک مکمل طور پر ”سگنل فری“ ہو گئی ہے۔ لاکھوں افراد اس خوبصورت سڑک کو روزانہ آمدورفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ آپ کو لاہور میں کہیں بھی جانا ہو، نہر والی سڑک سے کہیں نا کہیں آپ کا گزر ہوگا ہی۔ اس سڑک کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ لاہور کو قدیم اور جدید لاہور میں تقسیم کرتی ہے، نہر کے مغربی طرف قدیم لاہور آباد ہے اور مشرقی طرف نسبتا جدید آبادیاں ہیں۔

حصول معاش کے لیے راقم کا اس سڑک سے روز ہی گزر ہوتا ہے۔ پچھلے کچھ عرصے سے اس سڑک سے متعلق حقیر کے مشاہدے میں ایک خاص بات آرہی ہے، اور غالبا لاہور میں رہنے والے دیگر احباب بھی اس بات کی گواہی دیں گے۔ وہ خاص بات یہ کہ اس سڑک کے تقریبا ہر انڈر پاس پر کافی عرصے سے کوئی شخص یا گروہ ”یہ محمد پاک روڈ ہے“ کی وال چاکنگ کرتا آرہا ہے۔ تقریبا روز ہی اس وال چاکنگ پر سیاہی پھیر دی جاتی ہے مگر اگلے ہی دن یہی عبارت پورے آب و تاب کے ساتھ دوبارہ نمایاں ہو جاتی ہے۔ عبارت لکھنے اور مٹنے کی آنکھ مچولی قریبا دو سال سے جاری ہے۔ یہاں اس عبارت لکھنے والے کی استقامت کو داد دینا ہوگی۔

ذہن کے نہاں خانے میں مقید تجسس کی عادت سے مجبور، جب اس معاملے پر غور کیا تو عبارت لکھنے والے کے پیچھے وہی انتہا پسندانہ طرز تفکر کار فرما نظر آیا جو قیام پاکستان سے مسلمانان ارض پاک کا خاصا رہا ہے۔ بحیثیت قوم، ہم مذہب اور وطن پرستی کے حقیقی روح پر عمل پیرا ہونے سے زیادہ، اس کی نمود و نمائش میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ یہ نمود و نمائش، مختلف جگہوں کے نام تبدیل کرنے کے عمل میں نمایاں نظر آتا ہے۔ جگہوں کے نام تبدیل کرنے کے پیچھے دراصل ہماری تاریخ کو از سر نو لکھنے کی چاہت نظر آتی ہے۔ یہ ان اقوام کا وتیرہ رہا ہے جو کسی بھی وجہ سے اپنے ماضی پر شرمندہ ہوتے ہیں۔

اس معاملے میں مسلمانان برصغیر سب پر بازی لے جاتے ہیں۔ کبھی آپ نے غور کیا کہ ہماری مطالعہ پاکستانی تاریخ کا آغاز محمد بن قاسم سے ہی کیوں ہوتا ہے؟ کیا اس سے پہلے اس خطے میں لوگ نہیں رہتے تھے؟ کیا ان کی کوئی تاریخ نہیں؟

ایران اور مصر میں رہنے والے مسلمان، اتنے ہی مسلمان ہیں جتنا ہم اور آپ ہیں، لیکن میں نے کبھی کسی ایرانی یا مصری کو اپنے ماضی پر بات کرتے ہوئے شرمندہ نہیں دیکھا۔ اس کے بر عکس، ایران اور مصر کے مسلمان اپنے شاندار ماضی کا فخریہ ذکر کرتے ہیں اور ایسا کرنے سے، ہمارے برعکس، ان کا ایمان بھی خطرے میں نہیں پڑتا۔

ہمارے بنیاد پرست اور انتہا پسند ذہن کے لیے اس خطے سے جڑی تاریخ اور دوسرے مذاہب اور زبانوں کا اثر و رسوخ نا قابل برداشت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم پچھلے 71 سالوں سے ہر اس چیز کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہوئے ہیں، جو ہمیں اس خطے کا ماضی یاد دلائے۔ شاید اسی لیے، 1992 میں سانحہ بابری مسجد کے ردعمل کے طور پر، کچھ سر پھرے لوگوں کے ہجوم نے لاہور میں موجود تاریخی جین مندر کے رہے سہے آثار بھی مٹا دیے۔ اور سرکاری طور پر اس جگہ کا نام ”جین مندر“ چوک سے ”بابری مسجد“ چوک تبدیل کیا گیا، مگر اے بسا آرزو کہ خاک شد، یہ جگہ اب بھی جین مندر کے نام سے ہی جانی جاتی ہے۔

اسی انتہا پسندانہ سوچ کے نتیجے میں لاہور کے متعدد جگہوں کے نام تبدیل کیے گئے۔ کرشن نگر کو اسلام پورہ، جیل روڈ کو علامہ اقبال روڈ، ڈیوس روڈ کو سر آغا خان روڈ، لارنس گارڈن کو باغ جناح، ریس کورس پارک کو جیلانی پارک کا نام دیا گیا۔ خوش قسمتی سے ایسی کوششوں کے باوجود اب بھی زیادہ تر جگہوں کے قدیم نام ہی مستعمل ہیں۔

سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کسی بھی جگہ کے نام کے پیچھے، ایک پوری تاریخ ہوتی ہے، وہاں رہنے والوں کے رسم و رواج، ماضی، زبان، شناخت اور ثقافت کی چھاپ ہوتی ہے۔ ضروری نہیں کہ آپ پہلے سے موجود جگہوں کے نام تبدیل کر کے ہی اپنی عقیدت یا وطن پسندی کے جذبہ کا اظہار کریں۔ یہ شوق آپ نئی سڑکیں، عمارات، آبادیاں اور شہر آباد کر کے پورا کر سکتے ہیں۔ پھر شوق سے ان نئی جگہوں کے نام اپنی مرضی سے رکھیں اور چار دانگ عالم میں اپنی مذہب پسندی اور وطن پرستی کا ببانگ دہل اعلان کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).