ایورسٹ کی چوٹی پر کوہ پیماؤں کی قطاریں کیوں لگ رہی ہیں؟


ایورسٹ

AFP PHOTO / PROJECT POSSIBLE

اگر آپ دنیا کی سب سے بلند چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے بارے میں سوچتے ہیں تو تصور میں آبادی سے دور ایک بلند برف پوش چوٹی آتی ہے مگر کوہ پیما نرمل پوجا کی کھنچی گئی تصویر یہ ظاہر کرتی ہے کہ حقیقت میں وہاں کتنا ہجوم ہو سکتا ہے۔

رواں سیزن میں اس پہاڑ کو سر کرنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہونے والوں کی تعداد 10 تک پہنچ گئی ہے جن میں سے سات ایک ہفتے میں ہلاک ہوئے۔ یہ تعداد گزشتہ سیزن کی کل ہلاکتوں سے بھی زیادہ ہے۔

نیپالی حکومت نے موسمِ بہار میں ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے کے لیے ریکارڈ 381 پرمٹ جاری کیے ہیں جس کے بعد پہاڑ پر مختلف کیمپوں میں ہجوم اور چوٹی سر کرنے کے لیے قطار لگائے جانے کی خبریں گرم ہیں۔

نرمل پوجا کی ایسے ہی منظر کی ایک تصویر نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ یہ تصویر دنیا کی بلند ترین چوٹی پر کوہ پیماؤں کو پیش آنی والی مشکلات کی ایک جھلک پیش کرتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے!

کوہ پیماؤں پر ایورسٹ اکیلے سر کرنے پر پابندی

22 ویں مرتبہ ایورسٹ سر کرنے کے ریکارڈ کی کوشش

ایورسٹ کی صفائی کی مہم کا آغاز

کیا چوٹی پر لمبی قطاریں معمول ہے؟

ایسا ہی ہے۔ مقامی گائیڈز کے مطابق کوہ پیمائی کی سیزن میں یہ اکثر ہوتا ہے۔

سیون سمٹ ٹریک نامی ادارے کے سربراہ منگما شرپا کہتے ہیں ‘یہاں اکثر اتنی ہی بھیڑ ہوتی ہے۔ کوہ پیماؤں کو چوٹی تک پہنچنے کے لیے بعض اوقات قطار میں 20 منٹ سے ڈیڑھ گھنٹہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔’

اکثر اوقات یہ اس بات پر بھی منحصر ہوتا ہے کہ کوہ پیمائی کے لیے سازگار حالات کا دورانیہ کتنا ہے کیونکہ کوہ پیماؤں کو ان تیز یخ بستہ ہواؤں سے بچنا ہوتا ہے جو ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتی ہیں۔

منگما شرپا نے بی بی سی کو بتایا ‘اگر ایک ہفتے تک موسم سازگار رہے تو پہاڑ پر زیادہ بھیڑ نہیں ہوتی مگر جب موسم صرف دو تین دنوں کے لیے اچھا ہو تو یہاں بہت رش ہو جاتا ہے کیونکہ اس وقت تمام کوہ پیما ایک ساتھ چوٹی تک پہنچنا چاہتے ہیں۔‘

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ ماؤنٹ ایورسٹ پر یہ ہجوم خبروں کی زنیت بنا ہو۔ سنہ 2012 میں بھی ایک جرمن کوہ پیما رالف ڈیجموی نے ایک تصویر کھینچی تھی جس کو انھوں نے ماؤنٹ ایورسٹ پر کوہ پیماؤں کی ‘کونگا لائن’ قرار دیا تھا۔

کونگا لائن کیوبا کے روایتی رقص کو کہتے ہیں۔

کیا یہ ہجوم خطرناک ہے؟

جرمن کوہ پیما رالف ڈیجموی کا جو سنہ 1992 میں ایورسٹ سر کرنے پہنچے تھے اور اس کے علاوہ بھی چھ مرتبہ 8000 ہزار میٹر اونچے پہاڑ سر کر چکے ہیںئ کہنا ہے کہ چوٹی پر لمبی قطاریں خطرناک ہو سکتی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ‘جب لوگ لمبی قطاروں میں انتظار کرتے ہیں تو انھیں آکسیجن کی کمی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے اور شاید اترائی پر انھیں آکسیجن کی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔’

سنہ 1992 میں کوہ پیمائی کے دوران اترائی پر خود رالف کو بھی آکسیجن کی کمی کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ان کا کہنا ہے کہ ‘انھیں ایسا محسوس ہوا تھا کہ کوئی انھیں پتھر توڑنے والے ہتھوڑے سے مار رہا ہے۔’

‘مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میں ہل نہیں پاؤں گا مگر میں کافی خوش قسمت رہا کہ میں اپنے آپ کو سنبھال پایا اور آخرکار نیچے اترنے میں کامیاب ہوا۔

’جب آپ کو نو میل فی گھنٹہ سے زیادہ رفتار سے چلنے والی تیز اور ٹھنڈی ہوا کا سامنا ہو تو آپ آکسیجن کے بغیر نہیں رہ پاتے کیونکہ آپ بہت سی جسمانی گرمائش کھو دیتے ہیں۔’

https://twitter.com/EverestToday/status/1121083759665790976

بعض اوقات کوہ پیماؤں کے لیے مخصوص آکسیجن سلینڈروں کا چوری ہو جانا حالات کو مزید مشکل بنا دیتا ہے۔

مایا شرپا نے جو تین مرتبہ ایورسٹ سر کرنے آ چکی ہیں بی بی سی نیپالی سروس کو بتایا کہ ‘اس بلندی پر کسی کے آکسیجن سلنڈر کو چوری کرنا اسے قتل کرنے سے کم نہیں ہے۔ حکومت کو قوانین لاگو کرنے کے لیے مقامی شرپا برادری سے رابطہ کرنے کی ضرورت ہے۔’

یہ بھی پڑھیے!

چین اور نیپال کے درمیان ماؤنٹ ایورسٹ پر جنگ

’جہاں آکسیجن سلینڈر ہی زندگی کی ضمانت ہوں‘

ماؤنٹ ایورسٹ پر آکسیجن چوری ہونے لگی

ایورسٹ پر بسا ’خیموں کا شہر‘

‘ٹریفک جام’ کیوں ہوتا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں میں ایورسٹ پر بھیڑ بھی بڑھ چکی ہے کیونکہ مہمات کو زیادہ مقبولیت مل گئی ہے۔

آندریا ارسینا ذمرمان ایک مہم جو ہیں اور سنہ 2016 میں انھوں نے ایورسٹ کی چوٹی سر کی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے ‘ٹریفک جام’ ان بغیر تیاری کے کوہ پیماؤں کی وجہ سے ہوتے ہیں جو چڑھائی کے لیے جسمانی طور پر طاقت نہیں رکھتے۔

یہ صرف ان کی زندگی کو ہی خطرہ میں نہیں ڈالتا بلکہ ان کے ساتھ سفر کرنے والے مقامی گائیڈ (شرپا) کی زندگی کے لیے بھی خطرہ ہوتا ہے۔

ذمرمان کے شوہر نوربو شیرپا جو خود بھی ایک پہاڑی گائیڈ ہیں ایک کوہ پیما کے ساتھ 8600 میٹر بلندی پر ہونے والی بحث کو یاد کرتے ہیں جو تھک چکا تھا مگر اپنی مہم جاری رکھنے پر اصرار کر رہا تھا۔

’ہماری بہت بحث ہوئی، میں اس کو بتانا چاہتا تھا کہ وہ نیچے آ جائے اس سے پہلے کہ وہ اپنے ساتھ دو شیرپاؤں یعنی گائیڈز کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال رہا تھا۔ وہ ٹھیک طرح سے چل بھی نہیں پا رہا تھا اور ہم نے اس کو رسیوں کی مدد سے نیچے اتارا اور جس وقت تک ہم بیس کمیپ پہنچے وہ بہت شکر گزار تھا۔‘

بھیڑ والی چوٹی پر پہنچنا کیسا لگتا ہے؟

نوربا شیرپا سات مرتبہ چوٹی سر کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے نیپال کی طرف سے زیادہ رش ہوتا ہے۔ تبت کی جانب آسان ہے جبکہ چینی حکومت بہت کم افراد کو کوہ پیمائی کے اجازت نامے جاری کرتی ہے اور اس جانب سے چڑھائی بھی کم دلچسپ ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنوبی نیپال کی جانب سے آخری ریز پر، صرف ایک مقررہ رسی ہے. جب یہاں بھیڑ ہوتی ہیں تو لوگوں کی دو قطاریں بنائی جاسکتیں ہیں ایک چوٹی کے اوپر جانے والوں اور ایک نیچے آنے والوں کے لیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہر کوئی اس رسی سے لٹک رہا ہوتا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ سب سے زیادہ خطرہ اکثر اترائی کے وقت ہوتا ہے۔

’بہت سے لوگ اپنے آپ کو چوٹی تک کھینچ کر لے جاتے ہیں مگر جب وہ وہاں پہنچ جاتے ہیں تو واپسی ہر اپنی قوت اور دلچپسی کھو دیتے ہیں خاص طور پر جب انھیں یہ لمبا بھیڑ والا سفر محسوس ہوتا ہے۔‘

کیا چوٹی پر پہنچنے پر پیسے وصول ہوتے ہیں؟

کوہ پیما ڈیجموی کہتے ہیں تھکاوٹ کے باوجود انھیں ’نہایت راحت‘ ملی تھی جب وہ چوٹی پر پہنچے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ البتہ اگر آپ چوٹی پر نہ بھی پہنچیں تو بحفاظت نیچے اترنا زیادہ اہم ہے۔

’میں نے گذشتہ برسوں میں نیچے اترتے ہوئے اپنے بہت سے دوستوں کو گنوایا ہے، بہت سے حادثات اترائی کے وقت ہوتے ہیں کیونکہ اس وقت لوگ زیادہ توجہ نہیں دیتے خاص طور پر ایورسٹ پر جہاں کافی لوگ اوپر نیچے آ جا رہے ہوتے ہیں۔‘

’مہم کا اصل مزہ تو واپس بیس کیمپ میں آتا ہے۔ جب آپ واپس آ چکے ہوتے ہیں اور آپ ہر اس چیز سے محظوظ ہوتے ہیں جو آپ نے کی ہوتی ہے۔‘

بہت سے مہم جو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ چوٹی پر پہنچنا بہت ہی سیر حاصل ہوتا ہے لیکن اس کے لیے جسمانی طور پر تیار ہونا، چڑھائی کے لیے مناسب وقت کا انتخاب کرنے سے آپ رسک کم لیتے ہیں۔

نوربا شیرپا کہتے ہیں کہ 7000 سے 8000 میٹر بلند چوٹیوں کو سر کرنے کی پریکٹس کرنا ضروری ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ اس بلندی پر ان کا جسم کیسا ردعمل دے گا۔

وہ اپنی ٹیم کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ چڑھائی علی الصبح شروع کریں تاکہ وہ اس وقت تک نیچے آ سکیں جب باقی کوہ پیما اپنے سفر شروع کرتے ہیں۔

ذمرمان نے ایورسٹ کو تبت کی جانب سے سر کیا لیکن انھوں نے جان بوجھ کر اترنے کے لیے ایک اضافی دن انتظار کیا تاکہ وہاں رش کم ہو سکے۔

وہ جانتی تھیں کہ موسم کسی بھی وقت ناساز گار ہو سکتا تھا اور ان کی مہم چوٹی پر پہنچے بنا ہی ختم ہو سکتی ہے مگر ان کا کہنا ہے کہ ان کا یہ فیصلہ درست تھا کیونک جب انھوں نے چوٹی سر کی تو اور ان کے شوہر وہاں اکیلے تھے۔

’میں یہ بیان نہیں کر سکتی کہ دنیا کی چوٹی پر اپنے شوہر کے ساتھ ہونا کیسا محسوس ہوتا ہے۔۔۔۔ہم وہاں صبح کے پونے چار بجے پہنچے، انتظار کیا اور سورج کو طلوع ہوتے دیکھا۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32485 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp