پاکستان اپنے محسن نواب صادق عباسی کی بے پایاں خدمات کا اعتراف کب کرے گا؟


14 اگست 1947 ء کو پاکستان معرض وجود میں آیا تو وہ طاغوتی طاقتیں جو اس کے قیام کے خلاف تھیں روز اول سے ہی اس کی وحدت کو نقصان پہنچانے کے درپے ہو گئیں۔ ریڈ کلف کی غیر منصفانہ جغرافیائی اور اثاثہ جات کی تقسیم کے باوجود ہندوستان پاکستان کو اس کے حصے کا ساز و سامان دینے سے صاف انکاری ہو گیا۔ اس کی اس گھٹیا حرکت کا مقصد نوزائیدہ مملکت پاکستان کو معاشی لحاظ سے نقصان پہنچانا تھا۔ ایسے نازک حالات میں جس شخص نے دامے، درمے، سخنے اور قدمے پاکستان کی مدد کی وہ نواب آف بہاول پور سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) تھے جنہوں نے اپنا تخت و تاج پاکستان پر نچھاور کر دیا۔

نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) کی علمی و ملی خدمات کو احاطہ تحریر میں لانا بہت مشکل ہے۔ آپ کی پیدائش 29 ستمبر 1904 ء کو ڈیرہ نواب صاحب میں ہوئی۔ آپ کی عمر ابھی دو سال ہی تھی کہ آپ کے والد نواب محمد بہاول خان (پنچم) آپ کو ہمراہ لے کر فریضہ حج کے لیے تشریف لے گئے۔ واپسی پر سفر کے دوران میں نواب محمد بہاول خان (پنجم) کا انتقال ہو گیا۔ آپ اپنے والد کی اکلوتی اولاد تھے لہذا ریاست واپس آ جانے کے بعد آپ کی تین سال کی عمر میں 15 مئی 1907 ء کو دستار بندی کی گئی۔ آپ نے اپنے لیے نواب صادق محمد خان (پنجم) کا نام منتخب کیا۔ چونکہ آپ ابھی کم سن تھے، اس لیے ریاست کی انتظامی نگرانی کے لیے حکومت برطانیہ نے سر رحیم بخش (آئی سی ایس) کی سربراہی میں کونسل آف ریجنسی قائم کی۔ ریاست بہاول پور 1907 ء سے 1924 تک کونسل کے زیرنگیں رہی۔

نواب صادق محمد خان (پنجم) نے ابتدائی فارسی، عربی اور مذہبی تعلیم اپنے اتالیق علامہ مولوی غلام حسین قریشی سے حاصل کی۔ آپ کو 1913 ء میں اعلیٰ تعلیم اور امور ریاست کی تربیت کے لیے لندن بھیجا گیا جہاں 1915 ء تک تعلیم حاصل کی۔ 1915 ء سے 1921 تک آپ نے ایچیسن کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ 1921 ء میں آپ کو ہزرائل ہائینس آف ویلز کا ایڈی کانگ مقرر کیا گیا۔ بیس سال کی عمر میں آپ کی تاج پوشی کی گئی۔ اس حوالے سے تقریب 24 مارچ 1924 ء کو نور محل بہاول پور میں منعقد کی گئی۔ اس تقریب میں واسرائے ہند لارڈ ریڈنگ نے آپ کی رسم تاج پوشی ادا کرتے ہوئے مکمل اختیارات حکمرانی آپ کو تقویض کیے۔ اس موقع پر صادق ریڈنگ لائبریری کی عمارت کا سنگ بنیادبھی رکھا گیا جو اب سنٹرل لائبریری کے نام سے پنجاب کی دوسری بڑی لائبریری ہے۔

نواب سر صادق محمد خان عباسی عباسیہ خاندان کے بارہویں اور آخری فرماں روا تھے۔ آپ کی شخصیت انتہائی شفیق اور جلال و جمال کا مرقع تھی۔ آپ ایک خدا ترس، جہاندیدہ، خوف خدا کے حامل اچھے حکمران کی خصوصیات و صفات سے مزین تھے۔ نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) اہل علم کی قربت کے نہ صرف دلدادہ تھے بلکہ علم و ادب کی باقاعدہ سرپرستی فرمایا کرتے تھے۔ انصاف کے معاملے میں کبھی لچک نہ دکھاتے۔ شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال اور حفیظ جالندھری جیسی شخصیات آپ کی نہ صرف مدح تھیں بلکہ نواب صاحب بھی انہیں نہایت توقیر و احترام سے نوازتے۔

ریاست بہاول پور کے 12 حکمرانوں کے دور حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) کا دور حکومت ریاست کا نہایت سنہری دور تھا۔ یہ دور دیگر ریاستوں اور ملکوں کے جدید علوم سے استفادے کا دور تھا۔ اسی دور میں نئی منڈیاں اور ہارون آباد، فورٹ عباس، حاصل پور، چشتیاں، یزمان، لیاقت پور اور صادق آباد جیسے نئے بسائے گئے۔

نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) نے چولستان اور دیگر علاقوں کو سیراب کرنے کے لئے ہیڈ پنجند کے مقام پر ستلج ویلی پراجیکٹ مکمل کرایا۔ جس پر اس دور میں 14 کروڑ روپے کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔ اس پراجیکٹ کی تکمیل سے 15 لاکھ ایکٹر اراضی سیراب کرنے کا اہتمام کیا گیا۔ 31 مارچ 1924 ء کو ہیڈ پنجند کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ 1925 ء میں ہیڈ پلہ ریگولیٹری کا بھی افتتاح کیا گیا۔ اسی سال ہی احمد پور شرقیہ میں صادق عباس مڈل سکول کو اپ گریڈ کرتے ہوئے میٹرک تک کیا گیا جبکہ جدید تقاضوں سے ہم آہنگ دینی تعلیم کے لیے مدرسہ صدر دینیات کو ترقی دے کر جامعتہ الازہر کی طرز پر جامعہ عباسیہ قائم کیا گیا جو آج اسلامیہ یونیورسٹی کے نام سے ایک نامور ادارہ ہے۔

1926 ء میں جامعہ عباسیہ کا ایک ذیلی ادارہ طبیہ کالج قائم کیا گیا۔ جولائی 1935 ء میں جامع مسجد دہلی کی طرز پر ”جامع مسجد الصادق“ کی ازسرِ نو تعمیر کا سنگِ بنیاد رکھا جو اس وقت پاکستان کی چوتھی بڑی مسجد ہے۔ 1942 ء میں بہاول پور میں ایک بڑا چڑیا گھر اپنے عوام کی سیر و تفریح کے لیے بنوایا گیا اور ڈرنگ اسٹیڈیم بھی بنوایا گیا جس میں پہلی بار پاکستان اور بھارت کا پہلا کرکٹ میچ کھیلا گیا تھا۔

1954 ء میں آپ نے ایچی سن کالج کی طرز پر صادق پبلک سکول قائم کیا جس کی تعمیر کے لیے آپ نے اپنی ذاتی اراضی سے 450 ایکڑ زمین عطا کی۔ ان سب کے علاوہ بہاول پور شہر میں بہاول وکٹوریہ ہسپتال، ایس ای کالج، صادق ڈین ہائی سکول، ایس ڈی ہائی سکول، صادق گرلز ڈگری کالج کے علاوہ درجنوں ادارے اور جدید و قدیم فن تعمیرات کی حامل خوبصورت عمارات نور محل، دربار محل آپ کی ترقی پسندانہ ذہنیت کا بین ثبوت ہیں۔ 1951 ء میں بہاول پور کی قانون ساز اسمبلی نے قانون شریعت نافذ کیا۔ ہندوستان کی یہ واحد ریاست تھی جس نے سب سے پہلے احمدیوں کو اقلیت قرار دیا۔ پاکستان کے ساتھ ضم ہونے تک ریاست میں نظام اسلام کا نفاذ رہا۔

نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) درحقیقت اسلامی اقدار کے علمبردار تھے۔ پاکستان بھی دنیا کے نقشے پر لا الہٰ کے نعرے کی تحریک سے وجود میں آیا تو نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) نے سمجھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ اپنی ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کر دیا جائے۔ اس دوران پنڈت جواہر لعل نہرو اور سردار پٹیل نے ریاست بہاول پور کو بھارت میں شامل کروانے کی سر توڑ کوششیں کیں یہاں تک کہ بیکانیر اور اردگرد کے علاقوں کو ریاست میں شامل کرنے کی پیشکش بھی کر ڈالی۔ اس کے جواب میں نواب صادق محمد خان (پنجم) نے کہا کہ بھارت میرے گھر کے پیچھے ہے جبکہ پاکستان سامنے اور شریف آدمی ہمیشہ سامنے کا راستہ اختیار کرتا ہے۔

تقسیم برصغیر کے وقت جب دونوں اطراف سے ہجرتوں اور فسادات کا سفر جاری تھا اس وقت تو پوری ریاست بہاول پور میں ہندو مسلم نفرت کا کہیں نام نشان نہ تھا۔ بلکہ ریاست سے ہجر ت کر کے جانے والوں کو ہر طرح کی سہولیات دی گئیں اور ریاست بہاول پور سمیت دیگر خطوں میں آنے والے مہاجرین کی بحالی کے لئے عملی اقدامات کیے گئے۔ صرف ریاست بہاول پور میں چار لاکھ مہاجرین کی آباد کاری کر کے ریاست بہاول پور نے مروت و مودت کی بہترین مثال قائم کی۔

بہاول پور میں مہاجرین کی آبادکاری کے لیے نئی وزارت بحالی مہاجرین بنائی گئی جس کے ذریعے مہاجرین کو ریاست بہاول پور میں باعزت طریقہ سے آباد کیا گیا اور مخدوم الملک غلام میراں شاہ کو وزیر مہاجرین بنایا گیا۔ قیام پاکستان کے بعد خزانہ خالی ہونے پر نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) نے ابتدائی طور پر سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے لیے 7 کروڑروپے اور بعد ازاں 2 کروڑ روپے، پھر 22 ہزار ٹن گندم اور مہاجرین کے لیے 5 لاکھ روپے کا عطیہ دیا۔

تحریک پاکستان کے دوران کراچی جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا میں موجود اپنی جائیداد الشمس محل اور القمر محل قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی پیاری بہن محترمہ فاطمہ جناح کو نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) نے بطوررہائش دے دیے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح جب حلف اٹھانے کے لیے چلے تو آپ نے اپنی شاہی سواری قائد اعظم کو پیش کردی جس میں بیٹھ کر قائد اعظم محمد علی جناح بطور گورنر جنرل پاکستان حلف اٹھانے آئے۔

نواب صاحب نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ انہوں نے گورنر جنرل پاکستان کی سواری کے لیے اپنی مہنگی ترین کار رولزرائس بھی قائد اعظم کو بطور تحفہ پیش کردی تھی اور قائد اعظم کی رہائش کے لیے اپنا ذاتی محل جو کراچی میں واقع ہے وہ بھی پیش کر دیا تھا۔ نواب صادق محمد خان پنجم کی بے لوث خدمات کے صلے میں قائد اعظم نے انہیں ”محسن پاکستان“ کے خطاب سے نوازا تھا۔ انہوں نے نواب آف بہاول پور کی سخاوت و مروت کو دیکھتے ہوئے ایک موقع پر برملا کہا کہ ”ہمیں تو قلم کی سیاہی تک کے لئے ریاست بہاول پور کا ممنون احسان ہونا پڑا“ لیکن نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) کی خودداری دیکھیں کہ انہوں نے پاکستان کا گورنر جنرل بننے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میری خدمات پاکستان کے لئے ہر وقت جاری رہیں گی۔

نواب صادق محمد خان پنجم کی وفات 24 مئی 1966 ء کو لندن میں ہوئی۔ آپ کے جسد خاکی کو لندن سے کراچی لایا گیا اور پھربراستہ لاہور، بہاول پور اسٹیشن پہنچایا گیا۔ ریلوے اسٹیشن سے ان کی میت کو چار گھوڑوں کی بگھی میں صادق گڑھ پیلس لایا گیا۔ ریلوے سٹیشن سے صادق گڑھ پیلس تک تین میل کا فاصلہ ہے لیکن عوام کی کثیرتعداد کی وجہ سے منٹوں کا یہ فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ پلٹن میدان میں قاضی عظیم الدین کی امامت میں ادا کی گئی۔

قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد یہ پاکستان کی تاریخ کا تیسرا بڑا جنازہ تھا جس میں آٹھ لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ نماز جنازہ کے بعد میت کو پاکستان آرمی کی توپ گاڑی میں پورے فوجی اور سرکاری اعزاز کے ساتھ قلعہ دراوڑ لے جایا گیا جہاں ان کی شاہی قبرستان میں تدفین کی گئی۔ اس موقع پر پاک آرمی کی طرف سے 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی۔ محسن پاکستان نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) کی 53 ویں برسی پران کی بے پایاں خدمات کے اعتراف میں ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کی آگاہی کے لئے محسن پاکستان نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) کی ملی و علمی خدمات کو پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک نصاب میں شامل کیا جائے جبکہ اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور میں نواب سر صادق محمد خان عباسی (پنجم) پر خصوصی چیئر قائم کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).